ایک فی البدیہ غزل : نذرِ محترم شا ھین فصیح ربانی
احمد علی برقی اعظمی
موجِ حوادثات نے تڑپا دیا مجھے
ملنے کی خواہشات نے تڑپا دیا مجھے
یادوں کے اک ہجوم سے ہے بیقرار دل
ترکِ تعلقات نے تڑپا دیا مجھے
ناسازگار پہلے ہی حالات تھے مرے
پھر تلخیٔ حیات نے تڑپا دیا مجھے
جس کو سمجھ رہا تھا میں اپنا اسی کے آج
غیروں پہ التفات نے تڑپا دیا مجھے
جس کی نہ تھی امید مجھے اس کی ذات سے
اُس دلخراش بات نے تڑپا دیا مجھے
خواب و خیال میں نہ تھا میرے فراقِ یار
اُس سے ملی نجات نے تڑپا دیا مجھے
صبحِ امید کا ھے مجھے انتظار اب
برقی سیاہ رات نے تڑپا دیا مجھے
احمد علی برقی اعظمی
موجِ حوادثات نے تڑپا دیا مجھے
ملنے کی خواہشات نے تڑپا دیا مجھے
یادوں کے اک ہجوم سے ہے بیقرار دل
ترکِ تعلقات نے تڑپا دیا مجھے
ناسازگار پہلے ہی حالات تھے مرے
پھر تلخیٔ حیات نے تڑپا دیا مجھے
جس کو سمجھ رہا تھا میں اپنا اسی کے آج
غیروں پہ التفات نے تڑپا دیا مجھے
جس کی نہ تھی امید مجھے اس کی ذات سے
اُس دلخراش بات نے تڑپا دیا مجھے
خواب و خیال میں نہ تھا میرے فراقِ یار
اُس سے ملی نجات نے تڑپا دیا مجھے
صبحِ امید کا ھے مجھے انتظار اب
برقی سیاہ رات نے تڑپا دیا مجھے