محمد خا لد ا ختر
یاد نگاری: سیدانورجاویدہاشمی
بہا و ل پور ڈویژن کے ریوے نیو اور محکمہ ء آ با د کا ر ی کے کمشنر مولوی اختر علی کے
گھرانے میں محمد خالد اختر نے سن 1920 میں جنم لیا تھا۔ یہ وہی مولوی اختر علی ہیں جو اپنے علاقے
سے عہد ایوبی میں قومی اسمبلی کے رکن بھی منتخب کیے گئے تھے۔ بہاول پور میں نواب خاندان کی
حکمرانی رہی ہے سندھ کے گورنر صادق محمد عباسی کا تعلق بھی انہی حکمرانوں کے خاندان سے رہا
وہاں کے تعلیمی ادارے صادق اسکول میں محمد خالد اختر کو داخل کروایا گیا جہاں سے میٹرک کا امتحان
پاس کرنے کے بعد وہ مشہور زمانہ صادق ایجرٹن کالج میں گریجویشن کے لیے داخل ہوئے۔18 برس کی
عمر میں بی اے کیا اور پھر انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے 1945 میں بی ایس سی الیکٹرانک
لاہور کے ایم ای سی سے کیا۔اعلا تعلیم ان کی ملازمت کے لیے کافی تھی اس کے باوجود وہ لندن گئے
1948ء میں پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ کرکے پاکستان واپس آگئے۔زمانہ ء طالب علمی میں بچوں کا ادب
ان کی دلچسپی کا محور رہا احمد ندیم قاسمی جو امتیاز علی تاج کے والد کے رسالے ’پھول‘ کے مدیر
رہے ان کے دوست تھے سو ان کے ذریعے وہ خود بھی کہانیاں لکھنے اور محفلوں میں سنانے لگے
انگریزی فکشن،اردو جن،بھوت،کوہ قاف کی پریاں بالآخر ان کو کہانی لکھنے پر اکساتے رہے۔ان کے
کہانیوں کے مجموعے میں پہلی کہانی کھویا ہوا افق 1944 کی لکھی ہوئی ہے۔ چچا عبدالباقی قسط وار
رسالہ شعور میں چھپتی رہی جسے آزرزوبی مانڈوی والا چیمبرز سے نکالتے تھے اس کے مدیران
میں پروفیسر مجتبٰی حسین بھی رہے۔ چاکی واڑہ میں وصال محمد خالد اختر کا ناول ٹیلی ڈرامے میں
ڈھل کر برسوں نشر ہوتا رہا۔ انگریزی اور اردو کے مترجم و فکشن رائٹر محمد خالد اختر کو فروغ
اردو دوحہ قطر سے لائف اچیئومنٹ ایوارڈ بھی ملا۔غالب کے خطوط کی پیروڈی مکاتیب خضر کے
عنوان سے،انگریزی کے شاہ کار ناولوں کا ترجمہ اور سن بیس سو گیارہ 2011ء کے حوالے سے
شہرت پانے والا یہ ادیب،افسانہ نگار،مترجم 2 فروری 2002ء کو چھٹے عالمی فروغ اردو ایوارڈ
کے حصول کے بعد اپنے چاہنے والوں کو سوگوار کرگیا۔آخری آرام گاہ سوسائٹی قبرستان کراچی ہے
ان کی ہمشیرہ بھی افسانہ نگار ہیں
محمد خا لد ا ختر
Moderator: munir-armaan-nasimi