برقی اعظمی کی روح سخن افق ادب پر جلوہ فگن
Posted: Wed Jan 15, 2014 3:49 am
روحِ سخن افقِ ادب پر جلوہ فگن
ہمارے ملک ہندوستان میں بہت سے ایے ادیب ہیں جنہوں نے جمہوری قدروں کو نہ صرف اپنی اجتماعی زندگی کی پہچان بنایا بلکہ نجی زندگی میں بھی رواداری اور کشادہ دلی کوعصبی اور تنگ نظری پر فوقت دی ہے ۔ہندوستان جیسے بڑے ملک میں جو بہت سی زبانوں ثقافتوں ،تہذیبوں ،اور مذہبوں کاگہوارہ ہے وہاں کے ادیب مستقبل کو تابناک بنانے اور نئی نسلوں کی فلاح کے لئے اپنے اپنے انداز سے کام کررہے ہیں ۔ دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ بعض ادیبوں ، تخلیق کاروں کے فکری دھارے اسی کوشش کے نتیے میں کئی سمتوں میں بہتے نظر آتے ہیں ۔ ان کاتخلیقی وفورکسی ایک خانہ میں محدود نہ رہ کراظہار کے مختلف وسیے ڈھوندلیتاہے۔ جس کی وجہ سے ان کی تخلیق مختلف العباد صورت میں نمو پذیر ہوتی ہے ،ایے ہی کثی الجہات قلمکاروں میں ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی کاشمار کیاجاتاہے،اور برقی اعظمی کوفی البدیہہ منظوم گو ہونے کے ساتھ صنف غزل کے شعرا میں ایک ممتاز مقام حاصل ہے۔روح ِ سخن آپ کا پہلا شعری مجموعہ ضرور ہے لیکن اس کے حجم کو دیکھتے ہوئے قادرالکلامی کا اندازہ بخوبی لگایجاسکتاہے۔شعرو ادب کی خوشبو سے رچا بسا ماحول ملنا بھی بڑی بات ہے ،مگر اس سے بڑی بات صالح فکری اور تہذیبی واقداری روایت کوعزیز جانتے ہوئے اس کی حفاظت کرنا بہت بڑا کام ہے ۔حمد باری تعالیٰ میں انسان کوجس رتبے سے رب کائنات نے نواز ہے اس کی بات کرتے ہوئے برقی اعظمی لکھتے ہیں کہ
جو میسر نہیں فرشتوں کو
ہم کو وہ شکل ِ آدمی بخشی
مصلحت تیی کیاہے تو جانے
زندگی کیوں یہ عارضی بخشی
اپنے مخصوص انداز کی مناسبت سے معروف ہوئے احمد علی برقی کابہترین شغل ہے زندگی کے جمال کاعکس ہم ان کے کلام میں دیکھ سکتے ہیں ،ساتھ ہی آپ کے مجموعے کلام روحِ سخن کی بیشتر غزلیں ایک ایسا آئینہ ہیں جس میں مجرو ح انسانی ذاتی کرب،ماضی کے دلکش نقوش،اور پیش کئے گئے استعاراتی پیکرمیں عکس ریز قاری کو زندگی کے متنوع تجربات سے روشناس کراتی ہیں ۔
ہوتاہے مجروح تقدس آج عبادت گاہوں کا
زد میں ہے اہلِ سیاست کی اب مسجد بھی بتخانہ بھی
آتے ہیں ہرسو نظرگندم نماکچھ جو فروش
آنکھ پر میری طرح اس کی پردہ ہو نہ ہو
یہ حقیقت پسندانہ لہجہ اس برقی اعظمی کا ہے جسے اردو ادب میں اور اہم مقام حاصل ہے،جس نے اپنی تہنیی شاعری کے ذریے روشن جہتوں کااحساس قاری کو کرایاہے،شاعری سے انہیں چونکہ گہری نسبت ہے اسلئے کسی نہ کسی طرح زلف غزل کی مشاطگی کیئے وقت نکال لیے ہیں ۔عوامی سطح پر یاد رفتگاں کے عنوان سے جو خراج کا سلسلہ احمد علی برقی کے یہاں ملتا ہے وہ ایک لاجواب نمونہ کہاجاسکتاہے۔زود گوئی کی بنیاد پربسا اوقات گمان ہوتا ہے کہ زندگی کے تمام رنگ اور تمام موسم نیزکائنات کاتمام حسن روحِ سخن میں سمودیاگیاہے۔مگر غزل جسے عصری تقاضو ں کے عین مطابق دیکھنے کی ہم تمنا رکھتے ہیں اس کاحق بھی برقی اعظمی نے بخوبی ادا کیاہے۔یہی وجہ ہے کہ آپ کے یہاں روایتی شاعری کے مروجہ موضوعات بہت ہی کم ہیں ۔یہ ایک فطری امر بھی ہے آج کی تی رفتاردنیا میں انسان کو اتنی فرصت کہاں کہ تصور جاناں کئے بیٹھا رہے،یا گل وبلبل اور ہجرو وصال کے قصے دہرائے۔
