مہتاب قدر کا شعری سفر - - - - - - - - - - - - - - - - - " اجمالی جائزہ "
Posted: Fri Dec 18, 2015 3:13 am
مہتاب قدر کا شعری سفر - - - - - - - - - - - - - - - - - " اجمالی جائزہ "
اسلم چشتی ( پونے )
09422006327 //08928022221
مہتاب قدر کا شعری سفر لڑکپن سے شروع ہُوا اور اب تک جاری ہے - اس سفر کی صعوبتوں کو انھوں نے جھیلا بھی ہوگا بھٹکے بھی ہوں گے اور لُطف اندوز بھی ہوئے ہوں گے لیکن ان کی ثابت قدمی نے انکا ساتھ نبھایا ، ہم سفروں کی حوصلہ افزائی نے ہمت بندھائی ہوگی تبھی تو یہ سُخن کی منزلیں سر کر نے پر تُلے ہیں اور تواتر کے ساتھ سُخن کے گُلستاں میں پودے اُگانے اور پھول کھلانے میں لگے ہوئے ہیں - آبیاری کے لئے مُطالعہ ، مُشاہدہ اور تجربہ ان کا ساتھ دے رہا ہے اور یہ تیزی سے منزلوں کی طرف دوڑنے کا جتن کر رہے ہیں -
مہتاب قدر کا نہ میرے پاس کوئی مجموعئہ کلام تھا اور نہ ہی ان سے شخصی تعارف اور نہ ہی ان کے سُخن کا مُطالعہ ، ایسے میں میرے عزیز دوست ندیم نیر کانپوری کا حُکم کہ مہتاب قدر کی شاعری پر لکھا جائے - احباب کا حُکم ٹالنا میں مُناسب نہیں سمجھتا - امتحان کی گھڑی سامنے کھڑی مُجھے منھ چڑھا رہی تھی ، ذہن پر زور ڈالا تو ذہن نے گواہی دی کہ مہتاب قدر کا چیدہ چیدہ کلام تو میری نظر سے گذر چُکا اور کچھ اشعار بصارت کے راستے دل میں اُتر چُکے ہیں - ہمت پیدا ہوئی تو میں نے ان کا کلام منگوایا کچھ کاغذات پر اشعار دستیاب ہوئے اس کے ساتھ شاعر کا تعارف بھی تھا - تعارف میں شاعر نے اپنے بچپن کی خوبصورت یادوں کو رقم کیا ہے - نام دیا ہے " میں کون ہوں " اس سے پتہ چلا کہ انگریزی زبان ان کی ذریعئہ تعلیم رہی ہے لیکن اُردو زبان سے انہیں بچپن سے دلچسپی بلکہ عشق رہا ہے - اسی زمانے کے ایک دوست انصار کو انھوں نے یاد کیا - مہتاب قدر کے مضمون کا اقتباس مُلاحظہ فرمائیں -
" ویسے اس ابتلا کے اثرات تو پانچویں چھٹی جماعت سے ہی ظاہر ہونا شروع ہو گئے تھے ، مگر با قاعدگی سے نثر و نظم لکھنے اور سُنا کر داد لینے کا شوق اسی مذکورہ بالا زمانے کی دین ہے - سو ہمارے دوست انصار نے جو عمر میں ہم سے کافی بڑے بھی تھے جنہیں کوئی کام کاج نہیں تھا گھر پر ہی مُفت کی روٹیاں کھاتے کٹتی تھی ( گو کہ بعد میں انھیں ہدایت ملی اور وہ بھی کسی فیکٹری میں کام پر لگ گئے ) ہم سے ایک قلمی میگزین جاری کرنے کی تجویز پر حامی بھر لی، تجویز ہماری تھی یا اُن کی اب اتنا یاد نہ رہا لیکن موصوف نے اپنا نام " شہاب نادر " اور ہمارا نام مہتاب قدر رکھنا طئے کیا اور اُس میگزین کا نام " پرواز " رکھا گیا جس کے مُدیر مہتاب قدر اور ناشر پبلیشر شہاب نادر قرار پائے مُدیر بننے کا چسکا لگا تو مہتاب قدر نے شاعری کی علاوہ نثر کی طرف توجہ دی اور طنزومزاح کے ساتھ انگریزی کہانیوں کا اُردو ترجمہ کرنے کی سعادت بھی حاصل کر لی "
( مہتاب قدر )
اس اقتباس سے ظاہر ہُوا کہ مہتاب قدر لڑکپن سے لکھاری ہیں - سنجیدہ شاعری کے علاوہ طنزومزاح بھی لکھتے ہیں اور انگریزی کہانیوں کا اُردو زبان میں ترجمہ بھی کرتے ہیں - ان میدانوں میں انہوں نے کتنی منزلیں طئے کی ہیں مُجھے معلوم نہیں لیکن یہ شاعری کی دُنیا میں فعّال ہیں یہ میں جانتا ہوں - اب جب کہ میرے ہاتھ ان کے کچھ اشعار لگے ہیں تو پتہ چلا کہ مہتاب قدر تقلیدی شاعری سے دور اپنے طور پر تخلیقی شاعری کر رہے ہیں ، پڑھنے سے یہ بھی معلوم ہُوا کہ ان کی شعر گوئی ان کی اپنی کوششوں کا نتیجہ ہے - جس میں ان کے اپنے جذبات و احساسات ہیں - ان کے اپنے خیالات میں کچھ اشعار نے مُجھے اپنی طرف مُتوجہ کیا - مثلاً ~
