Page 1 of 1

میری چند موضوعاتی نظمیں

Posted: Sun Jul 25, 2010 10:33 am
by aabarqi
ہے آلودگی نوع انساں کی دشمن
از
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی،ذاکرنگر، نئی دہلی
سلو پوائزن ہے فضا میں پلوشن
ہر اک شخص پر یہ حقیقت ہے روشن
یونہی لوگ بے موت مرتے رہینگے
نہ ہوگا اگر جلد اس کا سلوشن
بڑے شہر ہیں زد میں آلودگی کی
جو حساس ہیں ان کو ہے اس سے الجھن
فضا میں ہیں تحلیل مسموم گیسیں
ہے محدود ماحول میں ’’آکسیجن‘‘
جدھر دیکھئے ’’کاربن ‘‘ کے اثرسے
ہے مایل بہ پژمردگی صحن گلشن
کسی کو ’’دمہ‘‘ ہے کسی کو’’الرجی‘‘
مکدر ہوا سے کسی کو ہے’’ٹینشن‘‘
جوانوں کے اعصاب پر ہے نقاہت
بزرگوں کی اب زندگی ہے اجیرن
کہاں جائیں ہم بچ کے آلودگی سے
کہیں بھی نہیں چین گلشن ہو یا بن
کئی ۔۔’’یونین کاربائڈ‘‘ ہیں اب بھی
جو در پردہ ہیں نوع انساں کے دشمن
شب و روز آلودگی بڑھ رہی ہے
ہیں ندیاں سراسر کثافت کا مخزن
جہاں گرم سے گرم تر ہو رہا ہے
نہ ہو جائے نوع بشراس کا ایندھن
ہے’’اوزون‘‘بھی زد میں آلودگی کی
جو ہے کرئہ ارض پر سایہ افگن
جو بھرتے ہیں دم رہبری کا جہاں کی
وہ رہبر نہیں درحقیقت ہیں رہزن
’’کیوٹو‘‘ سے کرتے ہیں خود چشم پوشی
لگانے چلے دوسروں پر ہیں قدغن
بناتے ہیں خود ایٹمی اسلحے وہ
سمجھتے ہیں خود کو مگر پاک دامن
’’سنامی‘‘ ہے انکے لئے درس عبرت
دکھانے چلے ہیں جو فطرت کو درپن
سلامت رہے جذبئہ خیرخواہی
چھڑائیں سبھی اس مصیبت سے دامن
ہے احمد علی وقت کی یہ ضرورت
بہرحال اب سب پہ نافذ ہو قدغن



ہر کوئی آلودگی کا ہے شکار
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی،ذاکر نگر، نئی دہلی

آج کل ماحول ہے ناسازگار
ہر طرف ہے ایک ذہنی انتشار
ہے بڑے شہروں میں جینا اک عذاب
ہر کوئی آلودگی کا ہے شکار
آرہے ہیں لوگ شہروں کی طرف
گاؤں کا ناگفتہ بہ ہے حال زار
نت نئے امراض سے ہے سابقہ
پر خطر ہے گردش لیل و نہار
آرہا ہے جس طرف بھی دیکھئے
ایک طوفان حوادث بار بار
بڑھتی جاتی ہے ’’گلوبل وارمنگ‘‘
لوگ ہیں جس کے اثر سے بیقرار
ہے دگرگوں آج موسم کا مزاج
گردش حالات کے ہیں سب شکار
جسکو دیکھو برسر پیکار ہے
دامن انسانیت ہے تار تار
ہے ’گلوبل وامنگ‘ احمدعلی
اک مسلسل کرب کی آئینہ دار
@@@


آلودگی مٹائیں
از
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی،ذاکر نگر، نئی دہلی
مل جل کے آئیے ہم ایسی فضا بنائیں
آلودگی کی جملہ اقسام کو مٹائیں
عصر جدید کی یہ سب سے بڑی ہے لعنت
نوع بشر کو اس سے ہر حال میں بچائیں
ہے’ کاربن‘ بکثرت، محدود ’آکسیجن‘
’کلورین‘ کے اثر سے مسموم ہیں فضائیں
سب سے بڑی جہاں میںنعمت ہے تندرستی
ہر شخص کو توجہ اس بات پر دلائیں
ہے باعث سعادت خلق خدا کی خدمت
اب آیئے بخوبی اس فرض کو نبھائیں
ہو برقرار جس سے ماحول میں توازن
حسن عمل سے اپنے وہ کام کر دکھائیں
مد نظر ہو اپنے ہر حال میں توازن
تازہ ہوا میں گھومیں خالص غذائیں کھائیں
ہر چیز الغرض ہے آلودگی کی زد میں
ہے فرض عین اپنا اس سے نجات پائیں
اک بیحسی سی طاری ’ احمد علی‘ ہے سب پر
روداد عصر حاضر آخر کسے سنائیں




