تیس سال سے زیادہ عرصہ ہوا، کلکتہ کے ایک انگریزی اخبار میں خبر شائع ہوئی تھی کہ شہر میں کسی حادثہ کا شکار ہوجانے والے ایک شخص کی لاش بہت دیر تک سڑک پر پڑی رہی اور راہ گیر اس کے پاس سے یوں گزرتے رہے جیسے وہاں مٹی کا تودہ یا لکڑی کا لٹھا پڑاہو. میں وہ خبر پڑھ کر ہی اتنا رنجیدہ ہوا تھا کہ اس روز عصر جدید کے ادارئے کا عنوان ہی ‘‘وہ موت’’ رکھا تھا.آج اخبارات اور ٹیلیوژن پر روزانہ جانے کتنی انسانی اموات کا تذکرہ یوں ہوتا ہے جیسے نمک اور مرچ کے بازار بھا ؤ بتائے جا رہے ہوں. انسان انسان سے اتنا لاتعلق تو کبھی نہ تھا، انسان کشی کا مظاہرہ تو انسان نے شائد چنگیز و ہلاکو کے دور ہی میں کیا تھا. اس سے پہلے اور بیسویں مسیحی صدی سے پہلے تو انسان خاصا انسان سا ہوتا تھا. فرق کیوں پڑا، کہاں پڑا، کوئی بتائے گا کیا؟ شائد آج کسی کے پاس اس سوال کا جواب سوچنے کی فرصت بھی نہیں رہی. آج کے نکتگو 0019 میں جمع کئے ہوئے دردناک حقائق کی تعداد کروڑوں میں ہے. اور ان حقائق کو جمع کرنے میں دو ماہ کی بے خواب راتوں کا کوئی حساب نہیں ہے.
محمد طارق غازی
آٹوا ، کنیڈا - جمعہ 10 اپریل 2009