غمِ جاناں سے کہو صبح مُلاقات کرے
غمِ دوراں کی گزر جائے ذرا رات ابھی
عید سے رنگ اور پتنگ خفا
گاؤں اب بٹ گیا ہے ذاتوں میں
رکھا ہم نے زندہ جو گھر میں زباں کو
تو بچے ہمارے سمجھ پائے اُردو
ہمارے دور کی مٹی میں بھی شفا تھی میاں
تمہارے دور کا تحفہ نئے نئے امراض
وہ بچہ ہے مگر باتیں بزرگوں جیسی کرتا ہے
بُرے حالات معصوموں کا بچپن چھین لیتے ہیں
ان اشعار پر غور کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ شاعر کا شعور تابندہ اور توانا ہے - موجودہ دور کا گیان اُسے ہے - اس دو مصرعی فن میں اس نے ذاتی ، اجتماعی اور سماجی زندگی کی باتیں سلیقے سے کی ہیں - یہاں ان اشعار کی وضاحت کی قطعاً ضرورت اس لئے نہیں ہے کہ اشعار راست بیانیہ انداز لئے ہوئے ہیں ترسیل میں کوئی دقّت نہیں سمجھنے میں کوئی پیچیدگی نہیں - یہاں میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ مہتاب قدر کے سُخن کی راہ صاف ہے ان کی سوچ مُثبت اور اظہار کا طریقہ مُناسب ہے -
مہتاب قدر کے ہاں مُختلف بحروں میں ہمہ رنگی اشعار ہیں - ان رنگوں کا تعلق زندگی سے ہے - زندگی کی اُلجھنوں ، پریشانیوں سے ہے - جس کا مُشاہدہ شاعر کو شعر کہنے پر مجبور کرتا ہے کچھ اور شعر مُلاحظہ فرمائیں -
شوخی مستی چنچل پن میں رہنے دو
بچوں کو کچھ دن بچپن میں رہنے دو
نا مُراد یاں اکثر زخم زخم کرتی ہیں
حسرتوں کے پتھر بھی کس قدر نُکیلے ہیں
پلٹ کے کاسہ اسے تاج کرکے دیکھتے ہیں
چلو فقیری میں اب راج کرکے دیکھتے ہیں
نہ جانے کتنے مسائل کو پال رکھا ہے
غموں نے کسقدر اس کا خیال رکھا ہے
مہتاب قدر کی غزل کا لہجہ کہیں تلخ کہیں شیریں ہوتا ہے یہ لہجہ زندگی کو درشاتا ہے اور قاری کو شاعر کے احساس کے قریب لاتا ہے اور قاری سے کبھی آہ کبھی واہ پاتا ہے یہ شاعر کی کامیابی ہی تو ہے لیکن یہ کامیابی کوئی منزل نہیں مہتاب قدر کو اور بھی منزلیں سر کر نی ہیں - جس منزل پر آج ان کا سُخن پہنچ گیا ہے اس منزل کی زینت یہ اشعار ہیں -
دوستی اور دشمنی کے سارے قصے طئے کریں
کچھ اشارے اور مل جائیں تو رستے طئے کریں
اس بڑھ کر اور کیا ہو عقل کا دیوالیہ
مسئلے سارے بڑوں کے کل کے بچے طئے کریں
اس کی آنکھوں میں اشک یوں ٹھرا
جیسے دوشیزہ کوئی کھڑکی میں
مہتاب قدر کی شاعری میں روشن امکانات کی کمی نہیں ، مُسلسل مشقِ سُخن سے امکانات کے در وا ہوں گے اور سُخن کے گُلشن کو مہکائیں گے - اب رہی بات زبان ، بیان اور فن کی تو یہ مشق پر مُنحصر ہے - مشق ہی زبان کو شفاف بناتی ہے - بیان کو پُر اثر اور فن کو پُختہ کرتی ہے - مہتاب قدر کا شعری سفر پُر عزم ہے - منزلیں سر ہوتی رہیں گی اور سُخن کے متوالوں کو فیض پہنچاتی رہیں گی - اس کا مُجھے یقین ہے -
Aslam chishti flat no 404 shaan Riviera aprt 45 /2 Riviera society near jambhulkar garden wanowrie pune 411040 maharashtra india
aslamchishti01@gmail.com