Page 1 of 1

دل سے کوئی بھی عہد نبھایا نہیں گیا

Posted: Thu May 07, 2015 11:20 am
by nizamuddin
دل سے کوئی بھی عہد نبھایا نہیں گیا
سر سے جمالِ یار کا سایہ نہیں گیا
کب ہے وصالِ یار کی محرومیوں کا غم
یہ خواب تھا سو ہم کو دکھایا نہیں گیا
میں جانتا تھا آگ لگے گی ہر ایک سمت
مجھ سے مگر چراغ بجھایا نہیں گیا
وہ شوخ آئینے کے برابر کھڑا رہا
مجھ سے بھی آئینے کو ہٹایا نہیں گیا
ہاں ہاں نہیں ہے کچھ بھی مرے اختیار میں
ہاں ہاں وہ شخص مجھ سے بھلایا نہیں گیا
اڑتا رہا میں دیر تلک پنچھیوں کے ساتھ
اے سعد مجھ سے جال بچھایا نہیں گیا
(سعد اللہ شاہ)

Image