Page 1 of 1

فارغینِ مدارس اور ان کامستقبل

Posted: Sun Feb 06, 2011 10:44 am
by rrqasmi

فارغینِ مدارس اور ان کامستقبل
مولانا عبدالسلام عادل ندوی
ناظمِ تعلیمات مدرسہ جامعہ رشیدیہ بنگلور


دینی مدارس میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کے مستقبل او ر ان کے ذریعہ معاش کو موضوع بحث بنا کر اہل قلم و دانشوران امت موقع بموقع خامہ فرسائی کرتے رہتے ہیں ۔ہر قلم کار ایک مضمون لکھتا ہے اور اپنی رائے کااظہا ر اس طرح کرتا ہے کہ یہی حتمی اوردائمی حل ہے۔اور اپنی رائے کو فارغین طلباء پر تھوپنا اپنا موروثی حق سمجھتا ہے۔چاہے وہ قلم کار مسلم ہوں ،غیرمسلم ہوں،عالم ہوں یا غیر عالم ہوں ،سیاسی اشخاص ہوں یا سماجی لیڈران ہو ں ہر شخض کی نظر فارغین مدرسے پر لگی ہوئی ہیں ۔کیا واقعی یہ امت کا بہت بڑا المیہ ہے ؟اور اس کی گتھیاں اتنی الجھی ہوئی ہیں کہ سلجھائے سلجھ نہیں رہی ؟اور اس بھول بھلیاں میں طلباء بھی غلطاں و پیچاں ہیں ا ور فراغت کے بعد اس شش و پنج میں مبتلا ہوتے ہیں کہ میں فارغ ہو کر کیاکروں گا۔اور عملی زندگی کا سفر کہاں سے اور اکس اسٹیشن سے شروع کروں گا؟
آج ہر قلم کارجو اس موضو ع پر قلم اٹھاتا ہے اس کی اولین رائے یہی ہوتی ہے کہ طلباء کو دینی علوم کے ساتھ عصری علوم سے مثلاً انگریزی زبان ،کمپیوٹر ،اوردیگر صنعت و حرفت سے آراستہ کیا جا ئے تاکہ عملی زندگی میں وہ بے کا ر محض نہ رہے اور اسی فکر کے مدنظر ہندوستان کے مدارس میں طلباء کو مذکورہ صفات سے آراستہ کیا جا رہا ہے۔
ذمہ دارانِ مدارس کا یہ قدم نہایت غلط ا ور گمراہ کن ہے ۔یہ ایک چوردروازہ ہے جس کو شیطان نے امت کے اندر سے دینی علوم کو یکسر ختم کرنے کے غرض سے کھولا ہے ۔اور تجربہ بھی یہی کہتی ہے۔بھلا یہ کیسے ممکن ہو سکتاہے کہ ایک شخص مولوی بھی بنے اور ڈاکٹر بھی بنے اور ایک ڈگری کالج کے طالب علم کو جہاں جراحی کا درس دیا جائے وہیں اس کو حدیث وقرآن کی الجھی ہوئی گتھیاں سلجھانے کے راز بھی بتلائے جائیں۔اور اگر مقصد یہ ہے کہ چند طلباء دینی میدان کو چھوڑکر اور صرف اپنی زندگی میں عمل کو باقی رکھتے ہوئے دنیوی کام کریں گے۔ تو سوال یہ ہے کہ ہمارے پاس کیا اتنے طلباء ہو چکے ہیں جو علوم نبوت کے اتنے بڑے سرمائے کا علمبردار ہوں ۔
سوال یہ ہے کہ علوم اسلامیہ کے اتنے بڑے ذخیرہ کا وارث کون ہوگا؟آنے والے دور میں جو نئے مسائل ابھر کر سامنے آئیں گے اس کے سامنے کون سینہ سپر ہوگا؟حدیث کا اتنا بڑا ذخیرہ مع شروحات ،قرآن کریم کا ترجمہ ،مطالب اوراس کی تفسیر ،ادب عربی کا اتنا قیمتی سرمایہ ،فقہ کا اتنا بڑذخیرہ مختصراً علوم دینیہ آخر کس کے سینے میں محفوظ رہے گی۔کیاان طلباء کے سینوں میں جو علوم دینیہ کے حصول کے بعد کسی انگیزی اور کمپیوٹر کے ڈپارٹمنٹ میں کام کر رہے ہوں گے؟