دلکش ودلفگار ہے دنیا
مظہرِ نور ونار ہے دنیا
ہے فلسطین اس کی ایک مثال
جیسے اک کارزار ہے دنیا
اہلِ غزہ سے پوچھئے جاکر
دامنِ داغدار ہے دنیا
اس پہ صیہونی کی یہ یلغار
دیکھ کر شرمسار ہے دنیا
ہواگر امن وصلح کا ماحول
ایے میں ساز گار ہے دنیا
تنگ ہو عرصئہ حیات اگر
حسرتوں کامزار ہے دنیا
آج کاشاعرعصری شعور رکھتاہے اور آج کے سلگتے مسائل کاسامناکرنے کی جرائت بھی اس کے پاس ہے۔احمد علی برقی اعظمی کی غزلیہ شاعری کاایک جائزہ پیش کرتے ہوئے کیرلٹن ،ٹکساس ،امریکہ میں مقیم سرور عالم راز سرور نے کسی طرح کمی نہیں چھوڑی ہے اور بھر پور انداز میں روح سخن کے کلام پر گفتگو کی ہے۔انیس امروہوی نے فی البدیہہ موضوعاتی شاعری پر ملکہ پانے والا شاعر قرار دیے ہوئے اردو اور فارسی میں یکساں مہارت کے ساتھ غزل کہنے والا شاعر ثابت کیاہے۔مظفر احمد مظفر نے اگلینڈ سے روح سخن کے شاعر کی قادراکلامی کے حوالوں پر لکھاہے کہ یہ غزلیہ شاعری فکر دوراں وغم جاناں کے دلسوز مناظرکی عکس بندی میں سرگرم عمل ہے۔جملہ محاسن ِشعری میں یعنی جدتِ تخیل،جدتِ طرازیِ ادا،ندرتِ افکار،اور دیراوصاف کو قدرتی انداز میں پیش کیاگیاہے۔ڈاکٹر عبد الحئی نے احمد علی برقی اعظمی کی شاعری کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھاہے کہ ادب کی تمام اصناف حمد،نعت،قصیدہ،منقبت،غزل،نظم وغیہ پر دسترس حاصل ہے، آپ نے موضوعاتی شاعری کی تاریخ میں ایک نئے باب کااضافہ کیاہے۔تحسین تبرک کے بطور ڈاکٹر تابش مہدی نے برقی اعظمی کو اردو اورفارسی دونوں زبانوں میں شعر گوئی کی بھر پور قدرت رکھنے والا شاعر قراردیاہے۔ برقی اعظمی کی شاعری میں استعماری کے خلاف جو اشعار دیکھنے کوملتے ہیں وہ ان کے انسانی جذبے کے غماز ہیں ۔امن کے قیام اور امن کے پیامبر کی کارسازیاں برقی کچھ اس طرح سے بیان کرتے ہیں کہ
کابل گیا عراق گیالیبیا گیا
اب آج ان کا دیدنی جوش وخروش ہے
ایک ایک کرکے سب کو بنائیں گے وہ شکار
برقی غزل یہ میری نوائے سروش ہے
ڈاکٹر محمد الیاس اعظمی برقی اعظمی میری نظر میں لکھتے ہوئے اظہار خیال کرتے ہیں کہ دنیا میں شاعری،سخنوری اور سخن آفرینی سے بڑھ کر کوئی اور چیز نہیں اسے ہم احمد علی برقی کی فطری طبع کا نام بھی دے سکتے ہیں ۔عزیز بلگامی نے ایک ہمہ جہت شخص ایک بے مثال فنکارجیس جلی سرخی دے کر جس تفصیل سے ان کے کلام پر بات کی ہے وہ نقل کرنا مقصود نہیں اور انہی سفارشی بیساکھی دے کر مطالعہ کرنے کا مطالبہ کرناہے،وسیع الظرفی کی عظیم نعمتِ خدا وندی سے برقی اعظمی نوازے گئے ہیں ،ان کی رگ ِ سخن وقفے قفے سے نہیں پھڑکتی ،بلکہ وہ مسلسل حالتِ ارتعاش میں رہتی ہے۔کیفی آمد سے مملو اشعار پڑھ کر اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ وہ ایسے شعر رسماََ نہیں کہتے بلکہ ان میں مکمل فنکارانہ خلوص کارفرماہے۔