شاعر عطا شاد کی برسی 13 فروری
Posted: Wed Feb 13, 2013 12:59 pm
آج صرف عالمی سطح پر مانے گئے اردو شاعرفیض احمد فیض کی 102 ویں سال گرہ منانے کا دن ہی نہیں بلکہ 13 فروری سن دوہزا13 اُردو و بلوچی کے معروف بہترین شاعر عطا شاد کی برسی 13 فروری 1997ء بھی ہمیں یاد رکھنا چاہئے....افسوس کیسے کیسے گنج ہائے گرانمایہ سے ہمیں محروم کردیا گیا
دھوپ کی تمازت تھی موم کے مکانوں پر
ا و ر تم بھی لے آ ئے سائبان شیشے کا
تیرہ13 فروری کو اس شعر کے خالق شاعر عطا شاد کی برسی ہے
تشنگیء بے کنار
عطا شاد/رزاق نادر
’’ لمس نا آشنا بدن، خمار چشم، دراز زلف
گلاب برف رخسار
شراب شہد لب
درخشندہ پھول مسکراہٹیں
بہشت باد رفتار
یخ گزیدہ شب، گرم بوسوں کی مہک
بہار میں چاندنی کی چمک
’’ اے سر پھرے ا ے د یو ا نے
دیکھ تو شراب ابر گھِر آئے ہیں
جا م میں
جیسے چاندنی ہو بے قرار
خمار چشم، دراز زلف، لمس نا آشنا بدن
شراب بے وفا کے جام ہیں، پیئے تو اور پیوں میں
اپنی شکست کے نام پر، جو ٹوٹ کر ہوں منقسم
’’ہاں... اگر کوئی لمس نا آشنا بدن، دراز عمر کا بہا
کہاں وہ لمس وہ بدن
اے دوستو، ساتھیو!
ہم سب تیر خوردہ ہیں
ہم سب سوختہ جاں اور فراق آشنا
کہاں وہ لمس وہ بدن، کہاں وہ لمس ناآشنا بدن
یہاں ہر ایک بے بہا بدن کا مال ہے بہا
کوئی ایک اور کوئی ہزار گھونٹ کے لیے‘‘
وَ لیکن ...تا بہ کے!
یہ یخ گزیدہ شب
برائے سوختہ دلی...درماندگی
زہر تلخ جام میں یوں جذب ہو، بے شریک درد جان
عطر بدوش صبا تا بہ کہ خونیں صبح نغموں میں
جذب ہو کے نیست ہو ؟‘‘
بلوچی سے ترجمہ.....پیش کش سیدانورجاویدہاشمی
دھوپ کی تمازت تھی موم کے مکانوں پر
ا و ر تم بھی لے آ ئے سائبان شیشے کا
تیرہ13 فروری کو اس شعر کے خالق شاعر عطا شاد کی برسی ہے
تشنگیء بے کنار
عطا شاد/رزاق نادر
’’ لمس نا آشنا بدن، خمار چشم، دراز زلف
گلاب برف رخسار
شراب شہد لب
درخشندہ پھول مسکراہٹیں
بہشت باد رفتار
یخ گزیدہ شب، گرم بوسوں کی مہک
بہار میں چاندنی کی چمک
’’ اے سر پھرے ا ے د یو ا نے
دیکھ تو شراب ابر گھِر آئے ہیں
جا م میں
جیسے چاندنی ہو بے قرار
خمار چشم، دراز زلف، لمس نا آشنا بدن
شراب بے وفا کے جام ہیں، پیئے تو اور پیوں میں
اپنی شکست کے نام پر، جو ٹوٹ کر ہوں منقسم
’’ہاں... اگر کوئی لمس نا آشنا بدن، دراز عمر کا بہا
کہاں وہ لمس وہ بدن
اے دوستو، ساتھیو!
ہم سب تیر خوردہ ہیں
ہم سب سوختہ جاں اور فراق آشنا
کہاں وہ لمس وہ بدن، کہاں وہ لمس ناآشنا بدن
یہاں ہر ایک بے بہا بدن کا مال ہے بہا
کوئی ایک اور کوئی ہزار گھونٹ کے لیے‘‘
وَ لیکن ...تا بہ کے!
یہ یخ گزیدہ شب
برائے سوختہ دلی...درماندگی
زہر تلخ جام میں یوں جذب ہو، بے شریک درد جان
عطر بدوش صبا تا بہ کہ خونیں صبح نغموں میں
جذب ہو کے نیست ہو ؟‘‘
بلوچی سے ترجمہ.....پیش کش سیدانورجاویدہاشمی