Page 1 of 1

سید مصلح الدین سعدی مرحوم :: محمد طارق غازی

Posted: Thu Jul 22, 2010 12:31 pm
by sbashwar
محمد طارق غازی
آٹوا ، کنیڈا ۔ جمعہ ۲۵ جولائی ۲۰۰۸

سید مصلح الدین سعدی مرحوم پرسوانحی نوعیت کا مضمون سب رس حیدرآباد کے جون ۲۰۰۸ کے شمارے میں شائع ہوا، جو جولائی کے وسط اور آخر تک دور دیسوں میں پہنچا. اب چند دن میں جولائی کا شمارہ بھی آنے والا ہوگا. میں اپنے وعدے کے مطابق اس مضمون کی اِن۔پیج نقل اور PDF نقل ارسال کر رہا ہوں.
محبان علم و ادب کے بے حد اصرار پرفاس مضمون کے جملہ حقوق غیر محفوظ ہیں. (خود اس زیر نظرتحریر کا حال بھی مختلف نہیں)
احباب چاہیں تویہ مضمون اپنے دوستوں کو بھیجیں یا اپنی ویب سائٹس پر شائع کر دیں . اس کے لئے مصنف کو مطلع کرنا ہرگز ضروری نہیں، ویسے مطلع فرمادیں تو فیض احمدفیض کی روایت یاد آتی ہے. ان کا کوئی مجموعۂ کلام سوویت حلقۂ سیاست کی کسی غیر معروف زبان میں شائع ہوا . اس کی ایک کاپی ان کی الماری میں بھی رکھی تھی. کسی نے پوچھا یہ کتاب یہاں کیوں رکھی ہے جب کہ آپ اسے پڑھ بھی نہیں سکتے. فیض نے کہا، دیکھ کر خوش تو ہو سکتا ہوں.یہ مضمون پھیل جائے تو اس کی اطلاع سے مصنف کو خوشی ہو سکتی ہے، اس لئے کہ اکبر الہ آبادی نے جو مضمون لکھا تھا وہ نہیں پھیلا تھا حالانکہ( ڈاسن کا )جوتا چل گیا تھا (اور آج تک چلے جا رہا ہے) اور اکبر اس پر بھی خوش تھے.
یہ مضمون سب رس میں فن کتابت کے اصول کے مطابق شائع ہوا ہے، مع تمام اغلاط کے: وہ غلطیاں بھی جو مصنف کے سہوِ قلم کا نتیجہ تھیں اور وہ بھی جن کے نہ کرنے پر مصنف کاقلم شرمندہ تھا. بحمد اﷲ مشینی کاتب نے مصنف اور اس کے قلم کو شرمندگی سے بچا لیا. مضمون میں ایک جگہ مصنف نے عید کے شیر خرما کا ذکر کیا تھا. پہلے مسودہ میں حیدرآباد سے اپنی دلی وابستگی کے ثبوت کے طور مصنف نے اس لفظ کو ویسے لکھا تھا جیسے ارباب حیدرآبادمیں سے بعض اہل علم و دانش قورمہ کے ہجے بولنے میں لکھتے ہیں. مگر پھر اپنی لسانی دہلویت کا خیال آیاتو عجلت میں مصنف خورمہ سے صرف ’’و‘‘ کو گراسکا، اور ہائے ہوز کو الف مفتوحہ سے مبدل نہ کر سکا. سو بعد اشاعت اب یہی مغلوطہ خورمہ سند ہے . اہل فارس اعتراض کریں تب بھی یہ لفظ یوں بھی مستند ہوا، کہ ان تیز گام دنوں میں سند کے لئے لغت عامرہ اور فرہنگ آصفیہ دیکھنے کی زحمت اٹھانے کا وقت ملنا ممکن نہیں رہا،بلکہ اب تو سہولت کی خاطر ہرشخص متبع میر ہے کہ جو لکھ دیا ۔ بلکہ جو چھپ گیا ۔ وہی مستند ٹھہرا. تاہم اس سند کو ساقط کرنے کی خاطرمصنف نے اس مضمون میں چند اصلاحات ویسے ہی کر دی ہیں جیسی عہد رفتہ میں نوشیرواں اور جہانگیر قسم کے بادشاہ اپنے ممالک محروسہ میں نافذ کرکے مستقبل کے مؤرخین سے داد حاصل کرتے تھے.
امید ہے مستقبل کے ادبی مؤرخین تک اس مضمون میں بعداز اشاعت اصلاحات کے نفاذ کی اطلاع پہنچادی جائے گی.
یہ مضمون واحد ہے رسول احمد کلیمی، علیم خان فلکی، نواب مرزا، مہتاب قدر، شاہد نعیم، خورشید خضر، انیس احمد صدیقی کے لئے، لیکن نکتہ داں اور غالب کے طرف دارحضرات اس فہرست دل پذیر میں حسب مرضی اضافے فرما سکتے ہیں.

Re: سید مصلح الدین سعدی مرحوم :: محمد طارق غازی

Posted: Thu Jul 22, 2010 12:38 pm
by sbashwar

سعدی صاحب
ایک شخص ہزار یادیں

محمد طارق غازی

قرآن حکیم میں نسل انسانی کو دو واضح گروہوں میں بانٹا گیا ہے: ماننے والے ، نہ ماننے والے. اس عمرانی کلیئے سے کوئی خارج نہیں، ادیب و شاعر بھی نہیں. البتہ ذیلی تقسیم کی جائے تو خود اہل ادب کے بھی دو واضح گروہ نظر آتے ہیں: مشہور یا پھرشہرت سے کنارہ کش.سعدی صاحب اہل ادب کے اس دوسرے گروہ سے تعلق رکھتے تھے اور اسی عالم میں دنیا سے رخصت ہوگئے.
یہ کون تھے؟
نام تھا سید مصلح الدین سعدی.تقریباً لفظ بلفظ شاعر شیراز کے ہم نام. باشندے تھے حیدرآباد کے جسے اس شہر کے پرانے باسی آج بھی فرخندہ بنیاد کہتے ہیں. میر ایوب علی خان نے ایک بار بتایا تھا اصلاً سعدی صاحب کا تعلق حیدرآباد سے باہر کسی قریے سے تھا، مگر کم عمر تھے کہ ان کے والد معز الدین ملتانی حیدرآباد میں آ بسے تھے.پھر جیسا کہ اکثر شرفا کا دستوررہا ہے، قلندری دور آیا اور سعدی صاحب تعلیم ترک کر کے پولس میں بھرتی ہوگئے. اس نوکری نے تو ان کے مزاج سے لگّا نہ کھایا مگر اس نوکری کا مزاج لے کروہ پولس سٹیشن سے باہرنکل آئے اور پھر اس مزاج کو ادبی تنقید میں اسی طرح استعمال کرنے لگے جیسے ۔ سعادت حسن منٹو اور سہراب مودی کی سند کے مطابق ۔ دلی کا کوتوال غالب کے عشق ڈومنی کے سلسلے میں ظاہر کرتا تھا. کوتوالی کی سند لے کر سعدی صاحب ایک بار پھر تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے . حیدرآباد یونیورسٹی سے ایم اے کرنے والے تھے مگر پھر مزاج کا انقلاب انہیں وہاں سے بھی باہر لے آیا. رحمت یوسف زئی، جو خود حیدرآباد یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر ہوئے، ایک بار مجھ سے کہنے لگے کہ اگر سعدی صاحب نے یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کر لی ہوتی تو حیدرآباد یونیورسٹی میں اردو کے صدر شعبہ ہو جاتے. رحمت یوسف زئی صاحب کی یہ بات تو سو فی صدی درست ہے مگر پھر ہم سے سعدی صاحب کی دوستی کہاں ہوتی.