اٹلانٹا ،امریکہ سے سید ضیا خی آبادی نے اپنے تاثرات قلمبند کرتے ہوئے کچھ اشعار نقل کئے ہیں اور رائے بھی قائم کی ہے ،ڈاکٹر برقی اعظمی کی بابت فرماتے ہیں کہ بہترین کلام ،ان کا شعور فکروفن ان کی شخصی وذات وصفات،ان کاعلم ودانش،ان کا اسلوب،ان کی گہری فکرو نظر،ان کی علمی ادبی شخصی،ان کی وسیع القلبی،ان کی بلند نگاہ،انسان دوستی،اردو کی خدمات،ادبی دنیا میں ایک ایسی نمایاں حیثی رکھتی ہیں کہ جس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔مزید کرم فرماوں کے تاثرات اور رائے نقل کرنے سے پہلے تین اشعار قومیت کانوحہ اور ادبی رجحانات کی ترجمانی کافریضہ ادا کرنے کی غرض سے دینا مناسب سمجھتاہوں
جمہوری میں سب کے مساوی حقوق ہیں
میں کیوں ستم زدہ ہوں ،وہ ہیں برگزیدہ کیوں
مفلوج ہوکے رہ گیاتخلیق کاعمل
سرسے خمارِشاعری میے اتر گیا
ہیں جو منظور نظر اربابِ حل وعقد کے
ان کو نخلِ علم ودانش کاثمر کہنے لگے
ڈاکٹر سیدہ عمرانہ نشتر خیر آبادی اٹلانٹا ،امریکہ سے سپہرِ شعر پہ روشن ہے آفتاب سخن کے متعلق لکھتی ہیں کہ دلکش اور خوش آہنگ ردی وقافئے،دمکتی تشبیہات، کہکشاں سی زباندانی سے منور یہ کلام برقی اعظمی کی کاوشوں کا پھل ہے۔اسی سلسلے کو تھوڑا سا اور بڑھاتے ہوئے برقی اعظمی کی اردو شاعری اسرار احمد رازی قاسمی نے شاندار طریے سے ان کے کلام کا احاطہ کیاہے۔اس کے علاوہ ڈاکٹر محمد صدیق نقوی،ڈاکٹرغلام شبیر رانا،انورس خواجہ، حسن امام حسن،ڈاکٹر واحد نظینے اپنے اپنے ڈھنگ سے شاعری کے رنگ وآہنگ پر خیالات کااظہار کیاہے۔میری نظر سے روحِ سخن کو دیکھاجائے تو ہم ان کی غزلوں میں صرف ان جذبات اور محسوسات کو دیکھنے کی کوشش کریں جن کاتعلق عشق ومحبت سے ہے تو ہمیں یہاں بھی احمد علی برقی کارویہ خاصا بدلا ہو ا نظر آئے گا۔
حاصل زندگی تھا یہ میرے لئے
شمعِ دل کو جلانا بجھا نے کے بعد
حایل ہے اگر بیچ میں یہ امن وسکوں کے
تم ظلم کی دیوار کو ڈھاکیوں نہیں دیے
زندگی میں عشق کی مرکزی اور اولی سے انکار کی روای تو ہمیں غالب کے یہاں سے ملتی ہے،اور یگانہ فراق نے بھی اس تصور پر خاصی ضرب کاری لگائی ہے۔لیکن غزل میں یہ تصور اور بھی سیال ہوگیاہے،اور زندگی کے لاتعداد مسائل میں یہ نقطہ کبھی تو نظر آتاہے اور کبھی خود شاعر کو اس کے موہوم ہونے کااحساس ہونے لگتاہے۔
توبجھاناچاہتاہے میری قسمت کے چراغ
بجھ نہ جائیں دیکھ تیی شان وشوکت کے چراغ
آنے والا ہے ابابیلوں کالشکرہوشیار
دیر پا ہوتے نہیں ہیں جاہ وحشمت کے چراغ
ہونہ جائے ان سے گل تیی بھی شمع زندگی
ہرطرف تونے جلائے ہیں جو نفرت کے چراغ
آجا راہِ راست پر اب بھی ہے میرا مشورہ
گل نہیں ہوتے کبھی رشدو ہدای کے چراغ
کیوں بجھاتا ہے مری شمعِ شبستانِ حیات
کرنا ہے روشن تو روشن کر سعادت کے چراغ
نامساعددور میں ہے اس کی لَو مدھم ضرور
بجھ نہ پائیں گے کبھی شمعِ رسالت کے چراغ
