مرے ہی خواب کی تعبیر کرنے کے لیے ہے
یہ زلف جو مجھے زنجیر کرنے کے لیے ہے
یہ سب طلسم، ہر اک حرف و آگہی کا یہ اسم
خود اپنے آپ کی تسخیر کرنے کے لیے ہے
دل اپنے آپ ہی آئے گا راہ پر، ورنہ
ہزار طرح کی تدبیر کرنے کے لیے ہے
ملائے رکھتا ہوں کچھ غم کے ساتھ غصہ بھی
یہ زھر، زھر کو اکسیر کرنے کے لیے ہے
سمجھ میں آتی نہیں جس کو بات ہی میری
وہ میری بات کی تفسیر کرنے کے لیے ہے
کوئی نہیں جو کہے حرف دو تسلی کے
جسے بھی دیکھیے تقریر کرنے کے لیے ہے
ہمیں تو ہیں کہ جو کُھل کھیلتے ہیں آپ کے ساتھ
زمانہ آپ کی توقیر کرنے کے لیے ہے
ہمیں خبر ہے کہ یہ انہدام ہونے کا
کچھ اور طرح کی تعمیر کرنے کرنے کے لیے ہے
کہیں لہو میں لرزتا ہے، آفتاب حسین
وہ ایک عکس کہ تصویر کرنے کے لیے ہے
Af