میری ان کی دوستی جدہ میں شروع ہوئی اور جدہ ہی میں رہ گئی.یہ بیس برس کا قصہ ہے. جدہ میں سعدی صاحب کو بزرگانہ احترام کرنے والے ڈھونڈے بغیر ہی مل گئے تھے اور بہت ملے تھے. مگر دوست انہیں خود ڈھونڈنے اور بنانے پڑے تھے.
آٹھویں دہائی کے آخر اور اور نویں دہائی کے آغاز میں جدہ بہت خشک شہر تھا.سماجی زندگی تقریباً نا پید تھی.شہر میں بسیں اور ٹیکسیاں چلتی تھیں نہ فون تھے.چھوٹے ٹرک جن کو وہاں دَبّاب کہا جاتا تھا، انسانوں کو ڈھویا کرتے تھے. باب مکہ سے اس زمانے میں بے آباد طریق مدینہ پر بافیل کے گیس سٹیشن تک اور طریق مکہ پر کیلو عشرہ تک کوسٹر بس کی سروسیں تھیں جن کواندر سے ’’علیٰ جنب‘‘ (کنارے ہو جاؤ) کا نعرہ لگا کر یا سڑک کے کنارے سے ہاتھ کا اشارہ دے کر رکوایا جا سکتا تھا. ان کوسٹروں یا دبابوں میں بیٹھ کر لوگ شام کو بلد چلے جاتے تھے. بلد جدہ کا پراناقلبِ شہر تھا. وہاں ڈاک خانہ کے پاس تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر ہندستانی ، پاکستانی، مصری، فلسطینی، سودانی کارکن جمع ہوتے اور تھوڑی دیر کو اپنے اپنے غربت کے غم غلط اور اپنے اپنے کلچر کا آموختہ کر لیتے تھے.اوروں کا تو پتہ نہیں ، مگر سارے ہندستانی پاکستانی ان بازاری ملاقاتوں پر راضی نہ ہوئے اور ان میں سے چند لوگوں نے مل کر حلقۂ اربابِ ذوق جدہ قائم کر لیا. مجھے پتہ نہیں یہ نام کیوں رکھا گیا تھا. بہر حال جب ارباب ذوق حلقہ بند ہوئے تو جدہ میں مشاعرے ہونے ضروری ٹھہرے.ویسے بھی دنیا کے چند آسان کاموں میں ایک شاعر بن جانا ہے. اور اب تو اس کے لئے موزونیت طبع کی شرط بھی نہیں رہی. دوسرا آسان کام مشاعرہ کرنا ہے. بہر حال، مشاعروں میں کلچر کی پیاس بجھنے کا سامان ہو گیا.
میں طریق مکہ کے کیلو اثنین پر ایک ایسے گروہ کے ساتھ جبری ناکتخدائی کی زندی گزار رہا تھا جس کے ہر فرد نے اردو قاعدے میں الف تو پڑھا تھا مگر کسی نے انہیں یہ نہیں پڑھا یاتھا کہ الف سے اُلو اور انگور کے علاوہ اردو اور ادب بھی ہوتا ہے. میں وہاں سنتا رہتا تھا کہ کیلو خمسہ پر جامعہ کے علاقے میں مشاعرے ہوتے ہیں.اب ان مشاعروں کے لئے میں اگر دروازے کھٹکھٹانا شروع کرتا تو کم ازکم اس علاقے کی غیر سرکاری مردم شماری ہو سکتی تھی، مگر جدہ میں غیر سرکاری کاموں کی اجازت نہیں تھی. اب تویوں بھی امت مرحومہ کی ایک شناخت یہ ہے کہ ہمارے ملکوں میں عوام کے علاوہ سب کچھ سرکاری ہوتا ہے.لہٰذایہ پتہ نہ لگا کہ مشاعرے کہاں ہوتے ہیں. کبھی کبھی کنواں بھی پیاسے کے پاس آجاتا ہے .اعتماد صدیقی مرحوم کو میرا پتہ ٹھکانہ مل گیا اور انہوں حلقۂ ارباب ذوق جدہ کی مشیری کی سند کے ساتھ مشاعرے میں مدعو کرلیا. اس مشاعرے کی صدارت اعتماد صدیقی کے دوست رؤف خلش کر رہے تھے جو جدہ میں نووارد تھے. پھر کچھ عرصہ سوکھا رہا، یعنی ہندستانی پاکستانی ا ہل ذوق اور ارباب ادب بھی ابراہیم جلیس مرحوم کے مشورے پربلد میں ڈاک خانہ کے سامنے ثقا فت کی تلاش کرتے رہے.
وہ۱۹۸۳ یا ۱۹۸۴ کی عید تھی. حلقۂ ارباب ذوق جدہ نے مہتاب قدر کے گھر پر عید ملن مشاعرے کا اہتمام کیا ۔ عید کے روائتی شیر خرمہ کی ضیافت کے ساتھ. اعتماد صدیقی کی دعوت پر میں ڈھونڈتا ڈھونڈتا ’’مشاعرہ گاہ‘‘ پہنچا .نشست کا کمرہ شاعروں اور اکا دکا سامعین سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا. ناظر قدوائی المتخلص بہ ’’والد‘‘ نظامت کر رہے تھے. صدر یاد نہیں رہا کون تھا اس شب. مشاعرہ رفتہ رفتہ جم رہا تھا کہ نصف شب کے بعد ایک صاحب دروازہ سے داخل ہوئے. دراز قامت. بنفشی رنگ. ٹھڈی پر تھوڑی سی ڈاڑھی. سیاہ بش شرٹ اور سیاہ پتلون زیب تن کئے.کچھ لوگوں نے اٹھ کر استقبال کیا اور مسند کے بائیں جانب لا بٹھا یا. اس سمت نووارد کے کچھ نیاز مند بیٹھے تھے.میں مسند کے دہنی طرف تھا. وہیں عبداﷲناظر بھی تشریف فرما تھے اور کاوش عباسی بھی. مشاعرہ کے اختتام کے قریب سیاہ پوش شاعر کو مدعو کیا گیا. دو شاعروں کی شعر خوانی کے درمیان ہونے والے روا ئتی شورو شغب میں نئے شاعر کا نام میں نہ سن سکا. مگر دیکھا وہی سیاہ پوش شاعر مائک پر آئے. بڑے زور شور سے بڑے تیور کی غزل سنائی . جس نے داد دی اسے آداب کہا.جس نے داد نہ دی اس پر ایک نگاہ گرم ڈالی اور پھر اسے نظر اندازکیا اور اگلے شعر کی طرف توجہ کی.اوریوں کلام سنا کر اپنی نشست پر واپس چلے گئے.
جدہ میں نوواردوں کے تعارف کا تکلف نہیں کیا جاتا.چنانچہ یہ کام نہ ہوا . یہ کام، دلچسپی ہو، تو خود کرنا پڑتا تھا.مشاعرہ اذان فجر کے آس پاس ختم ہوا تو ہر شخص تیزی سے باہر نکلا اور منٹوں میں نہ جانے کہاں غائب ہو گیا. میں اپنے بیٹے منصور غازی کے ساتھ پیدل گھر واپس آگیا.
اس مشاعرے کے چند روز بعد ایک شام دروازے کی گھنٹی بجی. باہر نکل کر دیکھا تو وہی مشاعرے والے سیاہ پوش شاعر تھے. اس دن لباس دوسرا تھا.پیشوائی کی. دیوان خانہ میں لا کر بٹھایا .