ٰیہ اشعارروح ِ سخن سے اخذ کرنے کامقصد غزل کے معنی ومفہوم اور غزل کی وسعت خیالی کا قائل کرنا ہے۔ غزل کے ان اشعار سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ کس طرح کی شاعری برقی اعظمی نے کی ہے۔میرے خیال سے اوپر جو اشعار دئے گئے ہیں وہ نہ تواس عاشق کے ہیں جو محض عشق ہی کو اپنا مقصدومدعا جانتاہے اور نہ سیاسی انسان کے جس نے عشق کے جذبے کوحقیر اور غی مفید سماجی سمجھ کر ترک ِ عشق کا منصوبہ بنایاہے،اور نہ اس شاعر کا رویہ ہے جو انقلاب برپا کرنے کیئے گھر سے نکلا ہے اور ناہی غم جاناں کو اپنے پاوں کی زنجیر سمجھ کر اسے جھٹک دیے کی فکر ہے،بلکہ غزل کے ان شعروں میں انسانی فطرت کے ازلی لگاواور زندگی جینے کے تضادات میں فرد کی فرد سے دوری اور علیحدگی کاحیت انگی احساس ہے۔
رزمگاہِزیست میں ہرگام پر خود سر ملے
راہزن تھے قافلے میں مجھ کو جو رہبر ملے
عمر بھر جن کو سمجھتا تھامیں اپنا خیر خواہ
آستیوں میں انہیں کی ایک دن خنجر ملے
سر خرو تھے وہ نہ تھاجن کو شعور، فکروفن
گوشئہ عزلت میں لیکن مجھ کو دیدہ ور ملے
اپنی تمام تر وسعتوں کے ساتھ آج کے شاعرکے ہاتھ میں ایک الجھے ہوئے دھاگے کی طرح ہے جسے وہ سلجھاناچاہتاہے،وہ ذات اور کائنات کے پیچیدہ رشتے کوسمجھ کراس کے حدود کاتعین کرنا چاہتاہے،اس لئے آج کی شاعری میں جو غزل لکھنے والوں نے عنصر تلاشے ہیں ان سے ماحول فطرت اور اس کے مظاہر علامت بن کر سامنے آتے ہیں ۔
منظر ہے آج شام وسحرکالہو لہو
قلبِ حزیں ہے نوعِ بشر کالہولہو
کابل ہو، کربلاہو، فلسطین یا عراق
حاصل ہے آج فتنہ وشرکالہولہو
لعنت ہیں شر پسند یہ کرئہ زمیں پر
ہے جن سے اشک دیدئہ ترکالہولہو
ہم ہیں شکار ِ گردشِ آلام روزگار
ہرگوشہ ہے ادھرکا،ادھرکالہولہو
ریشہ دوانیاں یہ سبھی اہل زر کی ہیں
ہے رنگ آج اس لئے زر کالہولہو
یہ اشعارذہنی کیفیت اور طرز احساس کی پیداوار ہیں ،غزل جس نے ایک نئی فضا قائم کی ہے اور پڑھنے والوں کو بھی لکھنے والوں کے ساتھ ایک نیا ذا ئقہ دیا ہے، علامتوں کی تکرارکے بجائے تازہ تر علامتیں اور استعارے اور الفاظ کے نئے تلازمے ملتے ہیں ۔
روحِ سخن کی غزلوں کے کچھ متفرق اشعار سے برقی اعظمی کی برق رفتار شاعری اور اس تخلیقی بر قی قوت کانمونہ بھی پیش کرتا ہوں
اک دلفریب خواب میں رکھا گیا مجھے
پھر مستقل عذاب میں رکھا گیا مجھے
جو اہل فضل و ہنر تھے وہ تھے پسِ پردہ
زمانہ ساز تھاجس کو بھی دیہ ور جانا
دی ہے ہم کو خدا نے عقلِ سلیم
نہ کماتے اگر تو کھاتے کیا
ترک تعلقات کی دھمکی نہ دے مجھے
سوہان روح ہیں یہ ستم بار بار کے
آپ کہئے سن کے میں دوں گا جواب
بول سکتاہوں نہیں ہو ں بے زباں
منتشر ہوگئے اوراقِ کتاب ِ ہستی
ساتھ دیے نہیں حالات کہاں سے لاوں
روحِ سخن کی غزلیہ شاعری ایے کلام سے بھری ہے ،جس کے شعرنہ وفاداری سے تعلق رکھتے ہیں اور نہ بے وفائی سے پھربھی حقیقی معلوم ہوتے ہیں ،اور ان میں محبت کی کسک معلوم ہوتی ہے۔آپ کے کلام میں علامتیں ہمیں ہرجگہ زندہ اور محسوس شکل میں دکھائی دیتی ہیں ، سوزودروں ،سوہان ِ روح،نخل ثمر،کتاب ہستی، گداز دل،لعل وگہر، مشاط عروس،حدیث دلبری،فکرو فن، علم ودانش،بازگشت،طبع نازک،فصل خزاں ،جانگداز،سرچشمہ،قلب حزیں ، تخیل،گلوبل وارمنگ،انٹر نیٹ،جدید تعلیم،متاع شوق،نسیم بہار،ذوقِ جمال،گل فشانی،تار، نفس،اور اس طرح کے بہت سے الفاظ غزل میں ایک نئی معنوی کے ساتھ استعمال کئے گئے ہیں ، اور قوت اظہار کابخوبی اندازہ ہوتا ہے جس سے روحِ سخن میں تازگی محسوس ہوتی ہے،اور اسی خوبی کی بنیاد پرروحِ سخن افقِ ادب پر جلوہ فگن ہے ۔
