کراچی پریس کلب میں پیرزادہ عاشق کیرانوی کی ۳۰ہزار اشعار پر م
Posted: Sun Dec 23, 2012 11:59 am
پیرزادہ عاشق کیرانوی ہمارے اُن سینئر شعرائے کرام میں سے ایک ہیں جن کے سایہ ِشفقت و قیادت
میں ہم نے سخن گوئی اور مشاعروں میں شرکت کا آغاز کیا۔دبستان لانڈھی کورنگی میں سید قمر ہاشمی ، جوہر سعیدی ،شاہد الوری،یہ،ڈاکٹریوسف جاوید،تقی مرزا،جلی امروہوی،خفی امروہوی ،اسماعیل انیس بیتاب نظیری وغیرہ کے ساتھ ساجد رامپوری یا ڈاکٹر ساجد امجد،ثروت سعیدی،جمال احسانی،سلیم کوثر ،انورجاوید ہاشمی،شفق زیدی،محسن اسرار،یاد صدیقی،سہیل اختر ہاشمی جیسے جونئیر شاعر بھی سن انیس سو ستر کی دہائی سے ابھرنا شروع ہوئے تھے۔ انہی پیرزادہ عاشق کیرانوی صاحب کی پہلے بیت بازی پر کئی کتابیں آچکی ہیں اب انہوں نے تیس ۳۰ ہزار اشعار پر مشتمل ایک غزل کتابی صورت میں پیش کی’’ گھٹا برسے تو صحرا بولتا ہے‘‘ جس کی تقریب رونمائی و پذیرائی کراچی پریس کلب میں ہفتہ ۲۲ دسمبر کی شام صبا اکرام کی صدارت میں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ادب کی بے وقعتی کے دور میں غزل کی روایت کو اتنے خلوص اور اہتمام سے زندہ رکھنا کسی کارنامے سے کم نہیں۔ڈاکٹر یونس حسنی نے کہا کہ ’ عاشق کیرانوی انتہائی قادرالکلام شاعر ہیں ان کا یہ ادبی شاہ کار نہ صرف پاکستان کے لیے با عث ِ اعزاز ہے بل کہ یہ غزل اردو زبان کی دنیا بھر میں ترویج و توسیع میں بھی کلیدی کردار ادا کرے گی‘‘۔ پروفیسر منظر ایوبی نے اپنی حیرانیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ’ مجھے الفاظ نہیں مل رہے کہ اتنی بڑی ادبی تخلیق کی تعریف کیسے کروں یہ صر ایک غزل نہیں بل کہ موجودہ سماجی کی ایک تاریخی دستاویز ہے جس سے موجودہ اور آنے والی نسلیں ضرور رہ نمائی حاصل کریں گی‘۔زیب النسا زیبی نے شاعر موصوف کی اس غزل کی تعریف کرتے ہوئے مبارکباد پیش کی۔ پیرزادہ عاشق کیرانوی نے کہا کہ ایک غزل تیس ۳۰ ہزار اشعار تک پہنچ جانا ایک غیر ارادی عمل ہے۔اتنی بڑی غزل لکھنے کا کبھی سوچا بھی نہ تھا[/b
Syed Anwer Jawaid Hashmi,free lance journalist,poet,writer,critic,translator Karachi