اس ہفتہ موضوع تو کچھ اور تھا اور اس پر ابتدائی کام بھی کر لیا تھا کہ ایک عبارت نظر پڑی.ہمارے پاس فکری ادارے ناپید ہیں.ملی اور قومی مسائل پر مسلمانوں کی حد تک جو کچھ تھوڑا بہت فکری کام ہوتا ہے وہ اخبارات و رسائل ہی میںہوتا ہے اور وہیں ہو سکتا ہے.مگر خود وہاں بھی اب اہل علم اور اہل فکر خال خال ہی رہ گئے ہیں.دوسرا سلسلہ انٹر نیٹ پر شروع ہوا ہے. یہ گروپ عام طور سے نوجوان لوگوں کی وقت گزاری کے مشغلے ہیں جن پر کبھی کبھی کوئی سنجیدہ بات بھی مگر ادھ کچری سی ہوجاتی ہے. کیونکہ ان گروپوں کی کوئی فکری یا علمی اساس نہیں ہے اس لئے بزرگ افراد انہیں خاطر میں نہیں لاتے.تو ان سے مجموعی طور پر کسی رہنمائی کی توقع نہیں پیدا ہوتی.بایں ہمہ، ان گروپوں میں کبھی کبھی کوئی ایسی بات پڑھنے میں آجاتی ہے جو اطلاع دیتی ہے کہ گھور اندھیرے اور آندھی میں کچھ شمعیں آج بھی روشن ہیں. شاہین فاطمہ مجھے ایسی ہی ایک شمع لگی. اسی لڑکی کی ایک تحریر کے جلال نے مجھے متوجہ بھی کیا اور متأثر بھی.اسی لئے نکتگو 0025 کا انتساب شاہین فاطمہ اور اس کی ہم عصر نسل کے نام کرتا ہوں.
محمد طارق غازی
آٹوا، کینڈا - جمعہ 29 مئی 2009
محمد طارق غازی
آٹوا، کینڈا - جمعہ 29 مئی 2009