حبیب سیفی نئی دہلی
ہمارے ملک ہندوستان میں بہت سے ایے ادیب ہیں جنہوں نے جمہوری قدروں کو نہ صرف اپنی اجتماعی زندگی کی پہچان بنایا بلکہ نجی زندگی میں بھی رواداری اور کشادہ دلی کوعصبی اور تنگ نظری پر فوقت دی ہے ۔ہندوستان جیسے بڑے ملک میں جو بہت سی زبانوں ثقافتوں ،تہذیبوں ،اور مذہبوں کاگہوارہ ہے وہاں کے ادیب مستقبل کو تابناک بنانے اور نئی نسلوں کی فلاح کے لئے اپنے اپنے انداز سے کام کررہے ہیں ۔ دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ بعض ادیبوں ، تخلیق کاروں کے فکری دھارے اسی کوشش کے نتیے میں کئی سمتوں میں بہتے نظر آتے ہیں ۔ ان کاتخلیقی وفورکسی ایک خانہ میں محدود نہ رہ کراظہار کے مختلف وسیے ڈھوندلیتاہے۔ جس کی وجہ سے ان کی تخلیق مختلف العباد صورت میں نمو پذیر ہوتی ہے ،ایے ہی کثی الجہات قلمکاروں میں ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی کاشمار کیاجاتاہے،اور برقی اعظمی کوفی البدیہہ منظوم گو ہونے کے ساتھ صنف غزل کے شعرا میں ایک ممتاز مقام حاصل ہے۔روح ِ سخن آپ کا پہلا شعری مجموعہ ضرور ہے لیکن اس کے حجم کو دیکھتے ہوئے قادرالکلامی کا اندازہ بخوبی لگایجاسکتاہے۔شعرو ادب کی خوشبو سے رچا بسا ماحول ملنا بھی بڑی بات ہے ،مگر اس سے بڑی بات صالح فکری اور تہذیبی واقداری روایت کوعزیز جانتے ہوئے اس کی حفاظت کرنا بہت بڑا کام ہے ۔حمد باری تعالیٰ میں انسان کوجس رتبے سے رب کائنات نے نواز ہے اس کی بات کرتے ہوئے برقی اعظمی لکھتے ہیں کہ
جو میسر نہیں فرشتوں کو
ہم کو وہ شکل ِ آدمی بخشی
مصلحت تیی کیاہے تو جانے
زندگی کیوں یہ عارضی بخشی
اپنے مخصوص انداز کی مناسبت سے معروف ہوئے احمد علی برقی کابہترین شغل ہے زندگی کے جمال کاعکس ہم ان کے کلام میں دیکھ سکتے ہیں ،ساتھ ہی آپ کے مجموعے کلام روحِ سخن کی بیشتر غزلیں ایک ایسا آئینہ ہیں جس میں مجرو ح انسانی ذاتی کرب،ماضی کے دلکش نقوش،اور پیش کئے گئے استعاراتی پیکرمیں عکس ریز قاری کو زندگی کے متنوع تجربات سے روشناس کراتی ہیں ۔
ہوتاہے مجروح تقدس آج عبادت گاہوں کا
زد میں ہے اہلِ سیاست کی اب مسجد بھی بتخانہ بھی
آتے ہیں ہرسو نظرگندم نماکچھ جو فروش
آنکھ پر میری طرح اس کی پردہ ہو نہ ہو
یہ حقیقت پسندانہ لہجہ اس برقی اعظمی کا ہے جسے اردو ادب میں اور اہم مقام حاصل ہے،جس نے اپنی تہنیی شاعری کے ذریے روشن جہتوں کااحساس قاری کو کرایاہے،شاعری سے انہیں چونکہ گہری نسبت ہے اسلئے کسی نہ کسی طرح زلف غزل کی مشاطگی کیئے وقت نکال لیے ہیں ۔عوامی سطح پر یاد رفتگاں کے عنوان سے جو خراج کا سلسلہ احمد علی برقی کے یہاں ملتا ہے وہ ایک لاجواب نمونہ کہاجاسکتاہے۔زود گوئی کی بنیاد پربسا اوقات گمان ہوتا ہے کہ زندگی کے تمام رنگ اور تمام موسم نیزکائنات کاتمام حسن روحِ سخن میں سمودیاگیاہے۔مگر غزل جسے عصری تقاضو ں کے عین مطابق دیکھنے کی ہم تمنا رکھتے ہیں اس کاحق بھی برقی اعظمی نے بخوبی ادا کیاہے۔یہی وجہ ہے کہ آپ کے یہاں روایتی شاعری کے مروجہ موضوعات بہت ہی کم ہیں ۔یہ ایک فطری امر بھی ہے آج کی تی رفتاردنیا میں انسان کو اتنی فرصت کہاں کہ تصور جاناں کئے بیٹھا رہے،یا گل وبلبل اور ہجرو وصال کے قصے دہرائے۔
