نازِ سخن۔۔۔شہنشاہِ سخن۔۔۔ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی
Posted: Thu Jun 04, 2015 2:51 am
نازِ سخن۔۔۔شہنشاہِ سخن۔۔۔ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی
ٓایم زیڈ کنول
ڈاکٹر احمد علی برقیؔ کا تعلق اس شہر سے ہے جسے عالم میں انتخاب کہا جاتا ہے۔جو ہر دور میں مختلف اقوام و ملل، تہذیبی شعور،تمدن اور ادبی و لسانی تنوع کا محور رہی ہے۔اس کا بار بارسہاگ اُجڑا۔ اس کے باوجود اس کا آنگن زبان و ادب کی آبیاری کے لئے ایسے ادباء کو پروان چڑھاتا رہاجنہوں نے ادبی و تخلیقی منظر نامے پر اپنی الگ شناخت قائم کی۔مشہور ناقد حقانی القاسمی کہتے ہیں۔
،،دِلّی نے صرف تہذیب کو نہیں زبان کو بھی سنبھالا دیا۔نیا لسانی نظام وضع کیا۔نئے محاورات وجود میں آئے۔اور ایک شعری دبستان کی حیثیت سے دلی کی شناخت ہوئی۔احمد علی برقی ؔ اعظمی بھی اسی شناخت کا علمبردار ہے۔ رحمت الٰہی برق ؔ اعظمی کا قابلِ فخر سپوت، دبستانِِ داغ ؔ دہلوی اور دبستانِ نا سخ کا پیرو کا ر آج بھی انہی روایتوں کا امین ہے،اور اپنی تخلیقی جودت کے سہارے اس شعری روایت کو پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔وہ خود کہتے ہیں۔
موضوعِ سُخن ہے میرارودادِ زمانہ
ہیں وقت کی آواز پہ افکارِ پریشاں
ہے رودادِ دل یہ غزل کے بہانے
کوئی اس حقیقت کو مانے نہ مانے
ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی نئی نسل کے نمائندہ شعرا ء میں صفِ اول میں شامل ہیں۔ شاعری آپ کی روح میں اتری ہوئی ہے بلکہ یوں کہیے کہ ودیعت ہوئی ہے۔ موضوعاتی شاعری اور فی البدیہہ شاعری میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ قدرت نے انہیں قادر الکلامی کے ساتھ ساتھ زود گوئی کا ہنر بھی عطا کر رکھا ہے ۔ وہ اردو و فارسی زبان میں یکساں مہارت سے شعر کہتے ہیں۔اور آج سے نہیں ۳۵ برسوں سے فنِ شاعری کو نیا رنگ و آہنگ دے کر گیسوئے اردو کو سنوا ر رہے ہیں۔ اس کے باوجود انہیں وہ پذیرائی نصیب نہیں ہو سکی جو ان کا حق ہے۔
ہوتا زمانہ ساز تو سب جانتے مجھے
کیا خوئے بے نیازی ہے دیوانہ پن مِرا
فصیلِ شہر سے باہرنہیں کسی کو خبر
بہت سے اہلِ ہنر یوں ہی مر گئے چُپ چاپ
آج اپنے وطن میں ہوں گمنام
ہو گا کل میرا نام ایک طرف
غزل اردوشاعری میں ہمیشہ محبوبیت کے مقام پر فائز رہی ہے۔ اساتذۂ سخن نے اسی طرزِ سخن کو اپنایا۔اسے نئے موضوعات اور رجحانات سے مزین کیا پھر بھی مرزا نوشہ کو کہنا پڑا۔
کچھ اور چاہئے وسعت مرے بیاں کے لء�آغزل کا دامن نئے تقاضوں اور خیال آرائیوں کے لئے ہمیشہ وا رہا ہے ۔ متنوع خیالات، نئی تشبیہات، استعارات اور حُسنِ معنی نے اس کے روپ کو ہمیشہ نکھارا اور سنوارا ہے۔ یہی وہ طرزِ سخن ہے جسے میر، غالب ، ذوق ، اقبال ، فیض، ساحر اور ناصر جیسے اساتذہ اپنے خونِ جگر سے پروان چڑھاتے رہے۔
