قارئین کی ِخدمت میں خیال کا آداب دو سال قبل لکھے کلام کے ساتھ حاضر خدمت ہوں امید ہے پسند آئے گا اپنی آرا سے نوازیے شکریہ
عرض کیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس ملک میں ہر شخص اداکار بہت ہے
انسانوں میں حیوان سا کردار بہت ہے
جلوَت میں شرافت کے لبادے میں ہے لِپٹا
خَلوَت میں تو ہر ایک گنہگار بہت ہے
دولت کے لیے ہر کوئی ہے بام نشیں اب
اور اس پہ ستم پارسا کردار بہت ہے
دانائی و حکمت میں ترقّی کے سبب تو
اس دیس کا ہر آدمی بیمار بہت ہے
اسلام سے منہ پھیر کے بنتا ہے مسلماں
اور اس پہ ستائش کا طلبگار بہت ہے
اخلاق کتابوں میں کیا قید ادب سے
پڑھ لکھ کے ہوا آدمی خونخوار بہت ہے
نفرت ہے عداوت ہے لڑائی ہے سبھی سے
اسلام کی تعلیم سے انکار بہت ہے
غیروں سے محبت تجھے اپنوں سے ہے نفرت
غیروں سے مسلمان تجھے پیار بہت ہے
اغراض و مقاصد کو لیے ملتا ہے اکثر
تو مطلبی ہے دوست تو فنکار بہت ہے
ایسی بھی محبت کیا کہ جو مار ہی ڈالے
اب اور نہ کر پیار تو سرکار بہت ہے
اب دیکھ خیالؔ اپنی تُو آئینے میں صورت
کہتا تُو سدا خود کو سمجھدار بہت ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپکی توجہ کا طلبگار
اسماعیل اعجاز خیالؔ