دلکش ودلفگار ہے دنیا
مظہرِ نور ونار ہے دنیا
ہے فلسطین اس کی ایک مثال
جیسے اک کارزار ہے دنیا
اہلِ غزہ سے پوچھئے جاکر
دامنِ داغدار ہے دنیا
اس پہ صیہونی کی یہ یلغار
دیکھ کر شرمسار ہے دنیا
ہواگر امن وصلح کا ماحول
ایے میں ساز گار ہے دنیا
تنگ ہو عرصئہ حیات اگر
حسرتوں کامزار ہے دنیا
آج کاشاعرعصری شعور رکھتاہے اور آج کے سلگتے مسائل کاسامناکرنے کی جرائت بھی اس کے پاس ہے۔احمد علی برقی اعظمی کی غزلیہ شاعری کاایک جائزہ پیش کرتے ہوئے کیرلٹن ،ٹکساس ،امریکہ میں مقیم سرور عالم راز سرور نے کسی طرح کمی نہیں چھوڑی ہے اور بھر پور انداز میں روح سخن کے کلام پر گفتگو کی ہے۔انیس امروہوی نے فی البدیہہ موضوعاتی شاعری پر ملکہ پانے والا شاعر قرار دیے ہوئے اردو اور فارسی میں یکساں مہارت کے ساتھ غزل کہنے والا شاعر ثابت کیاہے۔مظفر احمد مظفر نے اگلینڈ سے روح سخن کے شاعر کی قادراکلامی کے حوالوں پر لکھاہے کہ یہ غزلیہ شاعری فکر دوراں وغم جاناں کے دلسوز مناظرکی عکس بندی میں سرگرم عمل ہے۔جملہ محاسن ِشعری میں یعنی جدتِ تخیل،جدتِ طرازیِ ادا،ندرتِ افکار،اور دیراوصاف کو قدرتی انداز میں پیش کیاگیاہے۔ڈاکٹر عبد الحئی نے احمد علی برقی اعظمی کی شاعری کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھاہے کہ ادب کی تمام اصناف حمد،نعت،قصیدہ،منقبت،غزل،نظم وغیہ پر دسترس حاصل ہے، آپ نے موضوعاتی شاعری کی تاریخ میں ایک نئے باب کااضافہ کیاہے۔تحسین تبرک کے بطور ڈاکٹر تابش مہدی نے برقی اعظمی کو اردو اورفارسی دونوں زبانوں میں شعر گوئی کی بھر پور قدرت رکھنے والا شاعر قراردیاہے۔ برقی اعظمی کی شاعری میں استعماری کے خلاف جو اشعار دیکھنے کوملتے ہیں وہ ان کے انسانی جذبے کے غماز ہیں ۔امن کے قیام اور امن کے پیامبر کی کارسازیاں برقی کچھ اس طرح سے بیان کرتے ہیں کہ
کابل گیا عراق گیالیبیا گیا
اب آج ان کا دیدنی جوش وخروش ہے
ایک ایک کرکے سب کو بنائیں گے وہ شکار
برقی غزل یہ میری نوائے سروش ہے
ڈاکٹر محمد الیاس اعظمی برقی اعظمی میری نظر میں لکھتے ہوئے اظہار خیال کرتے ہیں کہ دنیا میں شاعری،سخنوری اور سخن آفرینی سے بڑھ کر کوئی اور چیز نہیں اسے ہم احمد علی برقی کی فطری طبع کا نام بھی دے سکتے ہیں ۔عزیز بلگامی نے ایک ہمہ جہت شخص ایک بے مثال فنکارجیس جلی سرخی دے کر جس تفصیل سے ان کے کلام پر بات کی ہے وہ نقل کرنا مقصود نہیں اور انہی سفارشی بیساکھی دے کر مطالعہ کرنے کا مطالبہ کرناہے،وسیع الظرفی کی عظیم نعمتِ خدا وندی سے برقی اعظمی نوازے گئے ہیں ،ان کی رگ ِ سخن وقفے قفے سے نہیں پھڑکتی ،بلکہ وہ مسلسل حالتِ ارتعاش میں رہتی ہے۔کیفی آمد سے مملو اشعار پڑھ کر اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ وہ ایسے شعر رسماََ نہیں کہتے بلکہ ان میں مکمل فنکارانہ خلوص کارفرماہے۔