یاد طفیل احمد جمالی=TUFAIL AHMAD JAMALI
Posted: Fri Aug 12, 2011 12:52 am
بیاد طفیل احمد جمالی=TUFAIL AHMAD JAMALI جن کی برسی بارہ 12/اگست کو منائی جاتی ہے
سیدانورجاویدہاشمی
مہتمم جیل خانہ بنارس کے گھرانے میں 1919 کو پیداہونے والے طفیل احمد جمالی کا آبائی وطن الہٰ آباد تھا۔ابتدائی تعلیم کے بعد وہ بنارس سے الہ آباد گئے جہاں یونی ورسٹی سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد دہلی کا رخ کیا۔سیاسی معلومات اور لکھنے لکھانے کے شوق نے ان کو صحافت سے وابستہ کردیا دہلی میں جزوقتی طور پر کچھ اخبارات میں ملازمت کے بعد ’منشور‘ سے منسلک ہوگئے تھے۔
قیام ِ پاکستان کے بعد 28برس کی عمر میں وہ کراچی آگئے یہاں سے روزنامہ جنگ کا اجراء ہوا تو ان کو بطور سب ایڈیٹر،کالم نگار موقع ملا۔ازاں بعد ’امروز‘ لاہور کے کراچی ایڈیشن میں چراغ حسن حسرت کی ادارت میں ان کو رکن عملہ بنالیا گیا جہاں ’پہلا درویش‘ نامی روزانہ کالم لکھنے والے چار میں سے ایک یہ بھی تھے باقی تین ابن انشاء،ابراہیم جلیس،مشفق خواجہ بھی یہ کالم لکھتے رہے۔’گر تو برا نہ مانے‘ کے عنوان سے ان کا ہفتہ وار کالم قارئین میں بہت پسند کیا گیا جس میں معاشرتی،سماجی،سیاسی و ادبی مسائل و معاملات پر طنزیہ انداز میں یہ تنقید کیا کرتے تھے۔اردو،فارسی و انگریزی زبانوں پر ان کو عبورحاصل تھا اور یہ پاکستان کے صحافیوں کی ٹریڈ یونین میں شامل رہے۔امروز کراچی ایڈیشن بند ہونے پر یہ فلمی دنیا سے منسلک ہوگئے بے شمار فلموں کے مکالمے اور گیت لکھے ساتھ ہی الیاس رشیدی کے مشہور ہفتہ وار ’نگار‘کراچی کی مجلس ادارت میں شامل بھی رہے۔2برس بعد مجید لاہوری کے ہفت روزہ نمکدان میں بطور مرتب کام کیا۔عثمان آزاد نے کراچی سے انجام جاری کیا تو 1963ء میں ان کو مدیر بنادیا۔پاکستان رائٹرزگلڈ کے وفد کے ساتھ روس کا سرکاری دورہ کیا۔1967 میں ان کو قومی سرمایہ کاری کے ادارے سے چین بھیج دیا گیا جہاں ریڈیو پیکنگ کے رسالہ ’چین باتصویر‘ میں مترجم کے طور پر کام کیا۔1969 ء میں فیض احمد فیض(جن کی یہ صدی منائی جارہی ہے( کے ساتھ سبط حسن کے لیل و نہار میں پرانا کالم گر تو برا نہ مانے شروع کیا
شمیم احمد کے ساتھ یہ رائٹرزگلڈ کے ترجمان ’ہم قلم‘ کے مدیر بھی رہے۔ ان کی ایک غزل چپ ہوگئے کی ردیف میں ان کے حالات و جذبات کی عکاس ہے۔غیر مستقل مزاجی کے باعث یہ عمر کے بڑے حصے میں پریشان رہے ۔ذاتی کاروبار بھی راس نہ آیا۔12بارہ/اگست 1974 کو ہارٹ فیل میں وفات ہوئی سخی حسن کراچی کے قبرستان میں آسودہ ءخاک کردیے گئے۔
