دہلی میں خواب سمندر پر مذاکرہ ۔Report
Posted: Sat Aug 13, 2011 9:21 am
Syed Anwer Jawaid Hashmi,Karachi
دہلی میں خواب سمندر پر مذاکرہ ۔ ۔تصویر میں دائیں سے اعظم عبّاس، پروفیسر خالد محمود، ڈاکٹر تقی عابدی (کناڈا)، سید محمد اشرف، عزیزنبیل، آصف اعظمی، حاجی میاں فیاض الدین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواب سمندر کی تقریب کے سلسلے میں یواین آئی کی نیوز جو ہندوستان کے بیشتر اردو اخبارات میں شامل ہوئی درج ذیل ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(((عزیز نبیل کے شعری مجموعہ’خواب سمندر’ پر دہلی میں مذاکرہ)))
.......................
یواین آئی ۔ نئی دہلی ۔ 31 جولائی 2011
کل شام ایک ادبی تقریب میں عزیزنبیل کے شعری مجموعہ خواب سمندر کے حوالے سے اردو شاعری کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے مہمان شاعر کی شخصیت اور شاعری کو سمجھنے کی کوشش کی گئی اور ان کے افکار اور اسلوب میں نئے پن کی نشاندہی کی گئی. خاص کر شعروں میں ابھرنے والے خوبصورت پیکروں اور سلجھی ہوئی تخلیقی زبان کو پہچانا گیا.
یہاں غالب اکیڈمی میں خواب سمندر پر مذاکرے کے دوران نہ صرف عزیزنبیل کی شاعری میں اچھی اور معتبر شاعری کے امکانات کو دیکھا گیا بلکہ شعری محاسن، تخلیقیت، عصری حسّیت، مہجر ادب اور اردو کی نئی بستیوں میں زبان اور ادب کے فروغ کے لیے کوشاں اردو والوں کی خدمات پر بھی روشنی ڈالی گئی. اس تقریب کی مجلس ِ صدارت میں ڈاکٹر تقی عابدی (کناڈا)، ممتاز فکشن نگار اور ادیب سید محمد اشرف اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ ء اردو کےسربراہ پروفیسر خالد محمود کے علاوہ مشہور شاعر اعظم عبّاس شامل تھے.
آئیڈیا کمیونیکشن کے زیرِ اہتمام اس تقریب میں مجلس صدارت کے اراکین کے علاوہ جامعہ ملّیہ اسلامیہ کے شعبہ ء اردو کے استاذ اور ممتاز شاعر پروفیسر شہپر رسول، سید راشد حامدی اور آصف اعظمی کے علاوہ مشہور ادیب و صحافی اشہر ہاشمی نے بھی عزیزنبیل اور خواب سمندر کے حوالے سے اس صدی کے ابتدائی دس برسوں کے شعری رجحانات پر اظہار ِ خیال کیا.
پروفیسر شہپر رسول نے کہا کہ عزیزنبیل اچھے اور تازہ کار شاعر ہیں ان کی نظمیں اور غزلیں دونوں متوجّہ کرتی ہیں ان کا لہجہ بدلتے اور بنتے ہوئے نقوش سے مزیّن ہے نیز ان کے یہاں انفرادیت کی آہٹ کو بھی سنا جاسکتا ہے. فنّی تخلیقی اظہار کی مذکورہ سمت قدم بڑھا لینا کوئی معمولی بات نہیں ہے.. انہوں نے مزید کہا کہ عزیزنبیل نیا سوچنے اور نیا کہنے کی دھن میں ضرور رہتے ہیں لیکن عجوبے تخلیق نہیں کرتے وہ لفظ و معنی کے امکان و اظہار پر نظر رکھتے ہیں اور ایک لفظ سے ایک علاقہ آباد کرنے کے خواہاں نظر آتے ہیں.
عزیزنبیل کی شاعری کو سراہتے ہوئے ڈاکٹر تقی عابدی نے کہا کہ خواب سمندر کی غزلوں اور نظموں میں ایک ذہین فنکار نظر آتا ہے جس کے سوچنے کا ڈھنگ اپنی عمر کے دوسرے شعراء سے ذرا مختلف ہے اور جو اظہار کی سطح پر کوئی بڑا تجربہ نہ کرنے کے باوجود پرانی روایت سے آگے نکلنے کی کوشش کررہے ہیں جیسے ہجرت پر ان کے اشعار اب تک کے کہے گئے شعروں سے بالکل مختلف ہیں. ڈاکٹر تقی عابدی نے اپنی بہت تفصیلی گفتگو میں موضوع کے آس پاس رہتے ہوئے شعرگوئی اور شعر فہمی پر بھی بات کی اور عزیزنبیل کی دو مکمل غزلوں کے تمام اشعار کا بخوبی تجزیہ پیش کیا.
پروفیسر خالد محمود نے عزیزنبیل کی کتاب کے صوری اور متنی محاسن گناتے ہوئے بتا یا کہ نبیل کے اشعار میں بہت گہرائی اور بشر ط ریاضت ان کے یہاں ایک بڑی شاعری کا امکان صاف نظر آتا ہے.. پروفیسر خالد محمود نے عزیزنبیل کے کئی اشعار کا حوالہ دیتے ہوئے نبیل کی شاعری کی مختلف جہتوں سے تجزیہ کیا.
ڈاکٹر سید محمد اشرف نے عزیزنبیل کے مجموعے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خواب سمندر کا کوئی صفحہ ایسا نہیں کہ جس پر دو یا تین ایسے خوبصورت اشعار نہ موجود ہوں جو آپ کے حافظے میں جگہ بنانے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں..
دہلی کی پرانی روایتوں کے امین حاجی ہوٹل کے مالک حاجی میاں فیاض الدین نے اہلیانِ دہلی کی جانب سے عزیزنبیل کو شال اڑھا کر اور گلدستہ پیش کرکے استقبال کیا...
عزیزنبیل انجمن محبّان ِ اردو ہند قطر کے جنرل سکریٹری اور سالانہ دستاویزی مجلّہ دستاویز کے مدیرِ اعلی بھی ہیں. عزیزنبیل کا آبائی وطن الہ آباد ہے لیکن ان کے خاندان کے افراد مہاراشٹر جاکر بس گئے. انہوں نے جامعہ ملّیہ اسلامیہ سے تعلیم حاصل کی اور قطر میں بسلسلہ ملازمت مقیم ہیں... اس تقریب کے اہم شرکاء میں دہلی اردو اکیڈمی کے سکریٹری انیس اعظمی، اسیر برہان پوری، شہبازندیم ضیائی، عامر قدوائی، معین شاداب، عالمگیر ثانی، بسمل عارفی، شکیل انصاری، اخترجمال، ضمیراللہ ضمیر اور شہر کے بہت سارے اہم شعراء و ادباء موجود تھے.