Hazrat Umar Al-Farooq :: Tariq Ghazi
Posted: Fri Dec 23, 2011 10:59 am
مطالعات
0170
بھائیو، میں بادشاہ نہیں ہوں کہ تم کو اپنا غلام بناؤں. میں خود اللہ تعالیٰ کا غلام ہوں.البتہ خلافت کا بارمیرے سر پر ہے.اگر میں اس طرح کام کروں کہ تم لوگ آرام سے اپنے مکانوں میں سؤو تو میری خوش نصیبی ہے. اور اگر میری یہ خواہش ہو کہ تم میرے دروازہ پر حاضر رہو تومیری بد بختی ہے. میں تم کو تعلیم دیتا ہوں، قول سے نہیں بلکہ عمل سے.
سیدنا عمر الفاروق ؓ
ابن اثیر ، الکامل فی التاریخ
بحوالہ حاشیہ تاریخ ابن خلدون، جلد رسول اور خلفائے رسول، حصہ اول
کراچی،ص 324-325
محمد طارق غازی
آٹوا، کینڈا
ہم کون تھے، کیا ہوگئے. ہم کہاں تھے، کہاں بھٹک گئے.کیا کام دیا گیا تھا ہمیں اور ہم کن جھمیلوں میں پڑ کر خود کو کھو بیٹھے.اور پھر روتے ہیں کہ یا اللہ یہ زوال و ادبار ہم پرکیوں مسلط ہوگیا.امیر المومنین حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ کا تو یہ حال ہے کہ کہتے تھے کہ عام لوگ میری دربانی کریں تو بدبختی ہوئی مگر یہ کھلی بدبختی کسی آنکھ میں نہیں چبھتی کہ ہمارے حکمراں کیسے کیسے بد بختوں کی دربانی کرنے پر مامور ہوگئے اور اس بد بختی کو اپنی خوش بختی سمجھتے ہیں.
ابھی دو چار دن پہلے کی بات ہے. ایک صاحب نے مجھے مخاطب کیا اور پھر انہیں وہ عظیم انسان یاد آگیا جس کے نام پر میرے دادا نے میرا نام رکھا تھا.میرے وہ ملاقاتی پھر کہنے لگے کہ کیسے عجیب لوگ تھے وہ اور کن حالات میں زندگی کر گئے کہ گھروں میں بجلی نہ پانی، فریج نہ ائر کنڈیشنر اور ہیٹر، آرام دہ گدے نہ برق رفتارموٹر کاریں، فون نہ انٹر نیٹ اور ٹیلیوژن، اور پھر وہ کام کرگئے کہ دنیا آج تک حیرت کرتی ہے. پھر ان کا خیال گیا اپنے والدین کی طرف. والدہ پتھر کی سل پر اپنے ہاتھ سے مصالحہ پیستی تھیں، ہاتھوں سے سارے گھر بھر کے کپڑے سیتی بھی تھیں اور دھوتی بھی تھیں،ابا کی تنخواہ سوا سو روپیہ تھی ، روزانہ دوچار ملنے والے بھی گھر پر آتے اور ان کی خاطرتواضع بھی ہوتی تھی. اور پھر آٹھ بہن بھائی کے گھر میں وہ خیرو برکت تھی کہ سب نے تعلیم حاصل کی اور اب عزت آبرو کی زندگی گزار رہے ہیں. ابا کے نظام تربیت کا مدار یہ تھا کہ نہ حرام کام کرو نہ حرام پیسہ پیٹ میں جائے. بیٹے کو کسٹم کی ملازمت ملی تو چھڑوا دی کے رشوت لینے پر افسران بالا کا جبر ہوگا؛ سنیماؤں کے ٹکٹوں کی آمدنی کے انسپکٹرکی نوکری ملی تو وہ چھڑوا دی کہ لوگ فری پاس مانگیں گے جو حاصل کرنا تمہارے فرض منصبی میں شامل نہیں اور تم یہ کرو گے تو سنیما کے مالکان بھی جواباً تم سے آمدنی کی جھوٹی سندیں بنوائیں گے.
