Page 1 of 1

بندر از زبیر شیخ

Posted: Sat Jan 09, 2016 6:39 am
by Muzaffar Ahmad Muzaffar
بندر

ایک دنیا جانتی ہے کہ بندر انتہا ئی شریر، زیرک  اور اعلی  درجہ کا  نقال واقع ہوا ہے.......ہم نے  لفظ بندر کی کنہ جاننے کی بہت کوشش کی .... اس  کا کوئی نہ کوئی سرا   لٹکنے کے عمل سے وابستہ نظر آتا ہے .... اگر لٹکنا ہی بندر کا موجب بنا ہے تو پھر دور جدید میں کیا دلدار اور کیا سرمایہ دار، کیا حکومت اور کیا سیاست اور کیا   سیاست دان،  ان میں سے اکثر کو دنیا نے لٹکتے دیکھا ہے .... لیکن  اس بنا پر  انہیں بندر تو نہیں کہا جاسکتا... تقریبا تمام معروف زبانوں میں بندر کا استعمال محاوروں میں کثرت سے پایا جاتا ہے ... جس سے اسکی قدر  و قیمت ثابت ہوتی ہے .......جبکہ شعرائے کرام نے اس پر قلم اٹھانے سے گریز کیا ہے.... خاصکر غزل  کی زمین  بندروں کے لئے تنگ کردی گئی ہے... البتہ ہزل میں اسکی تفنن  طبع  کا خیال رکھا گیا ہے، اور اس کی  شرارتوں کو  آئینہ دکھایا  گیاہے......غزل گو شعراء نے تشبہ اور استعارے میں تو اسے کہیں جگہ نہیں دی ،  اور نہ ہی تلمیح کے ضمن میں ہی اس کا ذکر کرنا مبارک سمجھا.....بلکہ رقیب روسیاہ کو بھی اس  سے   تشبیہ  کے قابل نہ سمجھا.... گرچہ بطور قاصد یہ بہت کام آتا  پھر بھی کبوتر  کو فوقیت دی....بلکہ یہ ایک اچھا   رازداں ثابت ہوسکتا  تھا ....اور اگر ایسا ہوتا تو  مرزا  کے اس لازوال شعر  کی  شرح  ہی کچھ اور ہوتی کہ .....ذکر اس پر وش کا اور پھر بیاں اپنا......بن گیا رقیب آخر، تھا جو رازداں اپنا.... اگر  محبوب کی کسی  ادا کو شعراء  حضرات  بندر سے تشبیہ دیتے تو قافیہ تنگ ہوجاتا...... اور مونث و مذکر کا فرق کرنا مشکل ہوجاتا، ہاں یہ اور بات کہ  غزل کے نئے معنی ضرور لکھے جاتے ... ویسے تو شعراء حضرات نے جھینگر تک کو اپنے نوک قلم سے سرخرو کیا ہے. اور اسے قیصر کا پیارا  بھی قرار  دیا ......اور   گدھے سے لے کر گھوڑے تک کو اپنے اشعار سے نوازا ہے.."اسپ  تازی مجروح شود بہ زیر پالاں  "  اور "  طوق زریں بر گردن خر می بینم" کو بھلا کون نہیں جانتا...جمہوریت  میں  اسکی زندہ  مثالیں   ہر روز دیکھنے  مل جا تی ہے...نیز کبوتر سے لے کر کبک دری، بلبل و عندلیب  اور طوطے سے لے کر پروانے تک کو صنائع و بدائع کے جھولوں میں جھلایا ہے،  فن عروض سے انکے ذکر کو نکھارا ہے اور بحر رجز ہو یا رمل ہر ایک میں انہیں غوطہ  دیا  ہے...... لیکن بے چارے بندروں کے ایسے نصیب کہاں...اچھا ہی  ہوا ،   ورنہ غزل  اپنی چال  بھول کر اچھل کود کرنے لگتی  ...