کیجئے آلودگی کا سد باب
از
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی،ذاکر نگر، نئی دہلی
کیجئے آلودگی کا سد باب
نوع انساں کے لئے ہے یہ عذاب
ہے اگر درکار حفظان صحت
کیجئے اس سے ہمیشہ اجتناب
جان کا جنجال ہے آلودگی
ہیں مضر اثرات اس کے بیحساب
کارخانوں کی مضر گیسوں سے آج
جسکو دیکھو کھا رہا ہے پیچ و تاب
ہر طرف ہے ’کاربن‘ ہی ’کاربن‘
’آکسیجن‘ کا توازن ہے خراب
گھٹ رہا ہے دم مکدر ہے فضا
زندگی میں کچھ نہیں ہے آب و تاب
ہے’فلورائد‘ کا پانی میں اثر
جس سے ہے لوگوں میں بیحداضطراب
جھک گئی فرط نقاہت سے کمر
اس سے ہے درکار چھٹکارا شتاب
ہے پریشاں حال ہر چھوٹا بڑا
اب بڑے شہروں میں جینا ہے عذاب
نیند کی گولی بھی اب ہے بے اثر
اڑ گیا ہے آج کل آنکھوں سے خواب
شکل میں آلودگی کی آج کل
ہے مسلط ہم پہ فطرت کا عتاب
ان گنت درپیش ہیں ایسے سوال
جن کا ملنا ہے ابھی باقی جواب
مختصر ہے زندگی کا یہ سفر
جو بھی کرنا ہے ہمیں کرلیں شتاب
ہر کسی کے ذہن میں ہے یہ سوال
آج کیوں ماحول ہے اتنا خراب
ہے ضرورت وقت کی احمد علی
سب کریں مل جل کے اسکا احتساب




جدھر دیکھو ادھر آلودگی ہے
از
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی،ذاکر نگر، نئی دہلی
جدھر دیکھو ادھر آلودگی ہے
سبھی پر آج طاری بیحسی ہے
کثافت اب شعار زندگی ہے
نمایاں ہر طرف پژمردگی ہے
فضا آلودگی سے پاک رکھئے
اگر درکار حسن زندگی ہے
نہ ہوگا کینسر لاحق کسی کو
سبھی بیماریوں کی ماں یہی ہے
سبھی کچھ منحصر ماحول پر ہے
اگر ماحول میں پاکیزگی ہے
ترو تازہ رہے گاذہن اس سے
سکون قلب کا ضامن یہی ہے
نشاط و کیف سے سرشار ہوگا
اسی سے ذہن میں بالیدگی ہے
گلوں میں رنگ و بو قائم ہے اس سے
شگفتہ آج اسی سے ہر کلی ہے
نہیں ہے اس سے بہتر کچھ بھی برقی
یہی اپنی متاع زندگی ہے