سوال یہ ہے کہ صرف دو فیصد مسلم نوجوا ن مدارس کا رخ کرتے ہیں اور ان میں سے اکثریت ان کی ہوتی ہے جو گھر میں کسی کے کام کے نہیں ہوتے اور اپنے بھائیوں میں کند ذہن ہوتے ہیں ان کو مدارس کا راستہ دکھا دیا جا تا ہے کہ چلو یہ مدرسے میں ہی جا کر وقت گزار لے گا اور کچھ سیکھ بھی لے گا (یہ بات ہر ذمہ دار پر مطابق نہیں آتی )اور98فیصدمسلم نوجوان اسکولوں میں عصری علوم حاصل کرتے ہیں جن کو دینی علوم سے کوئی واسطہ نہیں ہے ۔اور ان دو فیصد مسلم نوجوانوں میں سے بھی جو مدارس میں ہیں اکثریت ان کی ہے جو صرف ضیاع وقت کرتے ہیں اور تعلیم کی مدت پوری کرتے ہیں ۔وہ نہ کبھی اپنے مستقبل کے بارے میں سوچتے ہیں اورنہ اس موضوع پر بحث کرنا پسند کرتے ہیں ۔اور ان میں سے مشکل سے دو فیصد طلباء ایسے ہوں گے جن کاکوئی خاص مقصد اور کوئی مستقبل ہوگا۔
ایسی حالت میں اگر ان طلباء کو جن کی گنتی انگلیوں میں ہو سکتی ہے علوم عصریہ کی تعلیم دی جائے تومدرسہ کااصل مقصد ہی فوت ہوجائے گا اور مدرسہ کی روح ہی نکل جائے گی۔اب اگر کوئی یہ کہے کہ یہ کورسیس ان طلباء کے لئے ہے جن کو مولوی بن کر رہنا پسند نہیں اور دینی علوم کی ترویج و اشاعت ان کو پسند نہیں تو جواب ہے کہ پھر اس نے مدرسے میں داخلہ ہی کیوں لیا اور عوام کی دی ہوئی رقم کا ضیاع کیوں کیا۔کیا اس کام کے لئے یہ ترکیب نہیں ہوسکتی کہ کالجس میں جو مسلم طلباء پڑھتے ہیں ان کو ایک پروفیشنل کورس کرایاجائے اور ان کے لئے یہ ضروری کیا جائے کہ فراغت کے بعد یا دوران تعلیم ہی اس پروفیشنل کورس کو پڑھے اور ا س کے امتحانات میں پابندی کے ساتھ حاضر ہوں۔جیسا کہ ہندوستان میں بعض جگہوں میں اس کا چلن ہے اور مسلم والدین کسی نہ کسی طرح اپنے بچوں کو ابتدائی تعلیم سے آرستہ کرتے ہیں۔اور ان کو مسجد یا مدرسہ میں پڑھا کر اس بوجھ سے سبکدوش ہو جاتے ہیں کہ میرا بچہ تو ماشاء اللہ قرآن پڑھ لیتاہے اور میری بیٹی بہشتی زیور پڑھ لیتی ہے۔ان ہی مکتبوں کے تعلیمی نظام میں ترمیم کرکے اور اسکے لئے ایک عمدہ کورس تیار کر کے بھی عصری علوم حاصل کرنے والے مسلم نوجوانوں کو اسلامی تعلیمات سے بہرہ ور کیا جا سکتا ہے اور ن کا ذہن اسلامی بنایا جا سکتاہے۔اور بھی دوسرے اقدام علماء اس راستہ میں اٹھا سکتے ہیں۔مگر دینی مدرسے میں داخلہ کا شرطِ اول ہی یہی ہونی چاہئے کہ وہ دین کا داعی و معلم قرآن بن کر پیدا ہوں نہ کہ معلم شیطان بن کرپیدا ہوں ۔مدارس کا تعلیمی نظام اتناٹھوس اور اتنا پختہ ہو نا چاہۂے کہ طلباء اپنا اوڑھنا بچھانا اسی کوبنالے اوروہی ان کی زندگی کا نصب العین ہوجائے۔