بندر کو شعراء حضرات  نے   خراج تحسین  پیش کیا ہو یا نہ کیا ہو   البتہ محققوں اور ساینسدانوں کا یہ پیارا رہا ہے .... بلکہ طبیب حضرات کے لئے بندر انسانوں سے زیادہ قابل اعتماد رہا ہے،  اور یہ اسے تختہ مشق بنا کر  جراحی  کے  تمام   داؤ پیچ آزماتے  رہتے  ہیں..بلکہ  یہ واحد جانور ہے جو دنیا کا  ستایا ہوا ہے، اور دنیا نے اسے کچھ یوں  چڑچڑا اور بد مزاج بنا کر رکھ  دیا ہے کہ یہ مسکراتا بھی ہے تو نقالی کرتا ہے...ان سب کے باوجود  بندر نے کبھی احتجاج درج نہیں کیا ہے ، ان  تمام  معاملات میں یہ واقعی انسان سے یک گونہ مماثلت رکھتاہے، اور "ربط خاص"  بھی.... بندر  کے سب سے بڑے شیدائی جناب ڈارون رہے ہیں... جو خراج عقیدت ڈارون اور انکے معتقدین نے بندر کو پیش کی ہے، اس نے بندر کو خوشی سے پاگل کررکھا ہے..... تب سے انکی اچھل کود قابل دید ہے.... ہمارے خیال میں ڈارون سے قبل بندر اتنا اچھلتے نہیں  ہونگے،   اور نہ انکے رشتہ دار اسقدر  کودتے ہونگے...... بر خلاف شعرا حضرات انہوں نے تو ان سے رشتہ داریاں تک نباہی ہیں.... پتہ نہیں کیوں چینی اور جاپانی انکے دشمن جاں واقع ہوئے ہیں،  اور انکا کلیجه چپانے سے بھی دریغ نہیں کرتے.....ایک دنیا جانتی ہے کہ ڈارون کے علاوہ،  بلکہ ڈارون سے زیادہ بندر سے عقیدت رکھنے والے ہندوستان میں پائے جاتے ہیں،  اور اکثر لوگ اسے پوجتے بھی ہیں...یہ تو اچھا ہے کہ گائے کی طرح بندر سے کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ پر پابندی عائد نہیں ہوئی ہے اب تک ... لیکن... سرکار کو  کب کیا درکار....   کسے پتہ..... یہ سب پڑھکر انہیں شاید پابندی کا خیال آجائے.. اور کچھ عجب نہیں کہ وہ جاپان سے قطع تعلق  بھی کرلے، چین سے  تو ویسے بھی   کوئی خاص تعلق کبھی نہیں رہا .... لیکن وہ ایسا نہیں کریں گے، کیونکہ جاپانی اور چینی حضرات  تو بندروں کے علاوہ چوہے اور سانپ بھی ڈکار لئے بغیر نگل جاتے ہیں .... جبکہ  یہ سب جانور بھی ہندوستان میں عقیدت سے پوجے جاتے ہیں اور انکے باقاعدہ مندر بنائے گئے ہیں ........ اسکے باوجود    آج بھی ہندوستان میں کسی سیاست دان کو بندر یا سانپ یا چوہا  کہہ کر استعارے میں بلانا تو دور کی بات ہے،  تشبیہ بھی نہیں دی گئی ...عجب  نہیں  ایسا کہنے اور لکھنے والے شخص  سے تمام القابات و اعزازات واپس لے لئے جائیں، اور  اس شخص پر عزت ہتک کا دعوی بھی ٹھونک دیا جائے ...جبکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا  کہ  بندر اور چوہا کہنے پر  لوگ  پھولے نہ سماتے ... اسی لئے دہلی کے وزیر اعلی جناب کیجری وال  نے کیا کچھ نہیں کہا،  لیکن حز ف مخالف کو  بندر، چوہا، یا سانپ  نہیں کہہ سکے،   اور ان جانوروں سے تشبیہ دینے سے گریز کرتے آئے ہیں ..عزت ہتک کے  دعوے  سے ڈر کر نہیں،  بلکہ وہ  انہیں اس عزت کے لائق بھی نہیں سمجھتے....بندر  کے محاوروں کی زندہ مثال اس جدید  دور میں بھی دیکھنے  ملتی ہے..... بلکہ کہیں کہیں تو مجسم  نظر آتی ہیں .. امریکہ کے 'مسٹر ٹرمپ  کی  بندر  بھپکی کو ہی لے لیجیے ..... انہیں دیکھ کر کسی کو بھی اپنا  عہد طفلی یاد آجاتا ہوگا ...اور چڑیا گھر کا وہ منظر بھی....جب بندر اونچا ئی  پر چڑھ کر  خوب شور مچاتا ہے ، اور عجیب و غریب منہ بناتا ہے .....  جہاں تک بندر بانٹ  کی بات کیجیے  تو بر صغیر کی  سیاسی  جماعتیں  اسکی  زندہ کہہ لیں یا مردہ،   بہر حال مثال تو پیش کرتی ہی ہیں ..... اہل عرب آج تک اس محاروے کو سمجھ نہ سکے کہ بندر کی دوستی جی کا جنجال  ہوتی ہے،  اور وہ انہیں سے دوستی روا  رکھتے  ہیں  جو جمہوریت کی صلیب  اٹھائے   قارون اور ہامان  کے  پیروی کرتے ہیں  ... اور رہے اسلامی قوانین  سے انحراف کرنے والے  اور اسلام کا نام بدنام کرنے والے تو   بندر کیا جانے ادرک کا سواد کی مثال ثابت آتی ہے....
