کبیر سنگھ بیدی کی یاد میں
Posted: Sun Jan 10, 2016 4:24 pm
راجندرسنگھ بیدی کی یادیں
طاہر اصغر۔۔۔۔۔
یہ برس اردو کے صاحب طرز افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی کے سوسالہ جنم کے حوالے منسوب کیا گیا ہے۔ بیدی سیالکو ٹ کے نزدیک ایک گاؤں دلے میں یکم ستمبر 1915کو ہیرا سنگھ بیدی اور سیوا دیوی کے ہاں پیدا ہو ئے ۔ لاہو ر میں انہوں نے اپنی ابتدائی زندگی کا بہت سا عرصہ گزارا
لاہو ر جہا ں انہوں نے اپنے کیرئیر کا ابتدائی زمانہ بسر کیا اور افسانوی ادب لکھنے کاآغاز کیا ۔ ان کی یا دوں سے آباد ہے ۔ پنجاب یو نیورسٹی کے باہر وہ سنگی مجسمہ بھی اسی طرح ایستادہ ہے جس کے حوالے سے انہو ں نے کہا نی ’’لمس ‘‘ لکھی تھی
۔ وہ گریجویشن نہ کرسکے اور لاہورکے جنرل پوسٹ آفس میں کلرک ملا زم تھے جہا ں وہ خطوط کی ترتیب لگایا کرتے تھے ۔ ان کی پہلی کہانی ’’مہا رانی کا تحفہ ‘‘ لا ہو ر کے ایک معروف ادبی جریدے ’’ ادبی دنیا ‘‘ میں شائع ہو ئی اور اسے سال کی بہترین کہا نی قرار دیا گیا ۔ اپنے ابتدائی افسانو ں سے ہی وہ ادبی افق پر نما یا ں ہو گئے ۔ تب انہوں نے دوستوں کے ایما پر ڈاکخانے کی ملازمت تج دی اور تصنیف و تا لیف کو اپنا مستقل ہنر بنا لیا ۔ لا ہو ر میں آل انڈیاریڈیو کے اردو سیکشن میں ملازمت اختیار کی ۔اور یہاں انہو ں نے ریڈیائی ڈرامے لکھے ۔ جن میں ان کا ڈرامہ ’’ نقل مکا نی ‘‘ بھی شامل ہے ۔ جس پر بعد میں انہوں نے1970 میں فلم ’’ دستک ‘‘ بنائی جس کی کہا نی و مکالموں کے علا وہ ہدایات بھی دیں ۔ اس فلم میں سنجیوکمار اور ریحانہ سلطان نے کا م کیا تھا ۔ فلم کی مو سیقی مدن مو ہن نے دی تھی ۔ اس فلم کے گیت بہت معروف ہو ئے جنہیں مجروح سلطان پوری نے لکھا تھا ۔ غزل ’ہم ہیں متاع کو چہ و بازار کی طرح .اٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح ۔لتا منگیشکر نے گایا اور یہ آج بھی معروف ہے ۔ تقسیم کے بعد بید ی اپنی فیملی کے ساتھ انڈیا چلے گئے ۔ کچھ عرصہ دہلی میں گزارنے کے بعد بمبئی کا رخ کیا جہاں کی فلمی دنیا ان کی منتظر تھی ۔ اسی دور ان ان کے افسانو ں کے دو مجموعے ’’ دانہ و دام ‘‘ اور ’’ گرہن ‘‘شائع ہو چکے تھے ۔ یہ ترقی پسند تحریک کے عروج کا زمانہ تھا ۔ راجندر سنگھ بیدی نے آل ریڈیو جمو ں وکشمیر کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے بھی کا م کیا ۔ ان کی دوسرے افسانوی مجموعوں میں ’’ کو کھ جلی ‘‘ اور ’’ اپنے دکھ مجھے دے دو ‘‘ شامل ہیں جبکہ ڈرامہ کا ایک مجموعہ ’’ سات کھیل کے نا م سے شائع ہو ا۔ راجندر سنگھ بیدی کے ہم عصروں میں کر شن چندر، سعادت حسن منٹو، اعصمت چغتائی احمد ندیم قاسمی ، بلونت سنگھ ، خواجہ احمد عباس اور اوپندر ناتھ اشک جیسے معروف لکھنے والے شامل ہیں ۔ بید ی اپنے منفرد اسلو ب کی بدولت اپنی پہچان بنا تے ہیں ۔ نقادوں نے اکثر ان کا موازنہ منٹو کے ساتھ کیا ہے ۔ بید ی کی بیشتر کہا نیو ں کا مرکزی کردار عورت ہے ۔ وہ عورت جو ہندوستا ن کی معاشرت اور مردانہ نظام زیست میں اپنے وجو د کی بقا کے لیے سرگرداں ہے ۔ منٹو کے افسانوں کی عورت آگ ہے تو بید ی کی کہانیو ں میں عورت ابریشم ۔ بیدی آنسوؤ ں کو متکلم زبان دیتے ہیں ۔ جذبو ں اور نا آسودوہ خواہشوں کی ترجمانی کرتے ہیں ۔ بیدی کے ایک ناولٹ ’’اک چادر میلی سی ‘‘ کو غیرمعمولی پذیرائی اور شہرت حاصل ہوئی ۔ پا کستان کی اداکارہ و ہدایت کار ہ سنگیتا نے اس ناولٹ کی کہانی پر ایک فلم ’’مٹھی بھر چاول‘‘ بنا ئی تھی ۔ جس میں اداکار ندیم ، غلام محی الدین ، کویتا اور خود سنگیتا نے بھی کا م کیا تھا ۔ سکھ معاشرت کے تنا ظر میں لکھی گئی اس کہا نی پر سنگیتا نے اپنی زندگی کی بہترین فلم بنائی جسے دیکھ کر بید ی نے بھی سراہا تھا ۔ بید ی کی وفات کے بعد بالی وڈ میں اک چادر میلی سی کو اسی نام سے فلما یا گیا لیکن یہ حیرت انگیز طور پر یہ ایک ناکام کو شش ثابت ہو ئی ۔ ناولٹ اک چادر میلی سی کا انگریزی اور دیگر زبانوں میں بھی ترجمہ کیا گیا ہے ۔ ادبی دنیا میں راجندرسنگھ بیدی کا نام ایک قد آور ادیب کے طور پر اپنی پہچان بنا چکا تھا ۔ البتہ دیگر ترقی پسند ادیبوں کی طرح جب انہو ں نے فلم نگر کا رخ کیا تو فلمو ں کی کہا نی و مکالمے لکھنے کے علا وہ انہوں نے فلم کی ہدایات بھی دیں ۔ 1949میں فلم ’’بڑی بہن ‘‘ کے مکا لمے لکھے ۔لیکن فلمی مکالمہ نگار کے طور پر ان کی اولین بڑی پہچان 1950میں ریلیز ہو نے والی اداکار دلیپ کما ر کی فلم ’’ داغ‘‘ تھی ۔ بیدی نے اپنے کا میاب فلمی کیرئیر کو جا ری رکھا ان کی دوسری فلموں میں گرم کو ٹ ۔ رنگولی ۔مرزا غالب ۔ مدھومتی ۔ دیوداس ۔انو رادھا ۔ انوپما ۔ستیہ کام ۔ ابھیمان شامل ہیں جن کی کہانی و مکالمے انہوں نے تحریر کئے ۔ 1970میں اپنے ہی ایک ڈرامے نقل مکا نی پر فلم ’’دستک ‘‘ بنائی جس کی ہدایات بھی انہوں نے دی تھی ۔ ان کا بیٹا نریندر بیدی بھی فلم ڈائریکٹر ہے جس نے جو انی دیوانی ۔ بے نا م ۔رفوچکر اور صنم تیری قسم فلموں کی ہدایات دی ہیں ۔ راجند ر سنگھ بیدی اپنی شریک حیات کی وفات کے دو سال بعد 1984 میں ان کا انتقال ہو گیا ۔ فلم میکر نینا گپتا نے تقسیم کے موضوع پر لکھی گئی ان کی کہانی ’’لاجونتی ‘‘ پر ایک ٹیلی فلم بنا ئی ۔ گورنمنٹ آف انڈیا نے اردو ادب میں نما یا ں خدمات انجام دینے والوں کے لیے راجندر سنگھ بیدی ایوارڈ کا اجرا کیا ہے ۔ ان کی آخری فلم ’’ اکھین دیکھی ‘‘ تھی جس کی کہا نی لکھنے کے علا وہ اس کی ہدایا ت بھی دے رہے تھے ، لیکن یہ فلم ریلیز نہ ہو سکی ۔ فلم مدھو متی اور ستیہ کام کے بہترین مکالمے لکھنے پر انہیں فلم فیئر ایوارڈ دئیے گئے ۔ جب کہ ساہتیہ اکیڈمی نے ان کے ناولٹ ایک چادر میلی سی کے انگریزی ترجمے پر انہیں ایوارڈ دیا اس کے سا تھ ساتھ ان کے ڈراموں پر غالب ایوارڈ سے انہیں نو ازا گیا ۔ ۔عورت کی گھٹی ہوئی آواز خواہش ،خواب اور سرگوشی بید ی کے افسانوی رنگ محل کی مترنم آوازیں ہیں ۔ وہ رنگوں میں محبت کو کھوجتا ہے تو افسانہ ’’جو گیا ‘‘ لکھتا ہے اور جب بارش کی کن من اس کی کہا نی میں ڈھلتی ہے تو اس کا افسانہ دس منٹ بارش میں تخلیق ہو تا ہے ….