برقیؔ بھی پکار اٹھتے ہیں۔
احساس کا وسیلۂ اِظہار ہے غزل
روحِ سخن ڈاکٹر برقیؔ اعظمی کا پہلا شعری مجموعہ ہے جو برسوں کی عرق ریزی کا ثمر ہے۔برقیؔ صاحب کی بھی غزل ہی محبوب صنف ہے۔جس میں اقصائے جہاں میں انہیں معتبر مقام حا صل ہے۔برقیؔ کی برق گوئی محاورے کی حد تک مسلم ہے۔ وہ اپنا تعارف ہو یا اپنے والد کا نظم کی صورت میں ہی کراتے ہیں۔
میرے والد کا نہیں کوئی جواب
جو تھے اقصائے جہاں میں انتخاب
ان کا مجموعہ ہے تنویرِ سُخن
جِس میں حُسنِ فکر و فن ہے لاجواب
۴۶۴ صفحات کے اس مجموعے میں گویا ایک دبستان آباد ہے۔وہ رحمت الٰہی برقؔ اعظمی کے فرزند ہی نہیں ، صرف ہندوستان کے افق کے ستارے ہی نہیں بلکہ فروغِ اردو کا استعارہ ہیں ۔ادب کا آشیانہ ہیں اور شاعری کا
شاخسانہ ہے ، انھوں نے خونِ جگر سے سینچ کر اسے پروان چڑھایا ہے۔ وہ خود کہتے ہیں۔
مِرا خونِ جگر ہے اس میں شامل
نظر آتی ہے جو سُر خی حِنا کی
میرا سرمایۂ حیات ہے جو
وہ ہے میرے ضمیر کی آواز
برقیؔ کی شاعری شاعری کیا ہے ، ایک آبجو ہے جو بہتی چلی جاتی ہے،ان کی روانی و سلاست کے راستے میں کوئی موڑ نہیں آتا ہاں پاتال کی گہرائی ضرور ہے ۔وہ آج کے الیکٹرونک میڈیا کے دور میں بلا شرکت غیرے افقِ شاعری پر حکمرانی کر رہے ہیں ۔ کوئی بزم ان کے وجود سے خالی نہیں۔ کوئی ویب سائٹ یا بلاگ نہیں جہاں برقی نوازی نہ ہو۔الفاظ ان کے سامنے گویاہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں۔ انھوں نے تشبیہ و استعارے کے ساتھ ساتھ محاورات کو بھی اشعار میں برتا ہے۔
برقیؔ کی اُس کے سامنے کوئی گلی نہ دا ل
جو گُل اُسے کھِلانے تھے اُس نے کھِلا دیئے
وہ اپنے ساتھ لے گئے میرا سکونِ قلب
اِک سبز باغ مُجھ کو دِکھا کر چلے گئے
میری آنکھیں کھُلی کی کھُلی رہ گئیں
وہ نظر آیا جب اِک زمانے کے بعد
برقیؔ کی شاعری اپنے دور کی پوری تاریخ پیش کرتی ہے۔ فسادات کی آگ نے کِس طرح دلوں کو پارہ پارہ کر کے یاس کے صحرا میں آبلہ پا کر دیا اُس کی تصویر کشی کی جھلکیاں جا بجا دکھائی دیتی ہیں۔
خانۂ دل میں سجائی تھی جو سوغاتِ سُخن
ہو گئی نذرِ فسادات کہاں سے لاؤں
بحرِ امواجِ حوادث میں سفینہ ہے مِرا
جس طرف بھی دیکھتا ہوں سامنے ہے موجِ خوں
ڈاکٹر احمد علی برقیؔ بہت زود گو ہیں ۔ شاعری یوں لگتا ہے گویا ان کی گھُٹی میں پڑی ہے۔ چھوٹے سے چھوٹا واقعہ،چھوٹی سی چھوٹی بات ان کی فکر کو مہمیز کرنے کے لئے کافی ہے۔ ظلم ہو یا امن ، محبت ہو یا نفرت،سیاست ہو یا معیشت،غربت و افلاس ہو یا سازگار حالات، برقی کا قلم ،گویا قلم نہیں بلکہ کینوس ہے جو فوری تصویر کشی کے لئے تیار ہے۔ملاحظہ فرمائیے گلوبل وارمنگ ہو یا امتدادِ زمانہ،