’’سلام علیکم. مجھے مصلح الدین سعدی کہتے ہیں.‘‘
شکوہ کیا جدہ کے فرزندانِ تہذیب کا.کہا عجیب لوگ ہیںیہ جدہ والے ، کسی کا تعارف نہیں کرواتے. اس روز آپ کی غزل سنی. جی چاہا ملاقات کروں مگر کسی نے ملاقات کروانے کی ضرورت محسوس نہ کی . کسی سے پوچھا یہ صاحب کون تھے، تو بولے، پتہ نہیں کون ہیں، کوئی نئے شاعر ہیں. میں نے آپ کی تلاش شروع کی. بمشکل معلوم ہوا کہ سعودی گزٹ میں کچھ کام کرتے ہیں ، انڈین سکول کے پاس کہیں رہتے ہیں، گھر کا پتہ نہیں. سکول کے پاس آکر محلہ والوں سے پوچھا تو کسی نے گھر کا نشان پتہ دیا.. عمارت کے پاس پہنچا تو انڈین سکول کے ایک استاد نے بتایا ... وغیرہ وغیرہ.
مجھے بڑی قدر ہوئی. کون اس طرح کسی کی تلاش میں نکلتا ہے.
شعر شاعری ہوئی . ایک شریر غزل بھی سنائی جو حیدرآباد میں کسی بر خود غلط شاعر سے چھیڑ خانی کے طور پر کہی تھی: تماغ ، لفاغ، نصاغ قسم کے خانہ ساز قافیوں میں. ادب ماضی اور ادب حال پر تبصرے ہوئے. جدہ میں علمی اور ادبی کام کرنے کے منصوبے بنے .اور یوں اس تین چار گھنٹے کی ملاقات میں وہ دوستی قائم ہوئی جسے میں اپنی جدہ کی کمائی کہتا تھا.جمعرات ۹ جنوری ۲۰۰۳کی شب میں تقریباً ۲۰ برس کی میری وہ کمائی چھن گئی.
حیف در چشم زدن صحبت یار آخرشد
ہمارے لئے وہ بڑی قیامت کی رات تھی.اس شب ہم چندلوگ فیض الرحمان زاہد صاحب کے گھر بیٹھے تھے.اُن دنوں ہفتے میں ایک رات وہاں مجلس جمتی تھی. ادھر ادھر کی باتیں چل رہی تھیں. آدھی رات ہو چکی تھی. زاہد صاحب کے فون کی گھنٹی بجی. دوسری طرف سعدی صاحب کے بڑے بیٹے جاوید میاں تھے. اور جاں کاہ خبر تھی.ہم سب گنگ بیٹھے رہ گئے.اس گھر میں سعدی صاحب کے ساتھ بڑی نشستیں رہا کرتی تھیں. ابھی دس بارہ روز پہلے ہیکی تو بات تھی کہ ڈاکٹر عبدالرحیم ان سے مل کر آئے تھے اور حج کے بعد ان سے جدہ آنے کا وعدہ بھی لیا تھا.مگرسعدی صاحب کے لئے تو بیت معمور کی زیارت کا بلاوا آچکا تھا. وہ جدہ آئے ہوتے تو شہر میں شائد ایک بار پھر کچھ ہو حق کا سامان ہوتا اور وہ سناٹا جو وہاں چھایا ہوا تھا شائد دور ہوتا. اور شائد یہ سب کچھ ہوتا ہی نہ. تواسی لئے اﷲنے ان کی لاج رکھ لی اور انہیں اپنے پاس بلا لیا.
ہمیشہ رہے نام اﷲ کا
اس وقت ان سے پہلی ملاقات میری نظروں میں گھوم گئی.اس ملاقات میں چند خطوطِ ربط واضح ہوئے تھے. علمی مذاق اور شعری لفظیات میں خاصی ہم آہنگی تھی. بعد میں یہی باتیں بہت گہری دوستی کی اساس بنیں. بیس برس میں ان کے ساتھ ہزاروں باتوں پر اتفاق رائے رہا توکچھ معاملات میں رائیں مختلف بھی رہیں. مگر یہ تو سوچنے والے دماغوں کا مقدر ہے.اصل بات تو وہ تعلق تھا جو اُن سے قائم ہو گیا تھا اور اس تعلق کو کوئی اختلاف رائے متأ ثر نہیں کرسکتا تھا.
سعدی صاحب بہت سی خوبیوں کے مالک تھے.بے دھڑک بولتے تھے ، مگر ہر شخص پر آسانی سے کھلتے نہ تھے.یہ ان کی عجیب خوبی تھی. سرسری طور پر ان سے ملنے والوں کو ان کی شخصیت کا صحیح اندازہ نہیں ہوتا تھا. بعض اوقات ان کا لہجہ سننے والوں کو بہت جارحانہ لگتا تھا. کبھی کبھی یہ ارادتاً ہوتا تھا اور اکثر عادتاً .جب ارادتاً جارحانہ لہجہ اختیار کرتے تو یا کسی متوقع شر کی پیش بندی مقصودہوتی تھی یا کسی کو اُس کے علمی ادبی قد و قامت کے بارے میں اطلاع دینا منظور ہوتا تھا یا پھر ان کے اندر چھپا ہوا بچہ بس شرارت پر آمادہ ہوتا تھا.یہ راز اس وقت کھلتا جب کبھی میں تنہائی میں انہیں اس پر ٹوکتا تھا.وہ جو بولتے تھے پورے وثوق سے بولتے، خواہ محض چھیڑ خانی کے لئے بول رہے ہوں یا رفع شر مقصود ہو.
وہ خود بہت کم شعر کہتے تھے. مضمون نگاری کے معاملے میں قطعاً سنجیدہ نہ تھے.اس بات پر ان سے بار ہا میرا جھگڑا ہوا.آخر میں پشیمان ہوتے، معذرتیں کرتے، نئے وعدے کرتے، مگر اپنی خو نہ چھوڑتے.البتہ ایک کام جس میں انہیں ید طولی حاصل تھا وہ اوروں سے کام لینے کا فن تھا. میں اکثر ان کی اس فنکاری کا شکار ہوا .اوریہ سچ ہے کہ میری کچھ شعری اور نثری تخلیقات ان کے اصرار بلکہ ضد کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی تھیں.انہوں نے اوروں سے نہ سہی، مجھ سے کام لینے کا ہنر جان لیا تھا. دوست دوستوں کی کمزوریوں سے واقف ہوتے ہیں، مگر کسی کی کمزوری سے کوئی توانا کام لے لینا ہر شخص کے بس کی بات نہیں. بارہا ایسا ہوا کہ میں کسی علمی یا ادبی منصوبے پر کام کرتا ہوتا اور سعدی صاحب نازل ہوتے، کوئی دوسرا کام سپرد کرتے، حکم دیتے، اصرار کرتے، اس کی تکمیل کے سلسلے میں دھمکیاں دیتے. اور جب ان کا کام پورا ہوجاتا تواب میرے اُس ادھورے کام کی تکمیل کے درپے ہوتے. حکم دیتے، اصرار کرتے، دھمکیاں دیتے ...
مزاح گوشاعر سگار لکھنؤی نے جدہ میں یک رکنی بزم جگر (مرادآبادی) قائم کی جس کے تحت طرحی مشاعروں میں طبع آزمائی کے لئے وہ عموماًغالب کے مصرعے دیا کرتے تھے.ایک بار مصرعہ طرح تھا:
لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں میں
مشاعرہ سے ایک شب قبل بیرسٹر رشید شیخ کے گھر پرحسب معمول مجلس جمی ہوئی تھی. ان دنوں ملاقاتوں کا مرکز وہی گھر تھا.کچھ ۱۲ بجے کا عمل ہوگا کہ سعدی صاحب نے والد محترم، مولانا حامد الانصاری غازی ؒ ، سے کہا کہ کل کے مشاعرہ کی غزل بغرض اصلاح پیش کرتا ہوں. سعدی صاحب کی غزل سن کر والد صاحب نے بھی اس طرح میں اپنی غزل سنا ئی. مجھے خاموش دیکھ کر سعدی صاحب نے مجھ سے غزل کی فرمائش کی . سچی بات یہ ہے کہ مجھے طرحی غزل سرائی سے کبھی رغبت نہیں ہوئی. جگالی سی لگتی ہے. کوئی شاعر نہیں مانتا نہ مانے. یہاں کسے دعویٰ ہے. اور پھر وہ پارکھ کہاں ہیں جو مشاعرہ میں طرح پر گرہ سے زبان پر دسترس، فن پر عبور، محاورہ پر قابو کا اندازہ قائم کریں اوران بنیادوں پرکسی شاعر کی قادر الکلامی اور ادبی مقام کا تعین کریں. بارہا دیکھا کہ اکثر شعرا تو مصرعہ طرح ہی کو گول کر جاتے ہیں. میں اسی لئے انہیں طرحی نہیں، زمینی مشاعرے کہتا ہوں.کسی بھی شاعر کی زمین کا انتخاب کیا اور اپنا ہل چلادیا. چنانچہ میں نے سعدی صاحب سے کہاکہ نہ غزل کہی ہے اور نہ مشاعرہ میں جانا ہے. بس بگڑ گئے. حکم نادری ہوا کہ کل شام تک غزل بھی کہنی ہے اور مشاعرہ میں بھی جانا ہے، ورنہ ...!