زد میں آلودگی کی ہیں پیر و جواں
از
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی، ذاکر نگر، نئی دہلی
گرم سے گرم تر ہو رہا ہے جہاں
بھاگ کر کوئی جائے تو جائے کہاں
ہر طرف گاڑیاں ہیں رواں اور دواں
زد میں آلودگی کی ہیں پیر و جواں
شہر میں اس قدر ہے مکدر فضا
ہرطرف جیسے چھایا ہوا ہو دھواں
گاؤں کی زندگی تھی بہت خوشنما
اب وہاں بھی ہیں آلودگی کے نشاں
آج کل سطح ’اوزون‘ خطرے میں ہے
ہیں یہ انسان کی کارفرمائیاں
کوئی محفوظ آلودگی سے نہیں
نت نئی جس سے لاحق ہیں بیماریاں
ہے ’سنامی‘ کہیں اور کہیں زلزلہ
فتنہ پرور ہیں موسم کی تبدیلیاں
زہر آلود ہیں کھاد، پانی، ہوا
موسم گل میں چھائی ہے فصل خزاں
زندگی میں نہیں آج کوئی رمق
ہیں جوانوں کے چہرے پہ بھی جھریاں
راہ پر ہم ترقی کی ہیں گام زن
جس کا ثمرہ ہیں ذہنی پریشانیاں
کوئی آسودہ خاطر نہیں آج کل
ؑعصر حاضر میں بے کیف ہیں جسم و جاں
جسم و جاں کے تحفظ سے قطع نظر
ہیں’کلوننگ‘ میں مصروف سائنسداں
جن کی ریشہ دوانی سے نالاں ہیں سب
دوسروں پر اٹھاتے ہیں وہ انگلیاں
پہلے کرلیں وہ بہتر نظام زمیں
چاند پر پھر بسائیں گے آبادیاں
روح کو جس سے حاصل ہوآسودگی
ہم کو درکار ہیں ایسی رعنائیاں
جو ہیں حساس ان کی دعا ہے یہی
ختم آلودگی کا ہو نام و نشاں




ہے آلودگی باعث حادثات
از
ڈاکٹر احمدعلی برقی اعظمی،ذاکر نگر،نئی دہلی
مناتے ہیں ہم یوم ماحولیات
ملے تاکہ آلودگی سے نجات
نہیں ہے کوئی چیز اس سے مضر
خطر میں ہے اس سے نظام حیات
کوئی شہر میں ہو کہ دیہات میں
ہیں درپیش ہر شخص کو مشکلات
ہوئی ’یونین کاربائیڈ‘ سے جو
نہیں لوگ بھولیں گے وہ واردات
حوادث کا جاری ہے اک سلسلہ
ہیں تاریخ میں ثبت یہ سانحات
بہت خوب ہے صنعتی پیشرفت
ہیں آلودہ اس سے مگر شش جہات
صحتمند ماحول ہوگا جبھی
ہو آلودہ شہروں کی جلدی شناخت
اسی میں ہے ہر شخص کی بہتری
کثافت سے محفوظ ہو کائنات
فضا دن بہ دن ہو رہی ہے کثیف
پریشاں ہے ہر شخص دن ہو کہ رات
’کیوٹو‘ پہ جب تک نہ ہوگا عمل
جہاں سے نہیں ہونگے کم حادثات
ہیں حالات حد درجہ تشویشناک
تباہی کی زد میں ہیں اب جنگلات



...



ایڈز کا کس طرح ہوگا سد باب
از
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی، ذاکرنگر، نئی دہلی
ہے جہاں میں اک مسلسل اضطراب
’’ایڈز‘‘ کا کس طرح ہوگا سد باب
ہے یہ بیماری ابھی تک لاعلاج
کھا رہے ہیں لوگ جس سے پیچ و تاب
آج کل جو لوگ ہیں اس کے شکار
زندگی ہے ان کی گویا اک عذاب
اپنی لاعلمی سے ابنائے وطن
کر رہے ہیں ان سے پیہم اجتناب
درحقیقت ہے یہ اک مہلک مرض
جس سے ہیں خطرات لاحق بیحساب
جسم و جاں میں ہے توازن لازمی
کیجئے ایسا طریقہ انتخاب
ہو نہ پیدا ان میں کوئی اختلال
جو بھی کرنا ہے ہمیں کر لیں شتاب
ہوتے ہی کمزور جسمانی نظام
روح میں ہوتا ہے پیدا اضطراب
سلب ہو جاتی ہے طاقت جسم کی
دینے لگتے ہیں سبھی اعضاء جواب
رفتہ رفتہ آتا ہے ایسا زوال
جسم کھو دیتا ہے اپنی آب و تاب
ماہرین طب ہیں سرگرم عمل
تاکہ اس کا کر سکیں وہ سد باب
جس طرح ’’ٹی بی‘‘ تھی پہلے لا علاج
آج ہے اس کا تدارک دستیاب
اس کا بھی مٹ جائیگا نام و نشاں
ہو گئی کوشش جو ان کی کامیاب
اک نہ اک دن تیرگی چھٹ جائیگی
دور ہو جائے گا ظلمت کا سحاب
کیجئے احمد علی حسن عمل
ہے ضروری ایک ذہنی انقلاب