ان کی تربیت ایسی مدبرانہ اور مفکرانہ انداز میں ہونی چاہئے کہ وہ مادیت سے نہ گھبرائے اور اخروی زندگی کے عیش و آرام دنیوی زندگی کے سامنے بھدہ اور ناکارہ لگے۔ان کی ذہنیت کی پرورش اتنی چالاکی اور ہوشیاری کی جائے کہ وہ بس اتنا جانے کہ اس کے پیدا ہونے کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے دینی علوم کو سیکھنا اور اس کی ترویج و اشاعت کرنا۔اور بار بار ان کو اس بات کا احساس دلایا جا تا رہے۔جس طرح عیسائیوں میں جو عورتیں سسٹر بنتی ہیں یا جو مرد فادر بنتے ہیں ان کو اس بات سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا کہ باہر کی دنیا میں کیسی کیسی ایجادات ہو رہی ہیں اور ٹکنالوجی کا عروج کہا ں تک ہو چکا ہے۔فکر یہی ہونی چاہئے کہ طلباء خالص مولوی و مفکر اسلام بن کر پیداہوں اور قرآن و حدیث ان کو ازبر ہو اس کے لئے چاہے دس سال سے پندرہ سال لگیں ۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ آج اہل مدارس ایک دوسرے پر عمارتوں کی بلندی اور اس کی تعداد پر فخرکرتے ہیں جو بالکل حرام اور ناجائز ہے اگر فخر ہی کرنا ہے تو ایک مدرسہ دوسرے مدرسہ کے بچوں کو قرآنی تفسیرات پر احادیث کی یادداشت پر ،عربی زبان دانی ،اردو وعربی تعبیرات وانشاء پردازی پر فخر کرے ،غزالی و ابن تیمیہ جیسی شخصیت پیدا کرنے پر فخر کرے۔
کوئی بھی اس بات کا انکار نہیں کر سکتا کہ مدارس کے طلباء یک قلم انگریزی زبان،حساب وکتاب،اور دیگر عصری علوم سے ناواقف اور بے بہرہ ہوں بلکہ ان کو اس حدتک ان علوم کی تعلیم دی جائے کہ وہ اس سے فائدہ تو اٹھا سکیں لیکن اس کو ذریعہ معاش نہ بنا سکیں۔کیوں کہ اگر ان کو انہیں علوم کو ذریعہ معاش بنانا تھا توپھر مدارس میں داخلہ کی ضرورت ہی کیا تھی ۔قوم مدارس کی امداد اس لئے نہیں کرتی کہ اس کے اندر کوئی ڈکٹر اور کوئی انجینیر پیدا ہوگا بلکہ اس لئے کرتی ہے کہ کوئی عالم ،حافظ و قاری ،مفکر و مدبر پیدا ہوکر دین کی خدمت کرے گا اور ان کو بھی اس کا ثواب ملیگا۔اگر ان کو اس بات کا احساس ہوجائے کہ یہاں دینی علوم سے واسطہ رکھنے والے کم اور دنیوی علوم میں دماغ لگانے والے زیادہ تیار ہوتے ہیں تو بلا شبہ وہ اپنی امداد روک لیں ۔

Re: فارغینِ مدارس اور ان کامستقبل

Posted: Tue Feb 08, 2011 5:15 am
by sbashwar
محترم رضوان رشید صاحب
السلام علیکم

مضمون میں دینی تعلیم پر اچھّی توجہ دلائی گئی ہے۔ عصری تعلیم بھی ضروری ہے۔ مرحوم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب اور ڈاکڑ ذاکر نایک صاحب کے نام قابلِ ذکر ہیں۔

مخلص
سالم باشوار