Page 1 of 1

طرحی غزل - خودسر سے جا لڑی ہے نگاہِ بلا پسند

Posted: Sat Jun 27, 2015 8:22 am
by sfaseehrabbani

دسمبر 1996ء میں کراچی کے ایک طرحی مشاعرے میں کہی گئی غزل۔

طرحی غزل


خودسر سے جا لڑی ہے نگاہِ بلا پسند
برتر سے جا لڑی ہے نگاہِ بلا پسند

کھلتا نہیں ہے کوششِ پیہم کے باوجود
کس در سے جا لڑی ہے نگاہِ بلا پسند

اب دیکھیے مجسمہ میرا کہاں ہو نصب
بت گر سے جا لڑی ہے نگاہِ بلا پسند

کچھ اپنی بے گھری ہی بلاخیز کم نہ تھی
بے گھر سے جا لڑی ہے نگاہِ بلا پسند

اب دیکھیے گزرتی ہے کیا دل پہ عشق میں
‘‘پتھر سے جا لڑی ہے نگاہِ بلا پسند’’

جس در کا ذکر سن کے ٹھٹکتے ہیں یار لوگ
اس در سے جا لڑی ہے نگاہِ بلا پسند

اللہ! میرے دل کے سفینے کی خیر ہو
ساگر سے جا لڑی ہے نگاہِ بلا پسند

کب دیکھیے کہ ہوں مری آنکھیں لہو لہو
نشتر سے جا لڑی ہے نگاہِ بلا پسند

پہلے ہی دل فصیح نہ قابو میں تھا مرا
اوپر سے جا لڑی ہے نگاہِ بلا پسند

شاہین فصیح ربانی
[/font][/size]

Re: طرحی غزل - خودسر سے جا لڑی ہے نگاہِ بلا پسند

Posted: Thu Jul 02, 2015 8:08 pm
by Tanwir Phool
سبحان اللہ ، بہت خوب
اتنی طویل ردیف میں آپ نے بہت دلکش غزل کہی ہے۔
شعر نمبر ۵ اور مقطع میں ٹائپنگ کی کچھ غلطی ہے
میرا خیال ہے کہ "دیکھی" کی جگہ "دیکھئے" اور
مقطع میں"نہ قابو میں تھا مِرا" ہوگا ۔ والسلام ،تنویرپھول