قارئین کرام ایک تازہ کلام پیشِ خدمت ہے امید ہے پسند آئے گا ، اپنی آرا سے نوازیے
عرض کیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پَروں کو تولیں جو پنچھی اُڑان بھرنے کو
بچھائیں دام ہیں صیّاد پر کترنے کو
یہ تم جو بیٹھے ہو ہر بات سے مُکرنے کو
بچا ہی کیا ہے مرے پاس بات کرنے کو
کسی کی بولی لگی اور کسی کے دام لگے
ضرورتیں ہی بِکِیں خود کا پیٹ بھرنے کو
جہاں پہ لوگ سبھی بھیڑ چال چلتے ہوں
وہاں پہ عقل گئی سب کی گھاس چرنے کو
کسی غریب نے پھر آج خود کو بیچ دیا
کسی امیر کی سانسیں بحال کرنے کو
صنم ہزاروں بسائے ہوئے ہیں دل میں اگر
تو کیسے رب کو بسائے کوئی سُدھرنے کو
دماغ و دل میں اگردوستی سدا رکّھیں
تو اس سے روشنی ملتی ہے رہ گزرنے کو
وہ آئینے کو لیے اپنے ہاتھ میں دن رات
تصوّرات میں گم رہتے ہیں سنورنے کو
خیالؔ ساتھ نبھانے کا عہد کرتے ہوئے
ہیں چھوڑ دیتے سبھی تنہا تنہا مرنے کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کی محبتوں کا طلبگار
اسماعیل اعجاز خیالؔ