Nuktagu 0020 نکتگو - محمد طارق غازی
Posted: Sat Apr 25, 2009 7:42 am
بہادر شاہ ظفر بادشاہ تو جیسے بھی تھے، شاعر مگر اچھے تھے.تو ایک بار انہوں نے کہا:
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی
اُن کے زمانے میں تو پھر بھی لوگوں کو بات کرنے کا سلیقہ تھا، اگرچہ 1857 کی تحریک کے جرم آزادی کی پاداش میں تو اچھے اچھوں کی زبانوں پر تال ڈال دئے گئے تھے، اور ہزاروں کو تو ہمیشہ کے لئے خاموش کردیا گیا تھا کہ وہ تو نمرود کی خدائی تھی.مگر اس فرعون ساماں دور میں بھی ایک معزول بادشاہ کا یہ کہہ دینا کہ بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی اور پھر اس پر محفل کا قافیہ لگا کر اسے ایسی خالص شاعری بنا دینا کہ قدغن کی دلیل لائے نہ بنے اردو کی قوت بیان کا عجیب اظہار تھا.بیان کی یہ طاقت ہر کسی کا نصیب نہیں ہوتی.اس کے لئے جگر کو بہت خون اور پتہ کو بہت پانی کرنا پڑتا ہے اور اس کے بعد بھی یہ صفت پیدا ہوجائے تو آدمی لاکھوں میں ایک شمار ہو.اسی قوت بیان کا ایک قصیدہ ایجازیہ خواجہ میر درد نے کہا اور ان کے ملفوظات سےاسے اخذ کیا پروفیسر حمیرا زیاد نے.کہیں اتفاقی مطالعہ میں آب زر سے لکھا یہ فقرہ نظر پڑا تو جی چاہا اسے ہدیہ قارئین کروں.تو حاضر ہے، اس قصیدۂ بیان کے ایک قصیدۂ ترجمان کے ہم سلک. یہی آج کا نکتگو 0020 ہے.
محمد طارق غازی
آٹوا ، کنیڈا – جمعہ 24 اپریل 2009
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی
اُن کے زمانے میں تو پھر بھی لوگوں کو بات کرنے کا سلیقہ تھا، اگرچہ 1857 کی تحریک کے جرم آزادی کی پاداش میں تو اچھے اچھوں کی زبانوں پر تال ڈال دئے گئے تھے، اور ہزاروں کو تو ہمیشہ کے لئے خاموش کردیا گیا تھا کہ وہ تو نمرود کی خدائی تھی.مگر اس فرعون ساماں دور میں بھی ایک معزول بادشاہ کا یہ کہہ دینا کہ بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی اور پھر اس پر محفل کا قافیہ لگا کر اسے ایسی خالص شاعری بنا دینا کہ قدغن کی دلیل لائے نہ بنے اردو کی قوت بیان کا عجیب اظہار تھا.بیان کی یہ طاقت ہر کسی کا نصیب نہیں ہوتی.اس کے لئے جگر کو بہت خون اور پتہ کو بہت پانی کرنا پڑتا ہے اور اس کے بعد بھی یہ صفت پیدا ہوجائے تو آدمی لاکھوں میں ایک شمار ہو.اسی قوت بیان کا ایک قصیدہ ایجازیہ خواجہ میر درد نے کہا اور ان کے ملفوظات سےاسے اخذ کیا پروفیسر حمیرا زیاد نے.کہیں اتفاقی مطالعہ میں آب زر سے لکھا یہ فقرہ نظر پڑا تو جی چاہا اسے ہدیہ قارئین کروں.تو حاضر ہے، اس قصیدۂ بیان کے ایک قصیدۂ ترجمان کے ہم سلک. یہی آج کا نکتگو 0020 ہے.
محمد طارق غازی
آٹوا ، کنیڈا – جمعہ 24 اپریل 2009