اس رات بھر نہیں سو یا.طرح میں کچھ شعر نکالے. دن میں دفتر پہنچا، وہاں چکی کی مشقت کے ساتھ تھوڑی تھوڑی دیر میں جب موقعہ ملتا مصرعوں شعروں پر نظر ثانی کرتا رہا. سعدی صاحب مغرب بعد گھر پر آگئے. رات کے حکم کی معذرت کی اور فرمایا کہ ظاہر ہے اس کم وقت میں غزل ہونی ممکن نہیں تھی، اس لئے مشاعرہ میں کوئی اور غزل سنا دیجئے گا کہ مشاعرہ میں جانا از بس ضروری ہے. میں نے عرض کی کہ وہ جو رات بھر دماغ پاشی کی ہے اس کا کیا ہوگا؟ بس ایک دم گلے سے لپٹ گئے. مگر اس کے بعد انہیں میری کمزوری کا علم ہوگیا .ان کے حکم نادری کا دُرہ تو خودنادر شاہ درانی پرچلتا تھا. دو فکاہیہ مضمون، ماہ اقبال کے لئے شاعر مشرق پر ایک مضمون، اقبال پر ایک اور مضمون،ایک طرحی غزل ، ایک زمینی غزل ، نیز ایک اپنی مرضی کی غزل،وغیرہ کی تمام خوبیوں اور خامیوں کے ذمہ دار سعدی صاحب ہی تھے.
ہندستان میں۱۹۸۹ کے الیکشن کی ہما ہمی تھی اورمیں اس دوران سعودی گزٹ میں ایک ملک کی خبروں کواخبار کا پورا ایک صفحہ دینے کا ایک نیا تجربہ کر رہا تھا .اس الیکشن کی روزانہ تفصیلات کی اشاعت سے اس تجربے کا آغاز کیا تھاجس کی وجہ سے گھر بھی اکثر دیر سے آنا ہوتا تھا. انہی دنوں کی بات ہے کہ ایک رات سعدی صاحب گھر پر آئے اور بولے کہ ایک خبر ہے.کراچی سے اکبر حسینی آئے ہیں. اگلے چہار شنبہ کو ایک ادبی اجلاس اور مشاعرہ ہوگا. ادبی اجلاس میں ڈرامے کے فن پر بات ہوگی کہ اکبر حسینی نے اس موضوع پر کام کیاہے.میں نے پوچھا یہ حسینی صاحب کون ہیں؟ فرمایا، بدھ کے دن ملاقات کر لیجئے گا. مگر ایک مزاحیہ مضمون اور ایک تازہ غزل لے کر آیئے گا. میں نے احتجاج کیا. چار دن بیچ میں ہیں، ادھردفتر کی بڑھی ہوئی مصروفیت الگ. غزل اور مضمون کے لئے وقت کہاں سے لاؤں. فرمایا، مضمون نہیں ہوا تو تقریر کر دیجئے گا، لیکن غزل ضروری ہے. پوچھا تقریر کس موضوع پر. ڈرامے پر تومیں کچھ زیادہ علم نہیں رکھتا.بولے، کسی بھی موضوع پر بول دیجئے گا.اور یوں مجھے اس مخمصے میں ڈال کر انہوں نے پورے اطمینان سے چائے کا ایک گھونٹ لیتے ہوئے موضوع گفتگو بدل دیا.
اگلے دن یاد دہانی کا فون آیا. رات رات بھر جاگ کر ان کی فرمائش پوری کی. بدھ کی رات آئی . ضیأالدین نیر صاحب کے گھر پر ملے توسرگوشی میں مجھ سے معذرت کی کہ مشغولیت کا اندازہ تھا، اس لئے اگر مضمون اور غزل نہ بھی ہوتو کوئی مسئلہ نہیں. میں نے کہا اور وہ جو غزل اور مضمون لکھ لیا ہے وہ کب سناؤں؟ توخوشی کے مارے اچھل پڑے اور یوں شکر گزار ہوئے جیسے میں نے انہیں ملازمت دلوادی ہو.اس دن کے فکاہیہ مضمون ’’اب کیا لکھوں؟‘‘ میں ایک جملہ میں نے خود ان کے بارے میں لکھا تھا کہ وہ حکم بھی دیتے ہیں تو یوں کہ لگتا ہے جیسے درخواست کر رہے ہوں. بہر حال اس روز معلوم ہوا کہ اکبر حسینی صاحب ایک زمانے میں کراچی میں ’’مرزا غالب بندر روڈ پر‘‘ اور’’لال قلعہ سے لالو کھیت تک‘‘ وغیرہ ڈراموں میں خواجہ معین الدین کا ہاتھ بٹاتے تھے، اور صاحب خانہ ضیاء الدین نیر کے خسر بزرگوار تھے.
شاعری میں سعدی صاحب کا نقطۂ نظر تعمیری اور مثبت تھا.لکھنوی مزاج کی خالص عاشقانہ شاعری کو گوارہ کر لیتے تھے مگر عمرانی مقاصد کے لئے اسے مفید نہ جانتے تھے.میں اکثر سوچتا تھا کہ ان کا نقطۂ نظر صرف ادب اسلامی کی تاثیرسے نہیں بنا تھا بلکہ اس کے اظہارمیں آخری نواب اودھ واجد علی شاہ اور آخری نظام دکن میر عثمان علی خاں کے مزاجوں اور ذوق (اور اہل حاشیہ) کا فرق بھی جھلکتا تھا.بالخصوص نئے اہل قلم کو وہ اس دوسری سمت میں پیش رفت کے لئے توجہ دلاتے رہتے تھے. یہ الگ بات ہے کہ ان کے حاکمانہ ، بلکہ کوتوالانہ لہجے اور رویئے کی وجہ سے نئے لکھنے والے ان کی بات کا اتنا وزن محسوس کرتے کہ اسے اٹھا نہیں پاتے تھے.میں ان سے کہتا کہ ذرا نرمی اختیار کریں تو میری بات نہ مانتے اور اپنے حق میں دلائل کے انبار لگاتے، جو اکثر ان کے بلند آہنگ کی وجہ سے مخاطب کو خاموش کر دیتے.مگرمیں بھی وقتاً فوقتاً اپنی کہے جاتا. تو ایک دن یوں ہوا کہ انہوں بساط مجھ پر الٹ دی.
ہم لوگ ضیأالدین نیر صاحب کے گھر پر بیٹھے تھے. کسی قلمکار نے اپنی دو ایک نثری تخلیقات سنائیں. میں نے بھی کچھ تبصرہ کیا.سعدی صاحب نے اچانک پینترا بدلا،نئے لکھنے والوں کی تحریروں میں زبان و بیان کو نشانہ پر لیا اور پھر میری سمت اشارہ کر کے بولے:
یہ زبان جانتے ہیں مگر بتاتے نہیں.