 
بندر کے اوصاف گنانے اگر بیٹھیں تو کسی جا بیٹھا نہ جائے .. مہذب انسانوں کی طرح ان کے صرف  نقائص ہی قابل ذکر ہیں......پتہ نہیں  کس کس سے  اسکی کیسی  کیسی مناسبت و مطابقت قائم  ہو سکتی ہے.....ویسے انسانوں کے مقابلے بندروں کا اتحاد دیکھنے لائق ہوتا ہے ... اور مسلمانوں کے مقابلے میں تو انکا اتحاد بہت بہتر  اور قابل  تقلید  ہے،  لیکن یہ تو  بندر سے بھی گئے گزرے ہیں ....ویسے بندر  دوسرے جانوروں کو دیکھ کر بہت چیخ پکار کرتا  ہے ...اسکا نظارہ عصر حاضر کے اکثر و بیشتر   " ٹی وی ٹاک شو" میں دیکھنے ملتا ہے .... خوانچہ فروشوں اور تھکے ہارے  مسافروں  کا  دشمن  رہا ہے بندر ،  بر صغیر  کے کسی بھی شہر  کی بلدیہ کو دیکھ لیجیے  ... گٹھری  بردار  مسافر سے اسے خدا واسطے کا بیر ہے...ریلوے اسٹیشنوں پر  اسکا نظارہ دیکھنے لائق  ہوتاہے....میکشوں کو اس سے اور اسکو میکشوں سے بلکل   ڈر نہیں لگتا .....یہ میکشوں کو دیکھ کر کچھ نہیں کرتا ... پتہ نہیں کیوں...بس آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لئے رہ جاتا ہے ......ویسے اداکاروں میں یہ نمایاں نظر آتا ہے ...جبکہ  اساتذہ  کو یہ اکثر بچوں میں  نظر آتا ہے .....انسانی تاریخ میں صنف نازک کا  بندر سے لگاو تو بلکل بھی ثابت نہیں ہے، اور مرد حضرات کا معاملہ بھی ان سے کچھ الگ نہیں، الا یہ کہ یہ اپنے بچوں کی خاطر بندر کی اچھل کود کو برداشت کرلیتے   ہیں ... البتہ  بچوں میں بندر کے لئے ایک خاص کشش پائی جاتی ہے.... جو کبھی سن بلوغ کو پہنچتے ختم ہو جایا کرتی تھی... لیکن دور جدید میں تو یہ حال ہے کہ   اکثر  ضعیفی  بلکہ   بستر مرگ تک یہ کشش  باقی رہتی ہے.. اس کارنامہ کے لئے اہل مغرب خود کو  لائق تحسین سمجھتے ہیں..... گرچہ جناب ڈارون کی ذہنی خلش نے اہل مغرب کو بہت متاثر کیااور پھر  انہوں نے  بندر  کو  اپنا    جد امجد چن لیا ،  لیکن انہوں نے بھی محاوروں کی گود میں بندر کو بٹھا کر خوب اچھل کود مچا ئی ہے.... انگریزی کا مشہور و معروف محاورہ ہے جس کا آسان سا ترجمہ ہم نے  زبان یار میں جب کیا تو کچھ یوں سامنے آیا کہ ... سینگ چنے دوگے تو بندر ہی ہاتھ لگے گا....لیکن دنیائے سیاست کے علاوہ  اسکی مناسبت اور مطابقت  ہمیں کہیں اور نظر نہیں آئی......صرف  موجودہ جمہوری سیاست اسکی مکمل عکاسی کرتی ہے....رائے دہندگان  کو اس پر ضرور غور کرنا چاہیے ..... بندر اور ڈگڈگی کا رشتہ چولی دامن کا رشتہ ہے...اور بندر بغیر ڈگڈگی،  اور ڈگڈگی بغیر بندر کے بلکل ایسے لگے ہے جیسے جمہوری سیاست بغیر سرمایہ داری، اور سرمایہ داری بغیر سیاست کے....اب ان میں بندر کون اور ڈگڈگی کون ہے یہ جاننا کوئی ایسا مشکل کام نہیں رہا.... عوام بے چاری اس بندر بانٹ میں کچھ سمجھنے سے قاصر ہے .. بلکہ بڑے بڑے دانشور بھی اب یہ سمجھ نہیں پاتے... . الغرض بندر کے بارے میں سوچنے سے ہی ذہن میں اچھل کود شروع ہوجاتی ہے.....پتہ نہیں اسکے متعلق اسقدر پڑھنے سے کیا ہوگا .....