اوج پر ہے اب گلوبل وارمنگ
رونقِ بزمِ جہاں کل ہو نہ ہو
قصرِ دل نذرِ فسادات ہوا ہے جب سے
مجھ کو گزرے ہوئے حالات نے سونے نہ دیا
صُبحِ اُمید کب آئے گی نہیں کچھ معلوم
رات بھر مجھ کو اسی بات نے سونے نہ دیا۔آآج کا انسان کس طرح انسانیت کھو چکا ہے۔
مِلتے ہیں میر جعفر و صادق نئے نئے
ہے بھیڑیئے کے جسم پر انساں کی آج کھال
انقلابِ زمانہ نے کس طرح آئینہ خانۂ دل کو دھندلا دیا۔جو بادشاہ تھے وہ آج فقیر ہو گئے۔ کبھی جو ان کے دربار میں ان کی دربانی پر معمور تھے آج سلطان ہو گئے۔
یہ کیسا انقلاب آیا جہاں میں
بہر سُو فتنہ سامانی کے دن ہیں
ہوا کرتے تھے جو دربان اپنے
اب اُن کی آج سلطانی کے دن ہیں
آج ہر طرف محرومی و یاس کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ظلم و نا انصافی نے نگارِ آئینہ کو دھندلا دیا ہے۔ایسے میں شاعر کا حساس دل پکار اُٹھتا ہے۔
نہیں آیا غزل گوئی کا موسم
ابھی تو مرثیہ خوانی کے دن ہیں
مت کرو سرکشی بس بہت ہو گئی
چھوڑ دو دشمنی بس بہت ہو گئی
اِک یادوں کی بارات اِدھر بھی ہے اُدھر بھی
اب شدتِ جذبات اِدھر بھی ہے اُدھر بھی
کیوں امن کے دشمن ہیں بہم دست و گریباں
دہشت کی خرافات اِدھر بھی ہے اُدھر بھی
نفرت کی یہ دیوار گِرا کیوں نہیں دیتے
جو وجہہ فسادات اِدھر بھی ہے اُدھر بھی
جھگڑا ہے کہیں رنگ کہیں نسل کا برقیؔ
اِک یورشِ آفات اِدھر بھی ہے اُدھر بھی
زندگی کا کارواں کل ہو نہ ہو
تیری عظمت کا نشاں کل ہو نہ ہو
ڈاکٹر برقیؔ اعظمی ایک طرف دبستانِ داغ کے پروردہ ہیں تو دوسری طرف شبلی کالج کے فارغ التحصیل ہیں ۔ وہ داغؔ کی مجاوری کے ساتھ ساتھ شبلی تحریک کو بھی پروان چڑھاتے دکھائی دیتے ہیں۔
داغ ؔ کی دِلّی میں ان کے رُو برو
خواہشِ لوح و قلم ہم کیا کریں
دیکھ کر گلشن میں گل کا حالِ زار
رو رہی ہے آج شبنم کیا کریں
داغؔ وہ ہیں جن کے فن کے سامنے
اپنی گردن ہو گئی خم کیا کریں
اب بھی کچھ بگڑا نہیں ہے چھوڑ دے بُغض و نفاق
دیکھ تجھ سے کہہ رہی ہے وقت کی رفتار کیا
افضل الاشغال ہے یہ خدمتِ نوع و بشر
ہیں سکونِ دل کا باعث درہم و دینار کیا
گردشِ رقاصۂ دوراں پہ رکھ برقی ؔ نظر
کہہ رہی ہے تجھ سے یہ پازیب کی جھنکار کیا
زبان و ادب کے لئے جن مشاہیر نے خونِ دل صرف کیا۔ برقیؔ انہیں بھی خراج پیش کرنے کے ساتھ سوال کرتے ہیں۔
نہ حالیؔ ہیں نہ ہیں ڈپٹی نذیر احمد نہ سرسید
اب ایسی دورِ حاضر میں قیادت کیوں نہیں آتی
نہیں ہے شاعری میں سوزِ میرؔ و فانی ؔ و حسرتؔ
زبانِ داغ ؔ میں تھی جو سلاست کیوں نہیں آتی
آج امن کا خواب تو خواب ہو گیا ۔ پوری دنیا میں وحشت و بربریت نے اپنے خونیں پنجوں میں انسانیت کو جکڑ رکھا ہے۔شام و سحر کا منظر ہو لہو ہے۔کابل ہو یا کربلا،فلسطین ہو یا عراق خونِ مسلم کی ارزانی نے دلوں کو لہو لہو کر رکھا ہے۔ماؤں کے لال کیوں بھینٹ چڑھائے جا رہے ہیں؟لہو کی اس نگری میں کسی کے پاس اس کا جواب نہیں۔
