بیاد ناظم بزم شیدائے ادب متھرا سعید اعظمی مرحوم

Adabi aur tanqeedi mazaameen
Afsane aur tabsire

Moderator: munir-armaan-nasimi

Post Reply
Tanwir Phool
-
-
Posts: 2216
Joined: Sun May 30, 2010 5:06 pm
Contact:

بیاد ناظم بزم شیدائے ادب متھرا سعید اعظمی مرحوم

Post by Tanwir Phool »

بیاد ناظم بزم شیدائے ادب متھرا سعید اعظمی مرحوم

بڑے نصیب سے ملتی ہے ایسی جامہ دری

زندگی ایک فریضہ ہے جسے انجام دینا ہی پڑتا ہے اور موت ایک تلخ حقیقت ہے جسے ہم چاہتے ہوئے بھی نظرانداز نہیں کر سکتے، لیکن زندگی کی ابتدا سے لیکر آخری سانس تک کے سفر کی سب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ خالقِ کائنات نے ہر فرد کو کچھ مخصوص صلاحیتوں کے ساتھ دنیا میں بھیجا ہے، البتہ اُس فرد کی زندگی کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار اس حقیقت پر ہے کہ ان صلاحیتوں کو کس طرح بروۓ کار لایا گیا اور منزلِ مقصود تک رسائی میں ان سے کتنا استفادہ کیا جا سکا۔

محدود وسائل اور نامساعد حالات کی رکاوٹوں کے باوجود زندگی کے لئے اعلی مقاصد کا انتخاب اور خدا کی عطا کردہ صلاحیتوں کو بروۓ کار لاتے ہوۓ ان مقاصد کے حصول کے لئے سرگرمِ عمل رہنے کی عمدہ مثال ہمیں بڑے ماموں (سعید الدین) سعید اعظمی صاحب کی زندگی سے ملتی ہے۔ انہوں نے زندگی بہت اتار چڑھاؤ دیکھے لیکن کبھی شاکی نہیں رہے، اس دار فانی سے رخصت ہوئے کم و بیش ڈیڑھ سال کا عرصہ گذر گیا ہے لیکن ذہن و دل آج بھی اس حقیقت کو تسلیم نہیں کر پا رہے ہیں، اللہ تعالی انہیں غریقِ رحمت کرے، آمین۔

ان کی شخصیت گوناگوں اوصاف کی حامل تھی، ۸۵ سال سے زیادہ عمر پائی اور مکمل صحتمندی کے ساتھ، شمالی ھند کے مردم خیز ضلع اعظم گڑھ کا ایک گاؤں “منڈیار” ان کا آبائی وطن ہے، ابتدائی تعلیم کے بعد شبلی کالج کا رخ کیا لیکن معاشی دباؤ تعلیم کی تکمیل کی راہ میں حائل ہو گیا، اور بڑے بیٹے کا فرض نبھاتے ہوئے اپنے چھوٹے بھائی (ڈاکٹر بدرالدین) کی تعلیم جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور خود اپنے والد (حاجی محمد عثمان) کے دست و بازو بن گئے، یہ فیصلہ اگرچہ بہت جذباتی تھا لیکن فرض شناسی اور قربانی کی خوبصورت مثال بھی ہے۔

اس نئے سفر میں چند ماہ مشہورِ زمانہ اسلامی درسگاہ “مدرسہ الاصلاح” سراۓ میر میں مدرس کے فرائض انجام دینے بعد بہ سلسلۂ ملازمت دہلی کا سفر کیا، لیکن ان کی طبیعت میں موجود بلا کی خود اعتمادی، خودداری اور جفا کشی نے ذاتی بزنس کا حوصلہ دیا اور علی گڑھ منتقل ہو گئے، یہاں چند سال قیام کر کے بالآخر کرشن کی نگری متھرا روانہ ہوئے اور وہیں مستقل بود وباش اختیار کر لی۔

متھرا کی زندگی تقریباً چھ دہائیوں پر مشتمل ہے، لیکن یہاں انہوں نے ایک کامیاب بزنس مین کے ساتھ ساتھ، اپنی ایک الگ پہچان بھی بنائی جس کی تشکیل میں خاندانی عزت و شرافت اور شبلی کالج اور مدرسہ الاصلاح جیسے مایۂ ناز علمی، ادبی اور اسلامی اداروں کا اہم کردار بھی ہے۔ متھرا اور قرب و جوار میں سعید اعظمی ایک باوقار، خوش اخلاق و خوش گفتار، اور تہذیبی قدروں کے پاسدار کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔

وہ نہ صرف ایک بے لوث سماجی کارکن کے طور پر متعدد تدریسی مکاتب اور ان سے وابستہ افراد کی سرپرستی کرتے رہے بلکہ اردو زبان وادب کے ایسے سچے خادم ثابت ہوۓ جس نے متھرا جیسے شہر میں - جس کی سر زمین اردو شعر وادب کے لئے سنگلاخ سے کم نہ تھی، “بزم شیداۓ ادب” کا پودا لگایا، نصف صدی سے زائد عرصہ تک بڑے شوق و انہماک اور دل و جان کی آمادگی کے ساتھ تنِ تنہا اس کی آبیاری کرتے رہے، ڈیڑھ سو سے زائد شعری و ادبی محفلیں برپا کیں، اور اپنی بساط بھر مستحق شعرا و ادبا کی کفالت بھی کرتے رہے۔ یہ اردو زبان وادب سے ان کا بے پناہ عشق تھا اور:
عشق پھر عشق ہے آشفتہ سری مانگے ہے
ہوش کے دور میں بھی جامہ دری مانگے ہے

موصوف نے شاعری میں بھی طبع آزمائی کی اور لیلاۓ اردو “غزل” کی زلفیں سنواری ہیں۔ معاشی الجھنوں اور علمی و سائنسی ترقی کے زیرِ سایہ تغیر پذیر سماجی، ثقافتی اور سیاسی قدروں کا انہوں نے قریب سے مشاہدہ کیا ہے، اور اپنے عہد کی ناہمواریوں، بے اعتدالیوں اور زندگی کے نشیب و فراز کو اپنے فطری، سادہ اور مخصوص اندازِ بیان میں پیش کرنے کی کوشش بھی کی ہے، ان کے دو شعری مجموعے منظرِ عام پر آ چکے ہیں جو ان کی فکری اور شعری صلاحیتوں کا تعین کریں گے، ان کی شعر گوئی ایک طرف لیکن ان کی شعر و ادب پروری یقیناً بے مثال ہے۔

ماموں کا سانحۂ ارتحال نہ صرف اہلِ خانہ بلکہ تمام متعلقین کے لئے انتہائی صبر آزما ہے، جس نے ہمیں ایک مخلص سرپرست اور بے مثال علمی، ادبی اور سماجی خیرخواہ سے محروم کر دیا۔ ہم اہلِ خاندان کے لئے شفقت و محبت کا اتھاہ سمندر اور صلہ رحمی کا جیتا جاگتا نمونہ تھے، گزشتہ دس بارہ برسوں سے پورے خاندان کو جوڑے رکھنے کے لئے کوشاں بھی رہے۔

ہمارے والد صاحب کے بعد ماموں عمر میں سب بڑے تھے لیکن اس کے باوجود فون کرنے میں ہمیشہ پہل کرتے جبکہ ہماری طرف سے اکثر تاخیر ہوجاتی، ہماری والدہ ماجدہ ان کی چھوٹی بہن ہیں اس لئے ان کا حصہ سب سے زیادہ تھا، والد صاحب کے انتقال (۱۳ اپریل ۲۰۱۹) کے بعد بلا ناغہ صبح آٹھ بجے اور شام سات بجے ان کا فون آتا تھا، اگر کبھی والدہ کی آواز میں تھکن یا نقاہت کا احساس ہوتا تو فورا میرے پاس فون آتا یا پھر میری بڑی بیٹی کو فون کرکے والدہ کی دیکھ بھال کی تاکید کرتے۔ افسوس صد افسوس کہ ستائیس نومبر ۲۰۲۰ کی صبح سے محبت اور شفقت بھرا یہ سلسلہ ہمیشہ کے لئے منقطع ہو گیا۔

میں خود کو بہت خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ ماموں مجھے بہت عزیز رکھتے تھے، ۲۰۰۵ میں میری کتاب شمعِ سخن شایع ہوئی تو اسے سراہا بھی، شاید ماموں کی ادب دوستی کا کچھ اثر مجھ میں بھی ہو کہ سعودی عرب میں سفارتکاری کے دوران دو درجن سے زائد کامیاب کُل ھند مشاعرے ریاض، جدہ، دمام، جبیل اور مدینہ منورہ وغیرہ میں منعقد کر سکا۔