اٹلانٹا ،امریکہ سے سید ضیا خی آبادی نے اپنے تاثرات قلمبند کرتے ہوئے کچھ اشعار نقل کئے ہیں اور رائے بھی قائم کی ہے ،ڈاکٹر برقی اعظمی کی بابت فرماتے ہیں کہ بہترین کلام ،ان کا شعور فکروفن ان کی شخصی وذات وصفات،ان کاعلم ودانش،ان کا اسلوب،ان کی گہری فکرو نظر،ان کی علمی ادبی شخصی،ان کی وسیع القلبی،ان کی بلند نگاہ،انسان دوستی،اردو کی خدمات،ادبی دنیا میں ایک ایسی نمایاں حیثی رکھتی ہیں کہ جس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔مزید کرم فرماوں کے تاثرات اور رائے نقل کرنے سے پہلے تین اشعار قومیت کانوحہ اور ادبی رجحانات کی ترجمانی کافریضہ ادا کرنے کی غرض سے دینا مناسب سمجھتاہوں
جمہوری میں سب کے مساوی حقوق ہیں
میں کیوں ستم زدہ ہوں ،وہ ہیں برگزیدہ کیوں
مفلوج ہوکے رہ گیاتخلیق کاعمل
سرسے خمارِشاعری میے اتر گیا
ہیں جو منظور نظر اربابِ حل وعقد کے
ان کو نخلِ علم ودانش کاثمر کہنے لگے
ڈاکٹر سیدہ عمرانہ نشتر خیر آبادی اٹلانٹا ،امریکہ سے سپہرِ شعر پہ روشن ہے آفتاب سخن کے متعلق لکھتی ہیں کہ دلکش اور خوش آہنگ ردی وقافئے،دمکتی تشبیہات، کہکشاں سی زباندانی سے منور یہ کلام برقی اعظمی کی کاوشوں کا پھل ہے۔اسی سلسلے کو تھوڑا سا اور بڑھاتے ہوئے برقی اعظمی کی اردو شاعری اسرار احمد رازی قاسمی نے شاندار طریے سے ان کے کلام کا احاطہ کیاہے۔اس کے علاوہ ڈاکٹر محمد صدیق نقوی،ڈاکٹرغلام شبیر رانا،انورس خواجہ، حسن امام حسن،ڈاکٹر واحد نظینے اپنے اپنے ڈھنگ سے شاعری کے رنگ وآہنگ پر خیالات کااظہار کیاہے۔میری نظر سے روحِ سخن کو دیکھاجائے تو ہم ان کی غزلوں میں صرف ان جذبات اور محسوسات کو دیکھنے کی کوشش کریں جن کاتعلق عشق ومحبت سے ہے تو ہمیں یہاں بھی احمد علی برقی کارویہ خاصا بدلا ہو ا نظر آئے گا۔
حاصل زندگی تھا یہ میرے لئے
شمعِ دل کو جلانا بجھا نے کے بعد
حایل ہے اگر بیچ میں یہ امن وسکوں کے
تم ظلم کی دیوار کو ڈھاکیوں نہیں دیے
زندگی میں عشق کی مرکزی اور اولی سے انکار کی روای تو ہمیں غالب کے یہاں سے ملتی ہے،اور یگانہ فراق نے بھی اس تصور پر خاصی ضرب کاری لگائی ہے۔لیکن غزل میں یہ تصور اور بھی سیال ہوگیاہے،اور زندگی کے لاتعداد مسائل میں یہ نقطہ کبھی تو نظر آتاہے اور کبھی خود شاعر کو اس کے موہوم ہونے کااحساس ہونے لگتاہے۔
توبجھاناچاہتاہے میری قسمت کے چراغ
بجھ نہ جائیں دیکھ تیی شان وشوکت کے چراغ
آنے والا ہے ابابیلوں کالشکرہوشیار
دیر پا ہوتے نہیں ہیں جاہ وحشمت کے چراغ
ہونہ جائے ان سے گل تیی بھی شمع زندگی
ہرطرف تونے جلائے ہیں جو نفرت کے چراغ
آجا راہِ راست پر اب بھی ہے میرا مشورہ
گل نہیں ہوتے کبھی رشدو ہدای کے چراغ
کیوں بجھاتا ہے مری شمعِ شبستانِ حیات
کرنا ہے روشن تو روشن کر سعادت کے چراغ
نامساعددور میں ہے اس کی لَو مدھم ضرور
بجھ نہ پائیں گے کبھی شمعِ رسالت کے چراغ
ٰیہ اشعارروح ِ سخن سے اخذ کرنے کامقصد غزل کے معنی ومفہوم اور غزل کی وسعت خیالی کا قائل کرنا ہے۔ غزل کے ان اشعار سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ کس طرح کی شاعری برقی اعظمی نے کی ہے۔میرے خیال سے اوپر جو اشعار دئے گئے ہیں وہ نہ تواس عاشق کے ہیں جو محض عشق ہی کو اپنا مقصدومدعا جانتاہے اور نہ سیاسی انسان کے جس نے عشق کے جذبے کوحقیر اور غی مفید سماجی سمجھ کر ترک ِ عشق کا منصوبہ بنایاہے،اور نہ اس شاعر کا رویہ ہے جو انقلاب برپا کرنے کیئے گھر سے نکلا ہے اور ناہی غم جاناں کو اپنے پاوں کی زنجیر سمجھ کر اسے جھٹک دیے کی فکر ہے،بلکہ غزل کے ان شعروں میں انسانی فطرت کے ازلی لگاواور زندگی جینے کے تضادات میں فرد کی فرد سے دوری اور علیحدگی کاحیت انگی احساس ہے۔