منظر ہے آج شام و سحر کا لہو لہو
قلبِ حزیں ہے نوعِ بشرکا لہو لہو
کابل ہو ،کربلا ہو، فلسطین یا عراق
حاصل ہے آج فِتنہ و شر کا لہو لہو
اس کا کوئی جواب ہے ماں پوچھتی ہے یہ
ٹکڑا ہے کیوں یہ میرے جگر کا لہو لہو؟؟
کشتئ دل کا سونپ دیا جس کو نظم و نسق
دیتا رہا فریب وہی نا خدا مجھے
اب میں ہوں اور خوابِ پریشاں ہے میرے ساتھ
کتنا پڑے گا اور ابھی جاگنا مجھے
آج کل اس قدر ہے مکدر فضا
حال یہ دیکھ کر رو پڑی چاندنی
ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی کو اردو زبان سے عشق ہے اور اس کی ترویج کے لئے دن، رات کوشاں ہیں۔ امن کا خواب اپنی آنکھوں میں سجائے وہ دعوتِ عمل دیتے ہوئے کہتے ہیں۔
ہے مِشن میرا فقط ،،امن کی آشا،، برقیؔ
،،میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
بقولِ خسروؔ آ،ہو جائیں ہم یک جان و دو قالب
میں تیرا ہم زباں ہوں تو بھی میرا ہم زباں ہو جا
اگرا ردو سے تجھ کو عشق ہے،،اُردو جہاں ،، پر آ
شریکِ بزم ہو کر اس کی تو روحِ رواں ہو جا
کاش شرمندۂ تعبیر ہو یہ خواب مرا
نالۂ نیم شبی میرا اثر لے آئے
ڈاکٹر احمد علی برقیؔ آپکی آنکھوں میں جو خواب روشن ہیں خدا کرے وہ تعبیر کے پیرہن سے جِلا پاتے رہیں۔آمین(بصیرت فیچرس)
( مضمون نگارجگنو انٹر نیشنل، لاہور کی چیف ایگزیکٹو اور سہ ماہی مجلہ احساس،جرمنی کی ایڈیٹر ہیں )
ٓایم زیڈ کنول
ڈاکٹر احمد علی برقیؔ کا تعلق اس شہر سے ہے جسے عالم میں انتخاب کہا جاتا ہے۔جو ہر دور میں مختلف اقوام و ملل، تہذیبی شعور،تمدن اور ادبی و لسانی تنوع کا محور رہی ہے۔اس کا بار بارسہاگ اُجڑا۔ اس کے باوجود اس کا آنگن زبان و ادب کی آبیاری کے لئے ایسے ادباء کو پروان چڑھاتا رہاجنہوں نے ادبی و تخلیقی منظر نامے پر اپنی الگ شناخت قائم کی۔مشہور ناقد حقانی القاسمی کہتے ہیں۔
،،دِلّی نے صرف تہذیب کو نہیں زبان کو بھی سنبھالا دیا۔نیا لسانی نظام وضع کیا۔نئے محاورات وجود میں آئے۔اور ایک شعری دبستان کی حیثیت سے دلی کی شناخت ہوئی۔احمد علی برقی ؔ اعظمی بھی اسی شناخت کا علمبردار ہے۔ رحمت الٰہی برق ؔ اعظمی کا قابلِ فخر سپوت، دبستانِِ داغ ؔ دہلوی اور دبستانِ نا سخ کا پیرو کا ر آج بھی انہی روایتوں کا امین ہے،اور اپنی تخلیقی جودت کے سہارے اس شعری روایت کو پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔وہ خود کہتے ہیں۔
موضوعِ سُخن ہے میرارودادِ زمانہ
ہیں وقت کی آواز پہ افکارِ پریشاں
ہے رودادِ دل یہ غزل کے بہانے
کوئی اس حقیقت کو مانے نہ مانے
ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی نئی نسل کے نمائندہ شعرا ء میں صفِ اول میں شامل ہیں۔ شاعری آپ کی روح میں اتری ہوئی ہے بلکہ یوں کہیے کہ ودیعت ہوئی ہے۔ موضوعاتی شاعری اور فی البدیہہ شاعری میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ قدرت نے انہیں قادر الکلامی کے ساتھ ساتھ زود گوئی کا ہنر بھی عطا کر رکھا ہے ۔ وہ اردو و فارسی زبان میں یکساں مہارت سے شعر کہتے ہیں۔اور آج سے نہیں ۳۵ برسوں سے فنِ شاعری کو نیا رنگ و آہنگ دے کر گیسوئے اردو کو سنوا ر رہے ہیں۔ اس کے باوجود انہیں وہ پذیرائی نصیب نہیں ہو سکی جو ان کا حق ہے۔
ہوتا زمانہ ساز تو سب جانتے مجھے
کیا خوئے بے نیازی ہے دیوانہ پن مِرا
فصیلِ شہر سے باہرنہیں کسی کو خبر
بہت سے اہلِ ہنر یوں ہی مر گئے چُپ چاپ
آج اپنے وطن میں ہوں گمنام
ہو گا کل میرا نام ایک طرف
غزل اردوشاعری میں ہمیشہ محبوبیت کے مقام پر فائز رہی ہے۔ اساتذۂ سخن نے اسی طرزِ سخن کو اپنایا۔اسے نئے موضوعات اور رجحانات سے مزین کیا پھر بھی مرزا نوشہ کو کہنا پڑا۔
کچھ اور چاہئے وسعت مرے بیاں کے لء�آغزل کا دامن نئے تقاضوں اور خیال آرائیوں کے لئے ہمیشہ وا رہا ہے ۔ متنوع خیالات، نئی تشبیہات، استعارات اور حُسنِ معنی نے اس کے روپ کو ہمیشہ نکھارا اور سنوارا ہے۔ یہی وہ طرزِ سخن ہے جسے میر، غالب ، ذوق ، اقبال ، فیض، ساحر اور ناصر جیسے اساتذہ اپنے خونِ جگر سے پروان چڑھاتے رہے۔
برقیؔ بھی پکار اٹھتے ہیں۔
احساس کا وسیلۂ اِظہار ہے غزل
روحِ سخن ڈاکٹر برقیؔ اعظمی کا پہلا شعری مجموعہ ہے جو برسوں کی عرق ریزی کا ثمر ہے۔برقیؔ صاحب کی بھی غزل ہی محبوب صنف ہے۔جس میں اقصائے جہاں میں انہیں معتبر مقام حا صل ہے۔برقیؔ کی برق گوئی محاورے کی حد تک مسلم ہے۔ وہ اپنا تعارف ہو یا اپنے والد کا نظم کی صورت میں ہی کراتے ہیں۔
میرے والد کا نہیں کوئی جواب
جو تھے اقصائے جہاں میں انتخاب
ان کا مجموعہ ہے تنویرِ سُخن
جِس میں حُسنِ فکر و فن ہے لاجواب
۴۶۴ صفحات کے اس مجموعے میں گویا ایک دبستان آباد ہے۔وہ رحمت الٰہی برقؔ اعظمی کے فرزند ہی نہیں ، صرف ہندوستان کے افق کے ستارے ہی نہیں بلکہ فروغِ اردو کا استعارہ ہیں ۔ادب کا آشیانہ ہیں اور شاعری کا
شاخسانہ ہے ، انھوں نے خونِ جگر سے سینچ کر اسے پروان چڑھایا ہے۔ وہ خود کہتے ہیں۔
مِرا خونِ جگر ہے اس میں شامل
نظر آتی ہے جو سُر خی حِنا کی
میرا سرمایۂ حیات ہے جو
وہ ہے میرے ضمیر کی آواز
برقیؔ کی شاعری شاعری کیا ہے ، ایک آبجو ہے جو بہتی چلی جاتی ہے،ان کی روانی و سلاست کے راستے میں کوئی موڑ نہیں آتا ہاں پاتال کی گہرائی ضرور ہے ۔وہ آج کے الیکٹرونک میڈیا کے دور میں بلا شرکت غیرے افقِ شاعری پر حکمرانی کر رہے ہیں ۔ کوئی بزم ان کے وجود سے خالی نہیں۔ کوئی ویب سائٹ یا بلاگ نہیں جہاں برقی نوازی نہ ہو۔الفاظ ان کے سامنے گویاہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں۔ انھوں نے تشبیہ و استعارے کے ساتھ ساتھ محاورات کو بھی اشعار میں برتا ہے۔