وہ ابا نہ کوئی مولوی مولاناتھے، نہ عالم دین، نہ کوئی مرتاض صوفی ، نہ عشق رسول کے دعوے دار، نہ دن رات وظیفے پڑھنے والے.کراچی کے ایک ہسپتال میں کمپاؤنڈر تھے. بس. مگر پھر کیا بات تھی کہ آٹھ بچوں کا وہ باپ اور وہ ماں ایسی زندگی گزار گئے کہ پچاس برس پہلے کا وہ جوڑا آج نظر آجائے تو انہیں دیکھنے کے لئے جمگھٹا لگ جائے کہ ایسے انسان بھی کبھی ہوتے تھےاس جہان میں. اب ہمیں کیا خبر کہ یہ بھی اسی دور کے ایک خاندان کا قصہ ہے جب ہم مل جل کر زوال و ادبار ہی میں مبتلا تھے. مگر اس جوڑے کے سامنے وہ تہذیبی روایت موجود تھی جس کا ایک سلسلہ حضرت عمر ؓ تک پہنچتا ہے، ایک سلسلہ حضرت ابوبکر ؓ تک پہنچتا ہے، ایک سلسلہ حضرت علیؓ تک پہنچتا ہے، ایک سلسلہ حضرت ابوایوب ؓ تک پہنچتا ہے، اور بہت سلسلے ان ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہؓ تک پہنچتے ہیں جو 9 ہجری کی 9 ذی الحجہ کو میدان عرفات میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب تھے اور جنہوں نے اپنے سلسلہ حیات کا سر آغاز بنایا تھا اس خطبہ کو جسے ہم حجۃ الوداع کا خطبہ کہتے ہیں. مگر یہ باتیں اب خالی خولی عقیدت کے اظہار کے واسطے رہ گئیں. ہماری زندگی سے ان باتوں کا کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہے. ایسا کوئی تعلق قائم کرنے کی ہمیں فرصت بھی نہیں رہی. اور روز بدلتی دنیا میں اب ان باتوں کا فیشن بھی نہیں رہا.
چلئے، اس قسم کی باتوں سے تکلیف ہوتی ہے ہمیں. نہیں کرتے یہ سب ذکر. بس ایک بات پر بات ختم کریں.
وہ نقطۂ نظر جسے سیدنا عمر الفاروق ؓ نے سیاسی اصول بنادیا تھا اور وہ عمل جس نے تیرہ سو سال بعدایک کمپاؤنڈر کے گھر کو خیر و برکت سے بھر دیا ایک لفظ توکل اور ایک لفظ قناعت کی عملی تشریح کے سوا کچھ بھی نہ تھا. یہ دونوں الفاظ اب مسلمانوں کی لغات سے نکال دئے گئے ہیں. دیکھئے ذرا، اپنے والدین کے زمانے کی کوئی لغت یا فرہنگ آپ کے گھر میں کہیں ہو تو اس میں ان دونوں لفظوں کا مطلب دیکھنے کی کوشش کیجئے. ماضی کے ایک چراغ کی روشنی میں شائد مستقبل کا کوئی سراغ وہاں مل جائے.
ہفتہ 30 اپریل 2011
0170
بھائیو، میں بادشاہ نہیں ہوں کہ تم کو اپنا غلام بناؤں. میں خود اللہ تعالیٰ کا غلام ہوں.البتہ خلافت کا بارمیرے سر پر ہے.اگر میں اس طرح کام کروں کہ تم لوگ آرام سے اپنے مکانوں میں سؤو تو میری خوش نصیبی ہے. اور اگر میری یہ خواہش ہو کہ تم میرے دروازہ پر حاضر رہو تومیری بد بختی ہے. میں تم کو تعلیم دیتا ہوں، قول سے نہیں بلکہ عمل سے.
سیدنا عمر الفاروق ؓ
ابن اثیر ، الکامل فی التاریخ
بحوالہ حاشیہ تاریخ ابن خلدون، جلد رسول اور خلفائے رسول، حصہ اول
کراچی،ص 324-325
محمد طارق غازی
آٹوا، کینڈا
ہم کون تھے، کیا ہوگئے. ہم کہاں تھے، کہاں بھٹک گئے.کیا کام دیا گیا تھا ہمیں اور ہم کن جھمیلوں میں پڑ کر خود کو کھو بیٹھے.اور پھر روتے ہیں کہ یا اللہ یہ زوال و ادبار ہم پرکیوں مسلط ہوگیا.امیر المومنین حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ کا تو یہ حال ہے کہ کہتے تھے کہ عام لوگ میری دربانی کریں تو بدبختی ہوئی مگر یہ کھلی بدبختی کسی آنکھ میں نہیں چبھتی کہ ہمارے حکمراں کیسے کیسے بد بختوں کی دربانی کرنے پر مامور ہوگئے اور اس بد بختی کو اپنی خوش بختی سمجھتے ہیں.