اکتوبر ۲۰۲۰ میں دو ہفتہ کے لئے دمشق سے ہندوستان آنا ہوا اور واپسی ۳۰ اکتوبر کو تھی، ماموں کو بتایا تو اصرار کیا کہ نومبر میں ہونے والی ان کی پوتی کے نکاح کی تقریب میں شریک ہوئے بغیر نہ جاؤں، جس خلوص اور محبت سے ماموں نے یہ حکم دیا تھا اس کی تعمیل لازم تھی۔ انتقال سے پچیس دن قبل ۲ نومبر ۲۰۲۰ کو متھرا جانا ہوا، ماموں نے اپنی بے پناہ محبت اور شفقت سے اس تقریب کو اپنے بھانجے کے سفیرِ ھند ہونے پذیرائی کی تقریب میں تبدیل کر دیا اور شہر کے تمام عمائدین اور شعرا و ادبا کے ہاتھوں گل پوشی کی، یہ میرے لئے بڑے اعزاز اور سعادت کی بات تھی۔

مرحوم سعید اعظمی صاحب کا حافظہ بھی کمال کا تھا، تاریخ، تحریکیں اور واقعات کا چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا۔ اسی ملاقات کے دوران انہوں نے متھرا میں علامہ حمیدالدین فراہی علیہ الرحمہ کی آخری آرام گاہ کے بارے میں بھی تفصیل سے مطلع کیا، اور دبے لفظوں میں اشارہ کیا کہ اب وہ خود بھی چراغِ سحری ہو چلے ہیں۔ اس تقریب کے کچھ دنوں بعد دہلی آئے تو اپنی بہن (ہماری والدہ) سے ملنے آۓ جو خرابی صحت کی وجہ سے تقریب میں شریک نہیں ہو سکی تھیں، اور کچھ ہی دنوں بعد ان کی سناؤنی آگئی:
کتنی بے کیف سی رہ جاتی ہے دل کی بستی
کتنے چُپ چاپ چلے جاتے ہیں جانے والے

ڈاکٹر حفظ الرحمن
(سابق سفیرِ ھند براۓ شام)
ڈائریکٹر، وزارتِ خارجہ، حکومتِ ھند
نئی دہلی۔
Last edited by Tanwir Phool on Sat Jun 25, 2022 9:16 am, edited 2 times in total.
http://www.abitabout.com/Tanwir+Phool
http://duckduckgo.com/Tanwir_Phool
http://www.allaboutreligions.blogspot.com
Tanwir Phool
-
-
Posts: 2216
Joined: Sun May 30, 2010 5:06 pm
Contact:

Re: بیاد ناظم بزم شیدائے ادب متھرا سعید اعظمی مرحوم

Post by Tanwir Phool »

یاد رفتگاں: بیاد ادب و ادیب نواز، ناظمِ بزم شیدائے ادب متھرا سعید اعظمی مرحوم
تاریخ وفات: ۲۷ نومبر ۲۰۲۰
احمد علی برقی ؔ اعظمی
صاحبِِ عز و شاں تھے سعید اعظمی
سب کے وردِ زباں تھے سعید اعظمی
ضوفشاں ہے جو متھرا میں شمعِ ادب
اس کی روح رواں تھے سعید اعظمی
ہے سپہرِ ادب پر جو جلوہ فگن
ایسی اک کہکشاں تھے سعید اعظمی
اہلِ فکر و نظر اُن کے تھے میہماں
جن کے اک میزباں تھے سعید اعظمی
کرکے بے لوث خدماتِ شعرو ادب
فخرِ دانشوراں تھے سعید اعظمی
تھی فدا اُن پہ دل سے عروسِ ادب
جسمِ اردو کی جاں تھے سعید اعظمی
اپنے گھر مجمعِ تشنگانِ ادب
دیکھ کر شادماں تھے سعید اعظمی
شعری مجموعہ ان کا ہے ”سخنِ سعید“
سب کے جو قدرداں تھے سعید اعظمی
ہے مجھے فخر وہ تھے مرے ہم وطن
برقؔ و برقیؔ کی جاں تھے سعید اعظمی

Barqi-Sanad.png
Barqi-Sanad.png (392.52 KiB) Viewed 3012 times
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی اعزازی سند وصول کرتے ہوئے
ان کی بائیں جانب سعیداعظمی صاحب ہیں
Barqi-1-Resized.png
Barqi-1-Resized.png (474.39 KiB) Viewed 2992 times
Barqi-2-Resized.png
Barqi-2-Resized.png (319.25 KiB) Viewed 2991 times
Barqi-3-Resized.png
Barqi-3-Resized.png (324.37 KiB) Viewed 2991 times
http://www.abitabout.com/Tanwir+Phool
http://duckduckgo.com/Tanwir_Phool
http://www.allaboutreligions.blogspot.com
Post Reply