ہم مناتے ہیں کیوں عالمی ارض ڈے
از
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی،ذاکر نگر، نئی دہلی
ہم مناتے ہیں کیوں عالمی ارض ڈے
کیا ہیں اس کے ہمارے لئے فائدے
ہو زمیں کی بقا سب کے پیش نظر
خواب غفلت سے بیدار ہو جائیے
زد میں آلودگی کی ہیں اہل زمیں
نت نئے روز درپیش ہیں سانحے
خشک سالی کہیں ہے سنامی کہیں
آرہے ہیں کہیں پے بہ پے زلزلے
ایک محشر بپا ہے جدھر دیکھئے
بجھ گئے جانے کتنے گھروں کے دئے
آج آباد نوع بشر ہے وہاں
تھے جہاں پہلے جنگل ہرے اور بھرے
جن سے قائم توازن تھا ماحول میں
پیڑ پودے وہ ناپید اب ہو گئے
دوڑ میں ہم ترقی کی ہیں گام زن
لٹ نہ جائیں کہیں زیست کے قافلے
کوئی پسماندہ ہے کوئی خوشحال ہے
ختم ہونگے نہ جانے یہ کب فا صلے
فرش پر ہیں نظر ہے مگر عرش پر
اہل سائنس کے ہیں یہی مشغلے
ہونگے حائل نہ ہم آپ کی راہ میں
کامیابی کے طے کیجئے مرحلے





دعوت عمل
از
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی
ذاکر نگر، نئی دہلی
آسماں پر ہیں ستارے بیشمار
خالق کون و مکان کے شاہکار
ضوفگن ہے مشعل شمس و قمر
ہے انھیں پر منحصر لیل و نہار
کر لیا تسخیر انساں نے قمر
جانے کو مریخ پر ہے بیقرار
مشتری،زہرہ، عطارد اور قمر
محو گردش ہیں بصد عزو وقار
ہر ستارہ اپنے اپنے برج میں
رکھتا ہے مخصوص اپنا اک مدار
کرتا ہے ہردم انھیں پر غوروخوض
ہے منجم کا انھیں پر انحصار
نظم عالم ہے انھیں سے برقرار
گردش پیہم سے ہیں یہ ہمکنار
دعوت نطارہ دیتے ہیں ہمیں
صنعت باری کے یہ نقش و نگار
کرتی ہے سائنس ان کا تجزیہ
ان پہ ہے کونین کا دارو مدار
ہر ستارہ از روئے سائنس ہے
اک جہان تازہ کا آئینہ دار
روز ہوتی ہے نئی ایجاد ایک
جن سے چلتا ہے جہاں کا کاروبار
زندئہ جاوید ہیں سائنسداں
ان کی قائم ہے جہاں میں یادگار
ہیں ابوالآبائے میزائیل کلام
کام ہے ان کا نہایت شاندار
آپ بھی کچھ کام ایسا کیجئے
جو جہاں میں ہو ہمیشہ یادگار



ہے گلوبل وارمنگ عہد رواں میں اک عذاب
از
ڈاکٹراحمد علی برقی اعظمی598/9ذاکر نگر، نئی دہلی

ہے گلوبل وارمنگ عہد رواں میںاک عذاب
جانے کب ہوگا جہاں سے اس بلا کا سد باب
گرین ہاؤس گیس سے محشر بپا ہے آج کل
جس کی زد میں آج ہے اوزون کا فطری حجاب
لرزہ بر اندام ہے نوع بشراس خوف سے
اس کے مستقبل میں نقصانات ہونگے بے حساب
منتشرشیرازئہ ہستی نہ ہو جائے کہیں
IPCCنے کر دی یہ حقیقت بے نقاب
باز آئیں گے نہ ہم ریشہ دوانی سے اگر
برف کے تودے پگھلنے سے بڑھے گی سطح آب
اس سے فطرت کے توازن میںخلل ہے ناگزیر
عرش سے فرش زمیں پر ہوگا نازل اک عتاب
ذہن میں محفو ظ ہے ابتک سنامی کا اثر
ساحلی ملکوں میں ہے جس کی وجہ سے اضطراب
ایسا طوفان حوادث الامان والحفیظ
نوع انساں کھا رہی ہے جس سے ابتک پیچ و تاب
آج بالی میں یہی عنوان ہے موضوع بحث
فرض سے اپنے کریں گے لوگ کب تک اجتناب
ہو سکا ابتک نہ پیمان کیوٹو کا نفاذ
ہے ضرورت وقت کی اپنا کریں سب احتساب
آئئے احمد علی برقی کریں تجدید عہد
ہم کریں گے مل کے برپا ایک ذہنی انقلاب