اگلے روز میرے گھر پر آئے تومیں نے کہا، حضور یہ کیا حرکت تھی؟ بولے، اب آپ کی سمجھ میں آیا نہ کہ میں سختی کیوں کرتا ہوں. میں جانتا ہوں آپ نرمی سے بات کریں گے اور لوگ آپ کی بات ہی کو نہیں خود آپ کو بھی کو رد کردیں گے.سن رکھئے، کوئی نہیں سنے گا.یہ بہت مختلف نسل ہے.
تاہم ان کا رویہ اُس نسل کے ساتھ بھی یہی تھا جو مختلف نہیں تھی. مجمع میں بیٹھ کر عموماً کہا کرتے تھے کہ سچا دوست وہ ہوتا ہے جو دوست کی ادبی تخلیقات کو دشمن کی نظر سے دیکھے.سو، بحمداللہ وہ میرے سچے دشمن تھے. شعر اچھا ہوا تو جی کھول کے داد دی. پسند نہ آیا تو صاف کہہ دیا کہ ابھی آپ کے معیار کی نہیں ہوئی. اس پرکچھ اور محنت کیجیے. شعرجی کو نہ لگتا تو بھرے مجمع میں بھی پتھر بنے بیٹھے رہتے. آنکھیں بھی چار نہ کرتے کہ کہیں مروت میں تعریف منہ سے نہ نکل جائے. اور شعر یا غزل پسند آتی تو ان سے زیادہ داد بھی کوئی نہ دیتا اور اتنی بلند بانگ کہ محلہ والے بھی سن لیں.میری بعض غزلیں اکثر فرمائش کر کے سنتے اور باہر سے آنے والے مہمانوں کوسنواتے.
جدہ میں جتنی طویل نشستیں سعدی صاحب کے ساتھ ہوئیں اتنی کسی اور دوست کے ساتھ نہیں ہوئیں. تقریباً روز کا ملنا تھا، اور مہینہ میں دو ایک بار تو ہمیں باتیں کرتے صبح ہوجاتی. گفتگو کا مرکزی نقطہ تو دنیا کے مسلمان ، خاص طور پر ہندستان کے مسلمان ،ہوتے تھے، یا پھر ادب و تنقید.بلکہ ادب کو بھی وہ اسی مسلم پس منظر میں دیکھتے تھے.اگرچہ خود ادبی تنقید نگاری کے معاملے میں لا ابالی مزاج تھا، مگر ادب و تنقید کو پھکڑ پن، مذاق اور وقت گزاری کا مشغلہ نہیں سمجھتے تھے .کہا کرتے تھے کہ یہ باتیں جان کا بھوگ مانگتی ہیں. ان موضوعات پر ہمیشہ بڑی سنجیدگی سے بات کرتے تھے. ضروری نہیں تھا کہ ہر مسٗلہ پر ہم دونوں ہم رائے بھی ہوں.مگر اختلاف کے باوجود ایسے امور پر وہ میری بات کو رد نہیں کرتے تھے.وہ ادب اسلامی کے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے؛میں ادب پر کسی جماعت، تنظیم یا جدلیاتی فلسفے کی بالادستی کا مخالف. ترقی پسند تحریک نے اردو زبان کوجس طرح لفظوں کی پہنائیوں سے دور کیااور پھر جدید ادب نے جس طرح اسی لسانی روش پر آگے بڑھ کر نسلوں کو گونگا کر دیا وہ سب میرے سامنے تھا اور میں انہی بے زبان نسلوں کو دلیل کے طور پر پیش کیا کرتا تھا. اس موضوع پر علیم خان فلکی کے گھر پر ایک شب ادب اسلامی کے عزیز بگھروی مرحوم سے ایک طویل مگر بے نتیجہ گفتگو کے بعد سعد ی صاحب رفتہ رفتہ لسانی سطح پر میرے نقطۂ نظرسے ایک حد تک متفق ہوگئے تھے، اگرچہ تنبیہ الغافلین کی خاطر ایک مولا بخش کی ضرورت سے دست بردار نہیں ہوئے تھے. اچھا ہی ہوا وہ حیدرآباد یونیورسٹی میں اردو کے پرفیسر نہ ہوئے، ورنہ وہاں ان کے شاگردوں کی تعداد اوروں کے مقابلہ میں سب سے کم ہوتی. بہر حال،اس لسانی موضوع پر ادب اسلامی کے بہت بڑے ستون ڈاکٹر ابن فرید کی رائے نسبتاً معتدل تھی. وہ ایک طرف تواردو زبان کو کچھ زیادہ معرب اور مفرس کرنے کے حق میں نہیں تھے مگر اس ضرورت کا بھی برملا اعتراف کرتے تھے کہ بڑی زبان کے پاس قیمتی الفاظ کا بہت بڑا ذخیرہ ہونا چاہئے.میں اردو کو اسی سمت میں واپس لے جانے کے لئے دانستہ ’’مشکل‘‘ الفاظ استعمال کرتا تھا.میرا نقطۂ نظر یہ تھا اور ہے کہ امیر خسرو کی ۱۳۱۲ کی ہندوی سے ۱۹۱۲ کے ابو الکلام آزاد تک آتے آتے اردونثر اتنی محکم ہو گئی تھی کہ دار الترجمہ حیدرآباد کے اساطین کو اصطلاح سازی کے لئے گراں معنی الفاظ دے سکے.مگر پھر وہ سارا کام تو دریا برد ہوا اور اردو کو لوگوں نے زبان کی مسند سے اتار کر بولی کے ٹاٹ پر لا بٹھایا اور شکائت کرتے ہیں کہ اس زبان میں علمی اور سائنسی موضوعات پر کام نہیں ہوا، صرف شاعری ہوتی رہی.تو شکر کریں شاعری تو ہو رہی ہے، ورنہ اردو تو اب اس قابل بھی نہیں رہی کہ غالب جیسا کوئی دوسرا شاعر ہی پیدا کردے. ان مسائل پر سعدی صاحب کے ساتھ گھنٹوں نہیں، مہینوں نہیں، برسوں بات ہوتی رہی تھی. اب کسی سے نہیں ہوتی.
ادب اور تہذیب نیز ثقافت اور ادب کے باہمی تال میل اور لین دین کے موضوع پر سعدی صاحب کی رائے بڑی واضح اور جچی تلی تھی.اس موضوع پر انہوں نے ایک مقالہ بھی لکھا تھا.ہوا یوں تھا کہ جب مہتاب قدر حلقۂ ارباب ذوق جدہ کے صدر منتخب ہوئے تو انہوں نے روائت کے مطابق اپنی صدارت کے افتتاح کے عنوان سے ایک مشاعرہ منعقد کیا.مشاعرہ کبھی کبھی مساخرہ بن جاتا ہے. انگریزی میں اسلامی کتابیں چھاپنے والے ایک ادارے کی پزیرائی کے لئے ایک ہمدرد قوم نے اردو مشاعرہ کا اہتمام کر ڈالا اور اسلام کی رعائت سے مشاعرہ بھی نعتیہ مقرر کیا. ایک زمانے میں فاتحہ کے لئے حلوائی کی دکان اور پلاؤ کی دیگ کافی ہوتی تھی، اب مشاعرہ ضروری ہوتا ہے. بہر حال میں نے مشاعرہ میں شرکت سے معذرت کی اور مہتاب قدر صاحب سے کہا کہ نثر میں کچھ سنوائیں گے تو آؤں گا.اب نثر کون لکھتا. تو وہ سعدی صاحب کے پاس گئے اور انہوں بخوشی کچھ لکھنے کی ہامی بھر لی، پھر مجھ سے بھی ذکر کیا کہ ادب اور تہذیب کے عنوان پر مقالہ لکھ رہے ہیں.حلقۂ ارباب ذوق جدہ کے ایک خصوصی اجتماع میں انہوں نے وہ مقالہ سنایا.نہ بہت لوگ جمع ہوئے اور نہ اس مقالہ پر خاطر خواہ گفتگو ہو سکی، کیونکہ بہت کم شاعر و ادیب ہوتے ہیں جو ادب کے اس اساسی کلیہ سے واقف بھی ہوں اورتخلیق کے بعد ہی سہی، اس ماحول پر تنقیدی یا تحسینی نظر ڈالنے اور اس پر بات کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں جس کے ارد گرد سے ان کی تخلیقا ت کے برگ و بار آتے ہوں.سعدی صاحب کو ان عناصر کا مکمل ادراک تھا جو زبان اور ثقافت کے ما بین پُل بنتے ہیں. اسی لئے ان کی تنقید کا طرز مختلف تھا. اور یہی وجہ ہے کہ ان کی بات کو لوگ کبھی مانتے نہیں تھے اور کبھی سمجھتے نہیں تھے، مگر ان کی آواز کے بلند ہوتے ہوئے آہنگ کے سامنے کبھی چپ ہو جاتے، کبھی مرعوب.