رزمگاہِزیست میں ہرگام پر خود سر ملے
راہزن تھے قافلے میں مجھ کو جو رہبر ملے
عمر بھر جن کو سمجھتا تھامیں اپنا خیر خواہ
آستیوں میں انہیں کی ایک دن خنجر ملے
سر خرو تھے وہ نہ تھاجن کو شعور، فکروفن
گوشئہ عزلت میں لیکن مجھ کو دیدہ ور ملے
اپنی تمام تر وسعتوں کے ساتھ آج کے شاعرکے ہاتھ میں ایک الجھے ہوئے دھاگے کی طرح ہے جسے وہ سلجھاناچاہتاہے،وہ ذات اور کائنات کے پیچیدہ رشتے کوسمجھ کراس کے حدود کاتعین کرنا چاہتاہے،اس لئے آج کی شاعری میں جو غزل لکھنے والوں نے عنصر تلاشے ہیں ان سے ماحول فطرت اور اس کے مظاہر علامت بن کر سامنے آتے ہیں ۔
منظر ہے آج شام وسحرکالہو لہو
قلبِ حزیں ہے نوعِ بشر کالہولہو
کابل ہو، کربلاہو، فلسطین یا عراق
حاصل ہے آج فتنہ وشرکالہولہو
لعنت ہیں شر پسند یہ کرئہ زمیں پر
ہے جن سے اشک دیدئہ ترکالہولہو
ہم ہیں شکار ِ گردشِ آلام روزگار
ہرگوشہ ہے ادھرکا،ادھرکالہولہو
ریشہ دوانیاں یہ سبھی اہل زر کی ہیں
ہے رنگ آج اس لئے زر کالہولہو
یہ اشعارذہنی کیفیت اور طرز احساس کی پیداوار ہیں ،غزل جس نے ایک نئی فضا قائم کی ہے اور پڑھنے والوں کو بھی لکھنے والوں کے ساتھ ایک نیا ذا ئقہ دیا ہے، علامتوں کی تکرارکے بجائے تازہ تر علامتیں اور استعارے اور الفاظ کے نئے تلازمے ملتے ہیں ۔
روحِ سخن کی غزلوں کے کچھ متفرق اشعار سے برقی اعظمی کی برق رفتار شاعری اور اس تخلیقی بر قی قوت کانمونہ بھی پیش کرتا ہوں
اک دلفریب خواب میں رکھا گیا مجھے
پھر مستقل عذاب میں رکھا گیا مجھے
جو اہل فضل و ہنر تھے وہ تھے پسِ پردہ
زمانہ ساز تھاجس کو بھی دیہ ور جانا
دی ہے ہم کو خدا نے عقلِ سلیم
نہ کماتے اگر تو کھاتے کیا
ترک تعلقات کی دھمکی نہ دے مجھے
سوہان روح ہیں یہ ستم بار بار کے
آپ کہئے سن کے میں دوں گا جواب
بول سکتاہوں نہیں ہو ں بے زباں
منتشر ہوگئے اوراقِ کتاب ِ ہستی
ساتھ دیے نہیں حالات کہاں سے لاوں
روحِ سخن کی غزلیہ شاعری ایے کلام سے بھری ہے ،جس کے شعرنہ وفاداری سے تعلق رکھتے ہیں اور نہ بے وفائی سے پھربھی حقیقی معلوم ہوتے ہیں ،اور ان میں محبت کی کسک معلوم ہوتی ہے۔آپ کے کلام میں علامتیں ہمیں ہرجگہ زندہ اور محسوس شکل میں دکھائی دیتی ہیں ، سوزودروں ،سوہان ِ روح،نخل ثمر،کتاب ہستی، گداز دل،لعل وگہر، مشاط عروس،حدیث دلبری،فکرو فن، علم ودانش،بازگشت،طبع نازک،فصل خزاں ،جانگداز،سرچشمہ،قلب حزیں ، تخیل،گلوبل وارمنگ،انٹر نیٹ،جدید تعلیم،متاع شوق،نسیم بہار،ذوقِ جمال،گل فشانی،تار، نفس،اور اس طرح کے بہت سے الفاظ غزل میں ایک نئی معنوی کے ساتھ استعمال کئے گئے ہیں ، اور قوت اظہار کابخوبی اندازہ ہوتا ہے جس سے روحِ سخن میں تازگی محسوس ہوتی ہے،اور اسی خوبی کی بنیاد پرروحِ سخن افقِ ادب پر جلوہ فگن ہے ۔
حبیب سیفی نئی دہلی