قارئین کی ِخدمت میں خیال کا آداب ایک تازہ کلام کے ساتھ حاضر خدمت ہوں امید ہے پسند آئے گا اپنی آرا سے نوازیے شکریہ
عرض کیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملتا نہیں مزاج تو ہوتا نہیں ہے میل
پتّھر وہ مارتے ہیں لیے ہاتھ میں غُلیل
ہم کو یہیں اُترنا ہے زنجیر کھینچیے
اپنی بلا سے جائے کہیں پر بھی اب یہ ریل
الفت میں دھوکا سب نے ہی کھایا ہے آپ سے
للہ ختم کیجیے دھوکا دھڑی کا کھیل
رادھا سے کہیے اور کہیں جائے ناچنے
نَو من کوئی بھی رکھتا نہیں اپنے گھر میں تیل
عزت معاشرے نے اسے دی ہے آج کل
جو چور ہے لُٹیرا ہے جاتا رہا ہے جیل
مت جائیے گا باغ میں خطرہ ہے ہر طرف
پھولوں سے ہر سُو کانٹوں کی لپٹی ہوئی ہے بیل
سب کو پرکھ لیا ہے کوئی کام کا نہیں
ایسے تِلوں میں دیکھیے ہوتا نہیں ہے تیل
تم سے خیالؔ ایسی توقّع نہ تھی ہمیں
ہر بات کو مذاق میں کیوں دے رہے ہو ٹھیل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
توجہ کا طلبگار
اسماعیل اعجاز خیالؔ