برقیؔ کی اُس کے سامنے کوئی گلی نہ دا ل
جو گُل اُسے کھِلانے تھے اُس نے کھِلا دیئے
وہ اپنے ساتھ لے گئے میرا سکونِ قلب
اِک سبز باغ مُجھ کو دِکھا کر چلے گئے
میری آنکھیں کھُلی کی کھُلی رہ گئیں
وہ نظر آیا جب اِک زمانے کے بعد
برقیؔ کی شاعری اپنے دور کی پوری تاریخ پیش کرتی ہے۔ فسادات کی آگ نے کِس طرح دلوں کو پارہ پارہ کر کے یاس کے صحرا میں آبلہ پا کر دیا اُس کی تصویر کشی کی جھلکیاں جا بجا دکھائی دیتی ہیں۔
خانۂ دل میں سجائی تھی جو سوغاتِ سُخن
ہو گئی نذرِ فسادات کہاں سے لاؤں
بحرِ امواجِ حوادث میں سفینہ ہے مِرا
جس طرف بھی دیکھتا ہوں سامنے ہے موجِ خوں
ڈاکٹر احمد علی برقیؔ بہت زود گو ہیں ۔ شاعری یوں لگتا ہے گویا ان کی گھُٹی میں پڑی ہے۔ چھوٹے سے چھوٹا واقعہ،چھوٹی سی چھوٹی بات ان کی فکر کو مہمیز کرنے کے لئے کافی ہے۔ ظلم ہو یا امن ، محبت ہو یا نفرت،سیاست ہو یا معیشت،غربت و افلاس ہو یا سازگار حالات، برقی کا قلم ،گویا قلم نہیں بلکہ کینوس ہے جو فوری تصویر کشی کے لئے تیار ہے۔ملاحظہ فرمائیے گلوبل وارمنگ ہو یا امتدادِ زمانہ،
اوج پر ہے اب گلوبل وارمنگ
رونقِ بزمِ جہاں کل ہو نہ ہو
قصرِ دل نذرِ فسادات ہوا ہے جب سے
مجھ کو گزرے ہوئے حالات نے سونے نہ دیا
صُبحِ اُمید کب آئے گی نہیں کچھ معلوم
رات بھر مجھ کو اسی بات نے سونے نہ دیا۔آآج کا انسان کس طرح انسانیت کھو چکا ہے۔
مِلتے ہیں میر جعفر و صادق نئے نئے
ہے بھیڑیئے کے جسم پر انساں کی آج کھال
انقلابِ زمانہ نے کس طرح آئینہ خانۂ دل کو دھندلا دیا۔جو بادشاہ تھے وہ آج فقیر ہو گئے۔ کبھی جو ان کے دربار میں ان کی دربانی پر معمور تھے آج سلطان ہو گئے۔
یہ کیسا انقلاب آیا جہاں میں
بہر سُو فتنہ سامانی کے دن ہیں
ہوا کرتے تھے جو دربان اپنے
اب اُن کی آج سلطانی کے دن ہیں
آج ہر طرف محرومی و یاس کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ظلم و نا انصافی نے نگارِ آئینہ کو دھندلا دیا ہے۔ایسے میں شاعر کا حساس دل پکار اُٹھتا ہے۔
نہیں آیا غزل گوئی کا موسم
ابھی تو مرثیہ خوانی کے دن ہیں
مت کرو سرکشی بس بہت ہو گئی
چھوڑ دو دشمنی بس بہت ہو گئی
اِک یادوں کی بارات اِدھر بھی ہے اُدھر بھی
اب شدتِ جذبات اِدھر بھی ہے اُدھر بھی
کیوں امن کے دشمن ہیں بہم دست و گریباں
دہشت کی خرافات اِدھر بھی ہے اُدھر بھی
نفرت کی یہ دیوار گِرا کیوں نہیں دیتے
جو وجہہ فسادات اِدھر بھی ہے اُدھر بھی
جھگڑا ہے کہیں رنگ کہیں نسل کا برقیؔ
اِک یورشِ آفات اِدھر بھی ہے اُدھر بھی
زندگی کا کارواں کل ہو نہ ہو
تیری عظمت کا نشاں کل ہو نہ ہو
