بر صغیر جنوبی ایشیا کی آزادی کی داستان بہت پیچیدہ ہے.اسے کے بہت سے دھاگے الجھے ہوئے ہیں.آزادی کے بعد ان دھاگوں کو اور زیادہ الجھا دیا گیا.اب یہ تاریخ نہیں رہی، نابینا لوگوں کے گاؤں میں نمودار ہونے والا ہاتھی ہے. جس کا جیسے جی چاہے اسے بیان کردے. گلی کےنکڑ پہ کونسا ابن خلدون بیٹھا ہے کہ کسی کا قلم پکڑ لے گا، یا کان پکڑ کر دکان سے نکال دے گا.ابن خلدون کو چھوڑئے، اب تو ہندستان میں کسی کو ڈاکٹر تاراچند بھی یاد نہیں رہے، ان کی تاریخ تو کون پڑھے. چلئے وہ تو پرانے زمانے کی باتیں تھیں. نئے زمانے کو تاراچند ملا نہ قمر الدین نہ سورج سنگھ. تاریخ کے الجھے تاروں میں روپوش ایک شخصیت مولانا محمد علی جوہر کی ہے. ان پر تو بہت کتابیں لکھی گئی ہیں.جو کچھ ان کتابوں میں نہ آسکا اس کا کچھ حصہ یہاں لکھ دیا ہے. شائد اس سے کچھ پرانی باتیں تازہ ہوں، کچھ اُس دور کو سمجھنے کی توفیق ہو اور کچھ سیاسی کھیل کھیلنے کا قرینہ پیدا ہو.
محمد طارق غازی
آٹوا،کینڈا - دو شنبہ 25 مئی 2009