Page 1 of 1

پرائیڈ اف پرفارمنس

Posted: Thu Jan 07, 2016 10:27 pm
by Muzaffar Ahmad Muzaffar
یہ 1992 کا قصہ ہے کہ مجھے اس پرائیڈ آف پرفارمنس کے ایوارڈ سے نوازا گیا جو اب تو ایک شرمندگی میں بدل چکا ہے۔ اور اُس برس کیسے کیسے لوگ تھے جو اس کے حقدار ٹھہرے۔۔۔ طارق عزیز، معین اختر ، نور محمد لاشاری، نیئر علی دادا شکیل، مصور اعجاز الحسن اور منیر نیازی۔۔۔
ایک روز پیشتر جب ایوان صدر میں ایوارڈز کی ڈریس ریہرسل ہوئی تو وہاں یہ اعلان بھی ہوا کہ ذاتی کیمروں کی اجازت نہیں ہوگی۔۔۔ مجھے یہ پابندی ناروا لگی اور میں طیش میں آکر اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنا کیمرہ ساتھ لے گیا اور خوب خوب تصویر کشی کی۔۔۔ ان میں سے ایک یادگار تصویر تو مشتاق احمد یوسفی کے ہمراہ تھی اور دوسری تصویر منیر نیازی اور اُن کی اہلیہ کی تھی جس میں اُن دونوں کے چہروں پر خوشی کے جھرنے پھوٹتے تھے۔ بعدازاں میں نے اس تصویر کو ایک خوبصورت فریم میں زیبائش کیا اور منیر کو پیش کردی۔۔۔ منیر کی ایک مشہور پنجابی فلم ہے۔۔۔ اَج دا دِن وِی ایویں لنگھیا، کوئی وی گم نہ ہویا تو میں نے اِس تصویر پر ایک مارکر سے لکھا’’ اَج د ا دِن تے ایویں نئیں سی لنگھیا’’ اور اُس کے نیچے دستخط کردیئے۔۔۔ منیر کے لئے یہ ایک انمول تحفہ تھا اور اُس نے یہ تصویراپنے ڈرائنگ روم میں آویزاں کرلی۔۔۔
وقت گزرتا گیا، تصویر تو مدھم نہ ہوئی لیکن مارکر سے لکھی ہوئی میری تحریر مدھم ہو کر بجھنے لگی۔۔۔ ایک بار مینر نے فکرمند ہو کر کہا ’’مستنصر تمہاری تحریر مدھم ہوتی جاتی ہے۔۔۔ تم یوں کرو کہ تصویر کو فریم میں سے نکال کر اس پر ا حتیاط سے مارکر پھیر کر اسے واضح کردو۔۔۔ اور میں نے سوچا کہ تصویر کو فریم سے نکال تو لوں گا۔۔۔ تحریر کو دوبارہ واضح کردوں گا لیکن اسے ایک بار پھر فریم میں کیسے فِٹ کروں گا تو میں نے کہا کہ خاں صاحب۔۔۔ اگلی بار آؤں گا تو آپ کی خواہش پوری کردوں گا پرمیں منیر کی یہ خواہش پوری نہ کر سکا کہ وہ رخصت ہوگیا۔۔۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ تصویر ابھی تک منیر کے ڈرائنگ روم میں آویزاں ہے کہ نہیں۔۔۔ اور اگر ہے تو اُس پر درج میری تحریر مکمل طورپر معدوم ہو چکی ہوگی۔
بہت کم لوگوں کو یادہوگا کہ جب شاکر علی میوزیم میں منیر نیازی کے ساتھ ایک شام منائی گئی تو۔۔۔ اُس کی صدارت میں نے کی تھی۔۔۔ میوزیم کے ڈائریکٹر بھٹی کا جب فون آیا اور بار بار آیا کہ صدارت آپ نے کرنی ہے تو میں نے اُسے کہا کہ بھٹی منیر کی شام کے لئے کسی سینئر شاعر کو صدارت کے لئے مدعو کرو، میرا کیا مقام۔۔۔ تو اس نے کہا کہ تارڑ صاحب۔۔۔ یہ خاں صاحب کی خواہش ہے، انہوں نے کہا ہے کہ لاہور میں میری محفل کی صدارت صرف تارڑ کرے گا۔
منیر کیوں مجھ پراتنا مہربان ہوگیا۔۔۔ اس کے پس منظر میں ایک گہرا راز ہے۔۔۔ دراصل نیپال میں شہر کھٹمنڈو کی ایک رات ہے ۔
(میرے دکھ کی دوا کرنے والے شاعر
مستنصر حسین تارڑ
--