ڈاکٹر برقیؔ اعظمی ایک طرف دبستانِ داغ کے پروردہ ہیں تو دوسری طرف شبلی کالج کے فارغ التحصیل ہیں ۔ وہ داغؔ کی مجاوری کے ساتھ ساتھ شبلی تحریک کو بھی پروان چڑھاتے دکھائی دیتے ہیں۔
داغ ؔ کی دِلّی میں ان کے رُو برو
خواہشِ لوح و قلم ہم کیا کریں
دیکھ کر گلشن میں گل کا حالِ زار
رو رہی ہے آج شبنم کیا کریں
داغؔ وہ ہیں جن کے فن کے سامنے
اپنی گردن ہو گئی خم کیا کریں
اب بھی کچھ بگڑا نہیں ہے چھوڑ دے بُغض و نفاق
دیکھ تجھ سے کہہ رہی ہے وقت کی رفتار کیا
افضل الاشغال ہے یہ خدمتِ نوع و بشر
ہیں سکونِ دل کا باعث درہم و دینار کیا
گردشِ رقاصۂ دوراں پہ رکھ برقی ؔ نظر
کہہ رہی ہے تجھ سے یہ پازیب کی جھنکار کیا
زبان و ادب کے لئے جن مشاہیر نے خونِ دل صرف کیا۔ برقیؔ انہیں بھی خراج پیش کرنے کے ساتھ سوال کرتے ہیں۔
نہ حالیؔ ہیں نہ ہیں ڈپٹی نذیر احمد نہ سرسید
اب ایسی دورِ حاضر میں قیادت کیوں نہیں آتی
نہیں ہے شاعری میں سوزِ میرؔ و فانی ؔ و حسرتؔ
زبانِ داغ ؔ میں تھی جو سلاست کیوں نہیں آتی
آج امن کا خواب تو خواب ہو گیا ۔ پوری دنیا میں وحشت و بربریت نے اپنے خونیں پنجوں میں انسانیت کو جکڑ رکھا ہے۔شام و سحر کا منظر ہو لہو ہے۔کابل ہو یا کربلا،فلسطین ہو یا عراق خونِ مسلم کی ارزانی نے دلوں کو لہو لہو کر رکھا ہے۔ماؤں کے لال کیوں بھینٹ چڑھائے جا رہے ہیں؟لہو کی اس نگری میں کسی کے پاس اس کا جواب نہیں۔
منظر ہے آج شام و سحر کا لہو لہو
قلبِ حزیں ہے نوعِ بشرکا لہو لہو
کابل ہو ،کربلا ہو، فلسطین یا عراق
حاصل ہے آج فِتنہ و شر کا لہو لہو
اس کا کوئی جواب ہے ماں پوچھتی ہے یہ
ٹکڑا ہے کیوں یہ میرے جگر کا لہو لہو؟؟
کشتئ دل کا سونپ دیا جس کو نظم و نسق
دیتا رہا فریب وہی نا خدا مجھے
اب میں ہوں اور خوابِ پریشاں ہے میرے ساتھ
کتنا پڑے گا اور ابھی جاگنا مجھے
آج کل اس قدر ہے مکدر فضا
حال یہ دیکھ کر رو پڑی چاندنی
ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی کو اردو زبان سے عشق ہے اور اس کی ترویج کے لئے دن، رات کوشاں ہیں۔ امن کا خواب اپنی آنکھوں میں سجائے وہ دعوتِ عمل دیتے ہوئے کہتے ہیں۔
ہے مِشن میرا فقط ،،امن کی آشا،، برقیؔ
،،میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
بقولِ خسروؔ آ،ہو جائیں ہم یک جان و دو قالب
میں تیرا ہم زباں ہوں تو بھی میرا ہم زباں ہو جا
اگرا ردو سے تجھ کو عشق ہے،،اُردو جہاں ،، پر آ
شریکِ بزم ہو کر اس کی تو روحِ رواں ہو جا
کاش شرمندۂ تعبیر ہو یہ خواب مرا
نالۂ نیم شبی میرا اثر لے آئے
ڈاکٹر احمد علی برقیؔ آپکی آنکھوں میں جو خواب روشن ہیں خدا کرے وہ تعبیر کے پیرہن سے جِلا پاتے رہیں۔آمین(بصیرت فیچرس)
( مضمون نگارجگنو انٹر نیشنل، لاہور کی چیف ایگزیکٹو اور سہ ماہی مجلہ احساس،جرمنی کی ایڈیٹر ہیں )