آج سب کی دشمن جاں ہے گلوبل وارمنگ
از
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی،ذاکر نگر نئی دہلی
آج سب کی دشمن جاں ہے گلوبل وارمنگ
روز و شب آتش بداماں ہے گلوبل وارمنگ
زد میں ہیں اسکی ہمیشہ آب و آتش خاک و باد
آتش سیال و سوزاں ہے گلوبل وارمنگ
لوگ قبل از وقت مرگ فاجعہ کے ہیں شکار
داستان غم کا عنواں ہے گلوبل وارمنگ
آئی پی سی سی نے کردی یہ حقیقت بے نقاب
سب کی بربادی کا ساماں ہے گلوبل وارمنگ
گرین ہاؤس گیس کا اخراج ہے سوحان روح
انقلاب نظم دوراں ہے گلوبل وارمنگ
برف کے تودے پگھلتے جا رہے ہیں مستقل
اک ہلاکت خیز طوفاں ہے گلوبل وارمنگ
ایک طوفان حوادث آ رہا ہے بار بار
شامت اعمال انساں ہے گلوبل وارمنگ
ہے پریشاں حال ہر ذی روح اس سے مستقل
دشمن انسان و حیواں ہے گلوبل وارمنگ
ہے دگرگوں آج کل ہر وقت موسم کا مزاج
ہر گھڑی اک خطرئہ جان ہے گلوبل وارمنگ
ہے خزاں دیدہ گلستاں مضمحل ہیں برگ و گل
غارت فصل بہاراں ہے گلوبل وارمنگ
ہرکوئی جس کے اثر سے کھا رہا ہے پیچ و تاب
ایک ایسی آفت جاں ہے گلوبل وارمنگ
جس کا ’’پیمان کیوٹو‘‘سے ہی ہوگا سد باب
اجتماعی ایسا نقصاں ہے گلوبل وارمنگ
ہے ضرورت عالمی تحریک کی اس کے لئے
سوزو ساز باد و باراں ہے گلوبل وارمنگ
ہے عناصر میں توازن باعث نظم جہاں
ساز فطرت پر غزلخواں ہے گلوبل وارمنگ
جائے تو جائے کہاں نوع بشر احمد علی
جس طرف دیکھو نمایاں ہے گلوبل وارمنگ



منحصر ہے آج انٹرنیٹ پہ دنیا کا نظام
از
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی، ذاکر نگر، نئی دہلی
منحصر ہے آج’’ انٹرنٹ ‘‘ پہ دنیا کا نظام
اشہب دوراں کی ہے اس کے ہی ہاتھوں میں لگام
۔۔’’ورلڈ وائڈ ویب‘‘ میں ہے ممتاز ’گوگل ڈاٹ کام‘
استفادہ کر رہے ہیں آج اس سے خاص و عام
سب سوالوں کا تسلی بخش دیتی ہے جواب
اس لئے مشہور ہے سارے جہاں میں اسکانام
ہیں’ریڈف میل‘ اور ’یاھو‘ بھی نہایت کارگر
جاری و ساری ہے ان کا بھی سبھی پر فیض عام
خدمت اردو میں ہیں مصروف’ اردوستان‘ اور
’انڈین مسلمس‘’ٹوسرکلس‘ خبریں ڈاٹ کام
ہے ذخیرہ علم کا انمول ۔۔ ’’ وکیپیڈیا‘‘
آج حاصل کر رہے ہیں فیض جس سے سب مدام
ہیں وسیلہ رابطے کا یہ سبھی ویب سائٹیں
کرہی ہیں خدمت خلق خدا جو صبح و شام
فاصلہ کچھ بھی نہیں ہے آج قرب و بعد میں
چند لمحوں میں کہیں بھی بھیج سکتے ہیں پیام
فارم بھرنا ہو کوئی یا بک کرانا ہو ٹکٹ
آج انٹرنیٹ سے ہے معقول اس کا انتظام
’ریڈیو‘’اخبار‘’ٹی وی‘’میڈیا‘ اہل نظر
استفادہ کر رہے ہیں آج اس سے خاص و عام
ہے معاون آج یہ سائنس کی تحقیق میں
ٹکنولوجی میں بھی اس سے لے رہے ہیں لوگ کام
قافلہ تحقیق کا ہے سوئے منزل گام زن
کام آئیگا مسلسل اس کا حسن انتظام
ہیں یہ ’ویب سائٹ‘ ضرورت وقت کی احمد علی
اس لئے اہل نظر کرتے ہیں ان کا اہتمام