اس رات بھی یہی ہوا. مقالہ ختم ہوا توگنے چنے حاضرین سب چپ سادھے بیٹھے رہے اور سعدی صاحب خاموشی سے سب کے چہروں کا جائزہ لیتے رہے. پھر انہوں نے میری جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا.مقالہ ادب اور تہذیب کے ربط پر تھا.نیم فلسفیانہ انداز میں گفتگو یہ تھی کہ ادب کو تہذیب سے کیا پیش کرنا چاہئے؛ خود تہذیب کے عناصر ترکیبی کیا ہیں؛ زبان اور تہذیب میں کیا ربط ہے اور تہذیب کیسے ادب کو متأثر کرکرتی ہے اور اسے کس طرح ادبی لہروں کے اشاروں سے خود اپنی اصلاح کرنی چاہئے. بلا شبہ موضوع خاصا ثقیل تھا. بعد میں اس اجلاس کے دو ایک حاضرین نے مجھ سے گلہ کیا کہ ان لوگوں کو مقالہ سمجھ میں ہی نہ آیا تو وہ کیا بولتے. میں نے کہا آپ یہی کہتے کہ سمجھ میں نہیں آیا تو گیند سعدی صاحب کے پالے میں واپس چلی جاتی اور انہیں اپنی بات کی مزید وضاحت کرنی پڑتی اور یوں گفتگو کا سرا آپ میں سے کسی کے ہاتھ آجاتا.دوسرے روز سعدی صاحب حسب معمول شام کو گھر پر آئے تو میں نے نوجوان شاعروں کا شکوہ گوش گزار کیا . اس پر غصہ آگیا. کہنے لگے مطالعہ کی کمی ہے. لوگ پڑھے بغیرادب لکھنا چاہتے ہیں اور یہ خبر نہیں کہ کس تہذیب سے موضوعات اٹھاتے ہیں اور اپنی تخلیقات سے کون سی دنیابنانا چاہتے ہیں. نئی نسل کی سہل انگاری کا ایک واقعہ سنایا. جدہ میں چند شاعروں سے تنقید کے فن پر گفتگو تھی. سعدی صاحب نے ان نوجوانوں سے کہا کہ اپنی زیر مطالعہ ایک کتاب پر ہفتہ بھر میں اپنے تأثرات لکھ کراسی نشست گاہ میں واپس آ ئیں اور اپنے مضامین پیش کریں، پھر ان پر بات چیت کریں گے. کہنے لگے کہ ہفتہ بھر بعد حسب وعدہ میں پہنچا مگر وہ سارے اہل ادب غائب تھے، حالانکہ وہ جمعہ کا چھٹی کا دن تھا.مغرب کی نماز تک انتظار کیا مگر کسی کو آنا تھا نہ کوئی آیا، نہ کسی نے کچھ لکھا.
پھر بھی سعدی صاحب موقعہ کی تلاش میں رہتے تھے.یہ بات غالباً ۱۹۸۵ کی ہے.رؤف خلش صاحب نے اپنے پہلے مجموعے ’نئی رُتوں کا سفر‘ پر مجھ سے کچھ لکھنے کو کہا. مضمون مکمل ہواتو میں نے اسے رؤف خلش صاحب کے حوالے کردیا.جدہ میں پتہ نہیں کب سے صرف مشاعرے کو ادب سمجھا جاتا تھا. لہٰذا میں نہیں سمجھتا تھا کہ رؤف خلش کے علاوہ بھی کسی کو اس مقالے سے دلچسپی ہوگی. سعدی صاحب کو خبر ہوئی تو فوراً ایک ادبی نشست کا اعلان کردیا. اس کے بعد دو کام کئے. رؤف خلش کے چند قریبی دوستوں کو جمع کر کے کہا ایک شخص نے تو مضمون لکھ دیا، آپ لوگ شاعر کے پورے مجموعۂ کلام کی تقطیع کر کے پتہ لگایئے کہ ان کی مرغوب بحریں کون سی ہیں.اس کے بعد میرے مقالے کی نقلیں نکلواکر تین لوگوں کی دیں کہ اُس مقالے پر مضامین لکھ کر لائیں اور تقریب کے روز اصل مقالے سے پہلے سنائیں.افسوس کسی نے رؤف خلش کی پسندیدہ بحروں پر کچھ نہ لکھا، ورنہ وہ تجزیہ خود رؤف خلش کے لئے بڑی دلچسپی کا ہوتا.
اس روز جدہ میں عجیب بات ہوئی. شہر کی تاریخ میں پہلی بار ایک ادبی تنقیدی مضمون سنایا اور سنا گیا اور اس سے پہلے تین مضامین مزید سنے گئے. ڈاکٹر ابن فرید کو تنقیدی استدراک کرنا تھا لیکن وہ کسی ناگہانی مشغولیت میں الجھ گئے اور نہ آسکے، تو خود سعدی صاحب نے استدراک اور صدارتی تقریر دونوں کیں. اب یہ اتفاق نہیں تھا کہ اسی روز جدہ کے مشاعرہ پسندلوگوں نے صغیر لودھی مرحوم کے گھر پر ایک شعری نشست کا اہتمام بھی کیا تھا.دلچسپ بات یہ کہ لودھی صاحب اور کئی دیگر احباب کا مجھ ہی پر سب سے زیادہ دباؤ تھا اس مشاعرے میں شرکت کے لئے،دلیل یہ کہ سعدی صاحب کے جلسے میں پھیکے سیٹھے مضمون سننے کون جائے گا. سب مشاعرے میں آئیں گے. مگر یہ سعدی صاحب کا کمال تھا کہ ان کی دعوت پر اس روز جدہ کے بہت سے اہم شعرا روائتی مشاعرہ چھوڑ کر اس تنقیدی اجلاس میں شریک ہوئے.