ابھی دو چار دن پہلے کی بات ہے. ایک صاحب نے مجھے مخاطب کیا اور پھر انہیں وہ عظیم انسان یاد آگیا جس کے نام پر میرے دادا نے میرا نام رکھا تھا.میرے وہ ملاقاتی پھر کہنے لگے کہ کیسے عجیب لوگ تھے وہ اور کن حالات میں زندگی کر گئے کہ گھروں میں بجلی نہ پانی، فریج نہ ائر کنڈیشنر اور ہیٹر، آرام دہ گدے نہ برق رفتارموٹر کاریں، فون نہ انٹر نیٹ اور ٹیلیوژن، اور پھر وہ کام کرگئے کہ دنیا آج تک حیرت کرتی ہے. پھر ان کا خیال گیا اپنے والدین کی طرف. والدہ پتھر کی سل پر اپنے ہاتھ سے مصالحہ پیستی تھیں، ہاتھوں سے سارے گھر بھر کے کپڑے سیتی بھی تھیں اور دھوتی بھی تھیں،ابا کی تنخواہ سوا سو روپیہ تھی ، روزانہ دوچار ملنے والے بھی گھر پر آتے اور ان کی خاطرتواضع بھی ہوتی تھی. اور پھر آٹھ بہن بھائی کے گھر میں وہ خیرو برکت تھی کہ سب نے تعلیم حاصل کی اور اب عزت آبرو کی زندگی گزار رہے ہیں. ابا کے نظام تربیت کا مدار یہ تھا کہ نہ حرام کام کرو نہ حرام پیسہ پیٹ میں جائے. بیٹے کو کسٹم کی ملازمت ملی تو چھڑوا دی کے رشوت لینے پر افسران بالا کا جبر ہوگا؛ سنیماؤں کے ٹکٹوں کی آمدنی کے انسپکٹرکی نوکری ملی تو وہ چھڑوا دی کہ لوگ فری پاس مانگیں گے جو حاصل کرنا تمہارے فرض منصبی میں شامل نہیں اور تم یہ کرو گے تو سنیما کے مالکان بھی جواباً تم سے آمدنی کی جھوٹی سندیں بنوائیں گے.
وہ ابا نہ کوئی مولوی مولاناتھے، نہ عالم دین، نہ کوئی مرتاض صوفی ، نہ عشق رسول کے دعوے دار، نہ دن رات وظیفے پڑھنے والے.کراچی کے ایک ہسپتال میں کمپاؤنڈر تھے. بس. مگر پھر کیا بات تھی کہ آٹھ بچوں کا وہ باپ اور وہ ماں ایسی زندگی گزار گئے کہ پچاس برس پہلے کا وہ جوڑا آج نظر آجائے تو انہیں دیکھنے کے لئے جمگھٹا لگ جائے کہ ایسے انسان بھی کبھی ہوتے تھےاس جہان میں. اب ہمیں کیا خبر کہ یہ بھی اسی دور کے ایک خاندان کا قصہ ہے جب ہم مل جل کر زوال و ادبار ہی میں مبتلا تھے. مگر اس جوڑے کے سامنے وہ تہذیبی روایت موجود تھی جس کا ایک سلسلہ حضرت عمر ؓ تک پہنچتا ہے، ایک سلسلہ حضرت ابوبکر ؓ تک پہنچتا ہے، ایک سلسلہ حضرت علیؓ تک پہنچتا ہے، ایک سلسلہ حضرت ابوایوب ؓ تک پہنچتا ہے، اور بہت سلسلے ان ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہؓ تک پہنچتے ہیں جو 9 ہجری کی 9 ذی الحجہ کو میدان عرفات میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب تھے اور جنہوں نے اپنے سلسلہ حیات کا سر آغاز بنایا تھا اس خطبہ کو جسے ہم حجۃ الوداع کا خطبہ کہتے ہیں. مگر یہ باتیں اب خالی خولی عقیدت کے اظہار کے واسطے رہ گئیں. ہماری زندگی سے ان باتوں کا کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہے. ایسا کوئی تعلق قائم کرنے کی ہمیں فرصت بھی نہیں رہی. اور روز بدلتی دنیا میں اب ان باتوں کا فیشن بھی نہیں رہا.
چلئے، اس قسم کی باتوں سے تکلیف ہوتی ہے ہمیں. نہیں کرتے یہ سب ذکر. بس ایک بات پر بات ختم کریں.
وہ نقطۂ نظر جسے سیدنا عمر الفاروق ؓ نے سیاسی اصول بنادیا تھا اور وہ عمل جس نے تیرہ سو سال بعدایک کمپاؤنڈر کے گھر کو خیر و برکت سے بھر دیا ایک لفظ توکل اور ایک لفظ قناعت کی عملی تشریح کے سوا کچھ بھی نہ تھا. یہ دونوں الفاظ اب مسلمانوں کی لغات سے نکال دئے گئے ہیں. دیکھئے ذرا، اپنے والدین کے زمانے کی کوئی لغت یا فرہنگ آپ کے گھر میں کہیں ہو تو اس میں ان دونوں لفظوں کا مطلب دیکھنے کی کوشش کیجئے. ماضی کے ایک چراغ کی روشنی میں شائد مستقبل کا کوئی سراغ وہاں مل جائے.
ہفتہ 30 اپریل 2011