آر کے پچوری چیئرمین IPCCکو
نوبل انعام برائے صلح ملنے پر
اظہار تبریک و تہنیت
راجیندر کے پچوری کا بیحد اہم ہے کام
نوبل انعام صلح کا ہے آج جن کے نام
ہے اقتضائے وقت پلوشن کی روک تھام
اہل جہاں کو آج ہے ان کا یہی پیام
تنظیم ان کی رکھتی ہے ماحول پر نظر
خطرے میں آج جس سے ہے یہ عالمی نظام
اہل جہاں میں آج مسلسل ہے اضطراب
ان کی رپورٹ جب سے ہوئی ہر کسی پہ عام
مسموم آج آب و ہوا ہے کچھ اس طرح
سب پی رہے ہیں زہر ہلاکت کا ایک جام
انسان خود ہے اپنی ہلاکت کا ذمہ دار
نوع بشر سے لیتی ہے فطرت یہ انتقام
کوئی ہے قحط اور کوئی سیلاب کا شکار
چاروں طرف ہے آج مصائب کا اذدحام
ہے آج سب کے پیش نظر اپنا ہی مفاد
کرتا نہیں ہے کوئی ’’کیوٹو‘‘ کا احترام
خوشحال زندگی ہے جو احمد علی عزیز
کرنا پڑے گا اپنی حفاظت کا انتظام
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی
598/9ذاکر نگر، نئی دہلی





بیاد کلپنا چاولا
بمناسبت عالمی سائنس ڈے
از
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی،ذاکر نگر، نئی دہلی
ہند کی شان تھی ’’ کلپنا چاولہ
قابل رشک جسکا رہا حوصلہ
جب خلائی مشن پر روانہ ہوئی
طے کیا کامیابی سے ہر مرحلہ
کر کے اسسی سے زیادہ اہم تجربے
سات سائنسدانوں کا یہ قافلہ
جب خلاء سے زمیں پر روانہ ہوا
لوٹتے وقت پیش آگیا حادثہ
جان دے کر خلاء میں امر ہوگئی
ہے یہ تاریخ کا اک اہم واقعہ
تھی یکم فروری جب وہ رخصت ہوئی
تھا قضاء و قدر کا یہی فیصلہ
جب مناتے ہیں سب لوگ سائنس ڈے
پیش آیا اسی ماہ یہ حادثہ
اہل ’کرنال‘ تنہا نہ تھے دم بخود
جس کسی نے سنا، تھا وہی غمزدہ
اس سے ملتی ہے تحریک منزل رسی
ہے نہیں رایگاں کوئی بھی سانحہ
کامیابی کی ہے شرط اول یہی
ہو کبھی کم نہ انسان کا ولولہ
جائے پیدائش اس کی تھی جس گاؤں میں
پوچھتے ہیں سبھی لوگ اس کا پتہ
تم بھی پڑھ لکھ کے اب نام روشن کرو
طے کرو کامیابی سے ہر مرحلہ
ساری دنیا میں رہتے ہیں وہ سرخرو
آگے بڑھنے کا رکھتے ہیں جو حوصلہ
کیوں نہیں ہم کو رغبت ہے سائنس سے
ہے ہمارے لئے لمحئہ فکریہ
غور اور فکر فطرت کے اسرار پر
ہے یہی اہل سائنس کا مشغلہ
ماہ و مریخ جب تک ہیں جلوہ فگن
ختم ہوگا نہ تحقیق کا سلسلہ
ائیے ہم بھی اپنائیں سائنس کو
آج جو کچھ ہے سب ہے اسی کا صلہ
وقت کی یہ ضرورت ہے احمد علی
کردیا ختم جس نے ہر اک فاصلہ