میں گدائے بے نوا ہوں مرے پاس اور کیا ہے : تری راہ میں لٹا ہے مرے اشک کا خزانہ
سیدانورجاویدہاشمی
مہتمم جیل خانہ بنارس کے گھرانے میں 1919 کو پیداہونے والے طفیل احمد جمالی کا آبائی وطن الہٰ آباد تھا۔ابتدائی تعلیم کے بعد وہ بنارس سے الہ آباد گئے جہاں یونی ورسٹی سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد دہلی کا رخ کیا۔سیاسی معلومات اور لکھنے لکھانے کے شوق نے ان کو صحافت سے وابستہ کردیا دہلی میں جزوقتی طور پر کچھ اخبارات میں ملازمت کے بعد ’منشور‘ سے منسلک ہوگئے تھے۔
قیام ِ پاکستان کے بعد 28برس کی عمر میں وہ کراچی آگئے یہاں سے روزنامہ جنگ کا اجراء ہوا تو ان کو بطور سب ایڈیٹر،کالم نگار موقع ملا۔ازاں بعد ’امروز‘ لاہور کے کراچی ایڈیشن میں چراغ حسن حسرت کی ادارت میں ان کو رکن عملہ بنالیا گیا جہاں ’پہلا درویش‘ نامی روزانہ کالم لکھنے والے چار میں سے ایک یہ بھی تھے باقی تین ابن انشاء،ابراہیم جلیس،مشفق خواجہ بھی یہ کالم لکھتے رہے۔’گر تو برا نہ مانے‘ کے عنوان سے ان کا ہفتہ وار کالم قارئین میں بہت پسند کیا گیا جس میں معاشرتی،سماجی،سیاسی و ادبی مسائل و معاملات پر طنزیہ انداز میں یہ تنقید کیا کرتے تھے۔اردو،فارسی و انگریزی زبانوں پر ان کو عبورحاصل تھا اور یہ پاکستان کے صحافیوں کی ٹریڈ یونین میں شامل رہے۔امروز کراچی ایڈیشن بند ہونے پر یہ فلمی دنیا سے منسلک ہوگئے بے شمار فلموں کے مکالمے اور گیت لکھے ساتھ ہی الیاس رشیدی کے مشہور ہفتہ وار ’نگار‘کراچی کی مجلس ادارت میں شامل بھی رہے۔2برس بعد مجید لاہوری کے ہفت روزہ نمکدان میں بطور مرتب کام کیا۔عثمان آزاد نے کراچی سے انجام جاری کیا تو 1963ء میں ان کو مدیر بنادیا۔پاکستان رائٹرزگلڈ کے وفد کے ساتھ روس کا سرکاری دورہ کیا۔1967 میں ان کو قومی سرمایہ کاری کے ادارے سے چین بھیج دیا گیا جہاں ریڈیو پیکنگ کے رسالہ ’چین باتصویر‘ میں مترجم کے طور پر کام کیا۔1969 ء میں فیض احمد فیض(جن کی یہ صدی منائی جارہی ہے( کے ساتھ سبط حسن کے لیل و نہار میں پرانا کالم گر تو برا نہ مانے شروع کیا
شمیم احمد کے ساتھ یہ رائٹرزگلڈ کے ترجمان ’ہم قلم‘ کے مدیر بھی رہے۔ ان کی ایک غزل چپ ہوگئے کی ردیف میں ان کے حالات و جذبات کی عکاس ہے۔غیر مستقل مزاجی کے باعث یہ عمر کے بڑے حصے میں پریشان رہے ۔ذاتی کاروبار بھی راس نہ آیا۔12بارہ/اگست 1974 کو ہارٹ فیل میں وفات ہوئی سخی حسن کراچی کے قبرستان میں آسودہ ءخاک کردیے گئے۔
میں گدائے بے نوا ہوں مرے پاس اور کیا ہے : تری راہ میں لٹا ہے مرے اشک کا خزانہ