سعدی صاحب نے جدہ میں ایک چھوٹی سی بزم اقبال ترتیب دے رکھی تھی جو ہر سال نومبر کی کسی جمعرات کی شب میں یاد اقبال منایا کرتی تھی.دو چار لوگ مقالے پڑھتے . اچھا خاصا مجمع ہوتا تھا.ایک سال سعدی صاحب نے ایک اور کمال کردکھایا. اُس سال نومبر میں جمعرات پانچ بار آرہی تھی.پہلے چار ہفتے انہوں نے شہر کے چار محلوں میں مختلف مقامات پر جلسے رکھے جن میں مقالے پڑھے گئے اور ان پر مذاکرے ہوئے. ایک جلسے میں مقالہ اور اس پر گفتگو کے بعداقبال بیت بازی بھی ہوئی جس میں صرف اقبال کے اشعار پڑھنے کی شرط تھی. اور آخری جمعرات کو ایک زبردست مشاعرہ ہوا، جس کا پہلا دور طرحی تھا اور دوسرا عام. مصرع طرح تھا:
دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
بعض شاعروں نے شکائت کی کہ مقام کا قافیہ تنگ ہے توقافیہ بدلنے کی اجازت دے دی گئی. خود سعدی صاحب اس رات پندرہ سولہ اشعار پر مشتمل طرحی غزل لائے تھے، نئی نسل کو فقط یہ تعلیم دینے کے لئے کہ اول تو قافیہ تنگ نہیں تھا اور ہو بھی تو دیکھوفن کی ایک تنگنائے سے شعر کیسے نکالے جاتے ہیں.صرف مقامی شاعروں پر مشتمل اتنا بڑااور کامیاب مشاعرہ جدہ کی تاریخ میں یادگار ثابت ہوا، کم از کم ان لوگوں کے لئے جو اس میں شریک تھے اور جن کی یادداشت میں وہ شب محفوظ رہ گئی. حقیقت یہ ہے کہ اس رات بلا امتیاز سب ہی نے بہت عمدہ کلام سنایا تھا.کہیں اس کا رکارڈ ہو تو اسے مرتب کر کے شائع کر دینا چاہئے.
جدہ میں ہم لوگوں پر ایک دورمشاعروں سے دوری کا بھی گزرا .اس شہر میں مشاعرے ثقافت نہیں بلکہ پاک و ہند کے اہل ادب کی ایک ثقافتی ضرورت تھے.پھر وہ وقت آیا جب بات بدل گئی.مسابقت شروع ہوئی اورکچھ تنک مزاج لوگ اوروں کا قافیہ تنگ کرنے کے درپے ہوئے.میں نے اہل خصومت کو ملانے کے لئے اپنے گھر پر سب شاعروں کو مدعو کیا. کسی نہ کسی طرح کچھ شکایات رفع ہوئیں اور اسی مجلس میں حلقۂ ارباب ذوق جدہ کے صدر رؤف خلش نے آئندہ جمعرات کو ایک مشاعرہ کا اعلان کیا جس میں بلا تخصیص سارے شعرا کو دعوت دی. اگلے دن سے معتمد عام بیکس نواز شارق نے تمام شعرا کونام بنام فون کر نے شروع کئے.مشاعرہ ہوگیا اور کامیاب بھی ہوا. مگر اس کے بعدآپس میں ملنے والا ایک گروہ نہ جانے کیوں اب میرا مخالف ہو گیا. اتفاق سے چند دن بعد چار پاکستانی شاعر، بشمول حمائت علی شاعر اور احمد فراز جدہ آئے. ان کے اعزاز میں ایک مشاعرہ منعقد ہو نا ہی تھا. مجھے بالواسطہ طور پر اطلاع بھجوائی گئی کہ مشاعرہ میں صرف پاکستانی شاعرشریک ہوں گے. یہ کوئی قابلِ اعتراض شرط نہیں تھی. میزبان کو اپنے مہمان چننے کا پورا اختیار ہوتا ہے. اس متذکرہ مشاعرہ سے ایک دن قبل سعدی صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ کون سی نئی غزل سنا رہا ہوں.میں نے بتایا کہ مشاعرے میں ہندستانی شعرا تو مدعو ہیں نہیں اس لئے غزل بھی نہیں کہی. سعدی صاحب کو اس انکشاف پر حیرت ہوئی، کیونکہ وہ مدعو تھے.اس وقت وہ خاموش ہوگئے .دوسرے روز آئے اور اطلاع دی کہ وہ بھی مشاعرہ میں نہیں جا رہے ہیں بلکہ رؤف خلش بھی مدعوئین میں تھے اورمیری وجہ سے انہوں نے بھی عدم شرکت کا فیصلہ کیاہے. میں نے کہا بھی کہ اسے مسئلہ نہ بنایا جائے، مگر سعدی صاحب کو ناگواری میزبانوں کی غلط بیانی پر تھی. رؤف خلش کی بھی یہی دلیل تھی. میرے لئے یہ دوستداری کی دلیل تھی.
بہر حال اس واقعہ کے بعد ہم دونوں نے رفع شر کی خاطر مشاعروں سے یکسوئی اختیار کر لی. یہ بھی سبب بنا سعدی صاحب سے بیش از بیش ملاقاتوں کا. وہ ابتدا میں ہر جمعرات کو میرے گھر پرآ جاتے. پھر رسول احمد کلیمی اور مزیددو ایک لوگ ان نجی مجلسوں میں شریک ہونے لگے، یہاں تک کہ ہفتہ میں دو چار ملاقاتیں ہونے لگیں.اورمشاعروں میں غیر حاضری سے جو ’’نقصان‘‘ہو رہا تھا اس کا ازالہ یوں ہو گیا.ان ملاقاتوں کا مقصد شعر بازی نہیں تھا. سعدی صاحب اور کلیمی کے ساتھ گفتگو کے لئے موضوعات کی کمی نہیں تھی. شعرو ادب بھی ان موضوعات کا ایک حصہ تھا، بجائے خود موضوع نہیں تھا.
کراچی سے جمیل الدین عالی جدہ آئے. ٹھہرے تو کہیں اور تھے مگر ان کے منصبی میزبان رسول احمد کلیمی تھے. عالی صاحب نے کچھ مقامی اہل ادب سے ملاقات کا اشتیاق ظاہر کیا تو کلیمی نے ایک شام اپنے گھر پر سعدی صاحب کو اور مجھے مدعوکیا.دو ایک لوگ بطور سامعین اور بھی تھے.ہم دونوں ساتھ ہی پہنچے تو کلیمی نے تعارف کروایا کہ یہ دونوں جدہ کے جغادری ہیں ان سے مل بھی لو اور نپٹ بھی لو.ان کے بعد کسی اور سے ملاقات کی ضرورت نہ ہوگی. خیر میری حد تک توحق دوستی ادا کرنے میں کلیمی نے احتیاط کا دامن چھوڑ دیا تھا، لیکن اس شام سعدی صاحب نے عالی صاحب کا دل اور دماغ دونوں جیت لئے تھے.پھر تو وہ جب بھی جدہ آتے، اور ان دنوں اکثر آیا کرتے تھے، تو سعدی صاحب کے ساتھ کلیمی کے گھر پر طویل ملاقاتیں رہتی تھیں اور دنیا جہان کی باتیں ہوتی تھیں. ایک بار ایک پاکستانی صحافی بھی موجود تھے. انہوں نے شکائت کی کہ سعدی صاحب ہمیں کچھ بتاتے نہیں، تو عالی بولے بھئی ہمیں تو بہت کچھ بتاتے ہیں. بات یہ تھی کہ پوچھنے والا پہلے سے کچھ جانتا ہوتا تو سعدی صاحب بھی کھلتے تھے، اور اگر مخاطب کی گرہ میں نقدِ دل یانقدِ نظرنہ ہوتی تو اسے بلا تکلف ٹال دیتے تھے، اقبال کے اس مصرعے کے مطابق کہ
نظرنہیں تو مرے حلقۂ نظر میں نہ بیٹھ
ماہ اقبال کے متذکرہ بالا مشاعرے کی ’’زمینی غزل‘‘ میں جب میں نے یہ شعر سنایا:
ہم ایسے لوگ حرم کی نگاہ رکھتے ہیں
ہمارے پاس نظر کے وضو سے آیا کر
تو سعدی صاحب نے اس پر داد دیتے ہوئے کہا اقبال پنجابی تھے اسی لئے انہوں نے اپنی بات کہنے میں تہذیبی تکلف سے کام نہیں لیا تھا.