آیئے مل کر منائیں عالمی اوزون ڈے
از
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی، ذاکر نگر، نئی دہلی
بڑھ رہا ہے گرین ہاؤ س گیس سے ۔۔’اوزون ہول‘
اب نہیں اخراج پر اس کے کسی کا کنٹرول
ہو رہی ہے اب فضا مسموم اس سے دن بہ دن
ہے اثرانداز ابنائے وطن پر ’’ ایروسول‘‘
اس کی الٹراوائلٹ کرنیں مضر ہیں اس قدر
جسم کی خلیوں میں ہو جاتا ہے پیدا ان سے خول
کوئی ہے سرطان اور کوئی تنفس کا شکار
ہے اہم اس کا ’’گلوبل وارمنگ۔۔‘‘ میں ایک رول
خود بچیں اس کے اثر سے اور لوگوں کو بچائیں
زندگی انمول ہے جس کا نہیں ہے کوئی مول
ہے اگر درکار حفظان صحت سب کے لئے
چاہئے سب کا بقائے باہمی ہو ایک گول
صرف باتوں سے نہیں ہو سکتا اسکا سد باب
ہوگا ’’ پیمان کیوٹو‘‘ سے ہی اس پر کنٹرول
آیئے مل کر منائیں عالمی ’اوزون ڈے‘
امن عالم کا ہے ضامن اتحاد اور میل جول
یونہی گر بڑھتی رہی برقی ’’گلوبل وارمنگ‘‘
اس کی گرمی سے پگھل جائے گا اکدن نارتھ پول



ہے یہ تحقیق سماوی کا مشن تاریخ ساز
بھیج کرPhoenixکومریخ پر با آب و تاب
ہو گیا اپنے مشن میں آج ناسا کامیاب
اب سے بتیس سال پہلے تھا وہاںاسپیسکرافٹ
سن چھہترمیں ہوئی تھی پہلی کوشش کامیاب
ہے نہایت شادو خرم آج جے پی ایل کی ٹیم
ہے یہ اس کا اک مثالی کارنامہ لاجواب
ہے یہ تحقیق سماوی کا مشن تاریخ ساز
تیسری کوشش ہوئی ہے آج جس کی کامیاب
ہے یہ سرگرداں تلاش زندگی میں اب وہاں
جیسے تا حد نظر صحرا میں ہو کوئی سراب
ہیں مسخر ابن آدم کیلئے ماہ و نجوم
جس کا ہے قرآن میں واضح اشارہ بے حجاب
ہے ستاروں سے بھی آگے اک جہان بیکراں
اہل دانش کررہے ہیں آج جس کو بے نقاب
ہے یہ اک احمد علی سائنس کا اوج کمال
جس سے ہے برپا جہاں میں ایک ذہنی انقلاب
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی،ذاکر نگر، نئی دہلی




اب پلوٹوکی طرف راکٹ ہے سرگرم سفر
ڈاکٹراحمدعلی برقیؔ اعظمی

جب ہوئی اکیس جولائی کو تسخیرقمر

نوع انساں کے لئے حیران کن تھی یہ خبر
ہیں مسخر ابن آدم کیلئے ماہ و نجوم

کرتی ہیں آیات قرآں ہم کو اس سے باخبر
معجزہ شق القمر کا تھا عیاں تصویر سے

محوحیرت دیکھ کر جس کو تھے ارباب نظر
ہے یہ قدرت کا کرشمہ ابن آدم کا عروج

تھی شب معراج جس کا نقطۂ آغازگر
ہوگئی سائنس کی تحقیق سے یہ بات صاف

جو کہا تھا سید الکونین نے تھا معتبر
وہ فضا تھی سید الابرار کے زیر قدم

اڑ رہے ہیں آج سٹ لائٹ جہاں بے بال وپر
ہے خلابازوں کی زد میں اب نظام کائنات

جتنے سیارے ہیں سب ہیں ان کے منظور نظر
صرف مریخ و قمر تک ہی نہیں محدود یہ

اب پلوٹو کی طرف راکٹ ہے سرگرم سفر
مشتری،زہرہ،عطارد،شمس،مریخ و زحل

دے رہے ہیں دعوت فکروعمل شام و سحر
آج ہیں کس حال میں یہ آب و آتش خاک و باد

مل رہی ہے ان کی سٹ لائٹ سے ہر لحظہ خبر
متفق احمدعلی برقیؔ ہیں سب اس بات پر
کاشف اسرار فطرت آج ہے نوع بشر