نوحہ مرگ نئے آ د م کا
مرگِ آ د م کا نیا نو حہ تر ی نذ ر خدا
میں نہیں جا نتا لفظوں کا مدوجزر خدا
تُو نے جنّت سے نکالا تھا جب انساں کہہ کر
اس سے پہلے بھی جدائی کے مراحل تھے کئی
لفظ پوشاک نہ تھے جسم ِ بر ھنہ کے لئے
کوکھ میں مادرِ ہستی کے ہمکتا ہوا میں
کون ‘میں‘ ! تم سے الگ تُو نے جسے کر ڈالا
یعنی پہلے تھی خد ا ئی میں شر ا کت داری
کتنی صدیوں سے زمیں پر ہوں سسکتا ہوا میں
تُو کہ نازاں تھا بہت ا پنے خُد ا ہو نے پر
پھر مجھے کر د یا مجبور جُد ا ہو نے پر
آ
سما نوں سے زمیں کی مجھے ہجر ت بخشی
لمحہ و ساعت و ا یآم کی مُہلت بخشی
کرکے پسلی سے ہویدا نئی عو ر ت بخشی
ہاں، مگر مادر ِ ہستی کے نہ تھے اُس میں گُن
جس نے بہکا یا مجھے کہہ کے ‘ ابو آ د م سُن
عُمر اولاد گز ا ر ا کر ے عیّا ر ی میں
بار ِ دُ نیا کو اُ ٹھا نا ہے گنہ گا ری میں
ایک پر ظلم و ستم د و سر ا سر داری میں
وصل اور ہجر کے آ ز ا ر اُ ٹھا نے و ا لے
ا پنے آ نگن میں یہ د یو ا ر اُٹھانے والے
ا پنے ہی بھائی پہ تلو ا ر اُ ٹھا نے والے
جن کو تہذ یب و ر و ا یت کی نہیں ارزانی
بر بر یت میں نہیں جن کا یہا ں پر ثا نی
خو ن آ لو دہ کلا ئی تو لہو پیشانی
راہ ِ عصیاں میں بہت تیز اٹھاتے ہیں قد م
چشم ِ خوش خواب سے تعبیر نہیں کرتے بہم
خون بھر بھر کے سیاھی کے عوض لکھے قلم
چھین بینا ئیا ں، محر و م ِ نظا ر ا کر دے
و صل مر قو م مقد ّر میں دوبارا کر د ے
ختم اب کھیل ستم کا یہ خُد ا ر ا کر د ے
دے حیات ِ ا بد ی پھر نہ ا جل میں لے جا
آ سما نو ں کے مکینوں کو محل میں لے جا
ابن ِ آ د م کو اُسی ر و ز ِ ا ز ل میں لے جا
سیدانورجاویدہاشمی،کراچی
چھ مارچ ۲۰۱۳
سانحات پر رنجیدہ و دل گرفتہ کی آواز