غزل
فضا کا رنگ کچھ اتنا سیاہ لگتا ہے
نڈھال قافلہ - مہر و ماہ لگتا ہے
خیال ترک - محبّت کروں تو کیسے کروں؟
یہ جذبہ دل میں کچھ ایسا اتھاہ لگتا ہے
وہی تو ٹوٹ کے کرتا ہے دشمنی مجھہ سے !
جو دیکھنے میں مرا خیر خواہ لگتا ہے
مری شدید محبّت میں مبتیلا ہو کر
وہ کتنا ٹوٹا ہوا اور تباہ لگتا ہے !
جو کرتا رہتا ہے ہموار راستے میرے
کبھی کبھی تو وہی سد - راہ لگتا ہے
اداس تیرگی - شب میں روشنی دیتا
ستارہ بھی کوئی جھوٹا گواہ لگتا ہے
بہت سی خامیاں اس آدمی میں ہیں لالی
وہ پھر بھی اچھا مجھے بے پناہ لگتا ہے
قدسیہ ندیم لالی