ایک روز دفتر میں میر ایوب علی خاں نے بتایا کہ گزشتہ شب کہیں سعدی صاحب سے ملاقات ہوئی جس میں امت کا تصور زیر بحث آیااور سعدی صاحب نے تجویز رکھی کہ وہ خود امت کے روائتی تصور پر اور ایوب صاحب نئے تصور پر مقالے لکھیں اور پندرہ دن بعددونوں ایک نشست میں سنائے جائیں.ایوب صاحب تو حسب عادت طرح دے گئے، اور خودسعدی صاحب نے مہینہ بھر سے زیادہ وقت لیا.سب کو اشتیاق تھا ان کا مقالہ سننے کا.جب مقالہ سنایا تو اس میں کئی پہلو تشنہ رہ گئے تھے. جوابی مضمون کی عدم موجودگی میں بھی بات ادھوری سی لگی.ڈاکٹر عبدالرحیم نے سعدی صاحب سے کہا بھی کہ بات بنی نہیں. سعدی صاحب چپ ہوگئے.ڈیڑھ گھنٹے کے اس مضمون میں انہوں نے ایک ہی بات کی تکرار تو کی تھی: اے امت مرحومہ، تو پھر زندہ کیوں نہیں ہوجاتی! اب یہ الگ بات ہے کہ امت کو تو جوان خون درکار تھا اور امت کے جوانوں کی دلچسپیاں صدر اول کے جوانوں کے ذوق شوق سے بڑی مختلف تھیں.یہ گلہ سننے والے کان بھی میسر نہیں تھے.
یادوں کی کمی نہیں. سعدی صاحب کے ساتھ گزرے بیس برس کے ہزاروں لمحوں کی ہزاروں کہانیاں ہیں.ان کے دیگر دوستوں کے سینوں میں بھی بہت یادیں مستور ہوں گی. مگر سعدی صاحب زندگی میں بھی ان کے ذکر سے گریزاں تھے اور اب تو ویسے بھی بے نیاز ہو گئے.ایک بار میں نے محمد باقر صاحب سے کہا کہ جدہ کی چنداہم شخصیات کی خدمات کا اعتراف کرنا لازم ہے.میں نے دو چار لوگوں کا ذکر کیا جن میں سعدی صاحب کا نام سرفہرست تھا. باقر صاحب نے خوشی خوشی جاکے سعدی صا حب سے ذکر کر دیا.انہوں نے فوراً بساط الٹ دی.باقر صاحب کو ڈانٹ الگ پلائی.
قیام جدہ کے آخری چندسال میں ان کے مزاج میں بڑی کبیدگی پیدا ہو گئی تھی.برداشت کی قوت کم ہو گئی تھی اور وہ شہر کی سماجی زندگی سے خاصے یکسو ہو گئے تھے.اس کیفیت پرحیرت اور تشویش سب کو تھی ، مگر کوئی یہ اندازہ نہ کرسکا کہ ان کا دل بغاوت کر رہا تھا. وہ دنیا کے اور ظلم سہنے کو آمادہ نہیں تھا اور اپنی بے بسی پررات کی تنہائیوں میں اس ملی کرب کو برداشت کرنے کی طاقت کھوتاجارہا تھا.اقبال اوررومی پرسعدی صاحب کی توجہ کے ارتکاز کا رمز بھی یہی تو تھا کہ وہاں سے وہ امید کا پیام اٹھا کرآئندہ نسلوں کو دینا چاہتے تھے.آخر کار انہیں اندازہ ہو چلا تھا کہ ان کا دل یہ جنگ ہار چکا تھا.وہ اکثر شکوہ کرنے لگے تھے کہ لوگ بہرے کانوں بات سنتے ہیں. ان کا مسئلہ سامعین کا تھا. ان کی بات سننے والے اور سمجھنے والے ان کے پاس نہیں تھے. وہ ہم میں سے کسی کے پاس نہیں ہیں. یہ زمانہ صرف اپنی گانے کا ہے، کسی کی سننے اور سمجھنے کا دور لد گیا. شائد ان کے مزاج کی سختی کی وجہ سے بھی سارے غزال زقندیں بھرتے ہوئے سعدی صاحب سے دور چلے گئے تھے. کیا پتہ آہوانِ دشت انا کی اسی رمیدہ مزاجی نے سعدی صاحب کے مزاج میں سختی پیدا کی ہو. اور یوں انہوں نے ساری عمر مقدور بھر پیروئ رومی تو کی مگران کی انسان کی آ رزو پوری نہ ہوئی. فراق و ہجر کی اسی کیفیت کی شرح سے ہماری شاعری بھری ہوئی ہے.پر ہم یہ بات سمجھتے کہاں ہیں. اور ہم میں سے نہ جانے کتنے ہیں جو یہی بات جب کسی کو سمجھا نہیں پاتے توخامشی سے خود زندگی میں گم ہو جاتے ہیں. میں نے بہتوں کو یوں گم ہوتے دیکھا ہے.
توسعدی صاحب بھی ایک دن اچانک جدہ چھوڑ کر چلے گئے، کسی کو اتنا وقت نہ دیا کہ کوئی الوداعی جلسہ ہو، اعتراف خدمات کی تقریب منعقد کی جائے، کوئی گھر پر کھانے پرہی بلائے.کچھ عرصہ بعد یہی کیفیت میں نے حیدرآباد میں بھی محسوس کی تھی.وہ دوستوں میں بیٹھنا،وہ ہنسنا بولنا، وہ بزم میں رزم آرائیاں سب قصۂ پارینہ بن کر رہ گیا تھا. بس بجھی بجھی طبیعت والے ایک مختلف سے سعدی صاحب جیسے اپنی خودی کو سنبھالے گوشہ نشین ہو گئے تھے.
مگر جس دن حیدرآباد میں ان سے میری آخری ملاقات ہوئی تو وہی مصلح الدین سعدی آخری بار پھر اپنے گوشۂ ذات سے اٹھ کر سامنے آ بیٹھے جو برسوں پہلے جدہ میں میراپتہ ڈھونڈتے ہوئے پہلی بار مجھ سے ملے تھے.ان کے انتقال سے دو ماہ پہلے یہ آخری ملاقات سعدی صاحب کے گھر پر ہوئی تھی، اور میرے گھر پر ہونے والی پہلی ملاقات کی مانند اس بار بھی نشست کے کمرے میں بس ہم دونوں ہی تھے. شعر و شاعری تھی، ادبی تنقید تھی،دنیا کے مسلمان تھے اور چائے کا دور تھا. اس بار پھر علمی ذوق اورفکری لفظیات کے خطوطِ ربط و آہنگ اسی پرانے مدارپر ضو فشاں تھے.ایک بار پھر غم ذات سے بیگانہ وہ امریکہ کے اپنے حالیہ سفر کی روداد مزے لے لے کر سنا رہے تھے اور میں دیکھ رہا تھا اس روداد میں حیدرآباد کا ذکر صرف خورشید خضر کے حوالے سے تھا جو خود شکاگو میں رہتے بستے ہیں. میں جانتا تھااب کسی کے پاس ان سے ملنے کا، ان کے پاس آنے کا وقت نہیں تھا.ساری بستیاں جہد للبقأکے میدان میں خود سے دست و گریباں تھیں .حیدرآباد بھی بس ایک بستی ہی تو تھا.سعدی صاحب جس تہذیب کے بنائے ہوئے تھے وہ نقشِ دیوارہو چکی تھی اور ایک بدلتی دنیا میں دلوں کے اندر نئی تہذیب کی دیواریں اٹھ رہی تھیں.ایک اندھا دھند دوڑ تھی جس میں ذرادم لینے کو رکنے والا پیروں تلے روند دیا جاتا تھا.اس میں سعدی صاحب بھلا کیسے جی سکتے تھے.
**محمد طارق غازی ۔ آٹوا ، کنیڈا ۔ جمعرات ۷ مئی ۲۰۰۸ ۱۱۵۹ بجے شب مکمل ہوا