ان کی ہم عصر عصمت چغتا ئی نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ’’ اپنی عمر کے آخری حصے میں بیدی نے اپنے سفید بال سیاہ کرلیے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنی ہی ایک فلم کی ہیروئین کے عشق میں مبتلا ہو چکے تھے‘‘۔
لاہو ر جہا ں انہوں نے اپنے کیرئیر کا ابتدائی زمانہ بسر کیا اور افسانوی ادب لکھنے کاآغاز کیا ۔ ان کی یا دوں سے آباد ہے ۔ پنجاب یو نیورسٹی کے باہر وہ سنگی مجسمہ بھی اسی طرح ایستادہ ہے جس کے حوالے سے انہو ں نے کہا نی ’’لمس ‘‘ لکھی تھی ۔ کیا ہم لا ہو ر کی کسی سڑک کو راجندرسنگھ بیدی کے نا م سے مو سوم کر سکتے ہیں جس سے اس روایت کا شاندار آغاز ہو کہ امن پسند انسان دوست اور ترقی پسند فن کا ر ہر ملک کا مشترکہ ورثہ ہو تے ہیں ۔بیدی کے سوسالہ جنم پر یہ ان کے لیے شاندار خراج عقیدت ہو گا
طاہر اصغر۔۔۔۔۔
یہ برس اردو کے صاحب طرز افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی کے سوسالہ جنم کے حوالے منسوب کیا گیا ہے۔ بیدی سیالکو ٹ کے نزدیک ایک گاؤں دلے میں یکم ستمبر 1915کو ہیرا سنگھ بیدی اور سیوا دیوی کے ہاں پیدا ہو ئے ۔ لاہو ر میں انہوں نے اپنی ابتدائی زندگی کا بہت سا عرصہ گزارا
لاہو ر جہا ں انہوں نے اپنے کیرئیر کا ابتدائی زمانہ بسر کیا اور افسانوی ادب لکھنے کاآغاز کیا ۔ ان کی یا دوں سے آباد ہے ۔ پنجاب یو نیورسٹی کے باہر وہ سنگی مجسمہ بھی اسی طرح ایستادہ ہے جس کے حوالے سے انہو ں نے کہا نی ’’لمس ‘‘ لکھی تھی
۔ وہ گریجویشن نہ کرسکے اور لاہورکے جنرل پوسٹ آفس میں کلرک ملا زم تھے جہا ں وہ خطوط کی ترتیب لگایا کرتے تھے ۔ ان کی پہلی کہانی ’’مہا رانی کا تحفہ ‘‘ لا ہو ر کے ایک معروف ادبی جریدے ’’ ادبی دنیا ‘‘ میں شائع ہو ئی اور اسے سال کی بہترین کہا نی قرار دیا گیا ۔ اپنے ابتدائی افسانو ں سے ہی وہ ادبی افق پر نما یا ں ہو گئے ۔ تب انہوں نے دوستوں کے ایما پر ڈاکخانے کی ملازمت تج دی اور تصنیف و تا لیف کو اپنا مستقل ہنر بنا لیا ۔ لا ہو ر میں آل انڈیاریڈیو کے اردو سیکشن میں ملازمت اختیار کی ۔اور یہاں انہو ں نے ریڈیائی ڈرامے لکھے ۔ جن میں ان کا ڈرامہ ’’ نقل مکا نی ‘‘ بھی شامل ہے ۔ جس پر بعد میں انہوں نے1970 میں فلم ’’ دستک ‘‘ بنائی جس کی کہا نی و مکالموں کے علا وہ ہدایات بھی دیں ۔ اس فلم میں سنجیوکمار اور ریحانہ سلطان نے کا م کیا تھا ۔ فلم کی مو سیقی مدن مو ہن نے دی تھی ۔ اس فلم کے گیت بہت معروف ہو ئے جنہیں مجروح سلطان پوری نے لکھا تھا ۔ غزل ’ہم ہیں متاع کو چہ و بازار کی طرح .اٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح ۔لتا منگیشکر نے گایا اور یہ آج بھی معروف ہے ۔ تقسیم کے بعد بید ی اپنی فیملی کے ساتھ انڈیا چلے گئے ۔ کچھ عرصہ دہلی میں گزارنے کے بعد بمبئی کا رخ کیا جہاں کی فلمی دنیا ان کی منتظر تھی ۔ اسی دور ان ان کے افسانو ں کے دو مجموعے ’’ دانہ و دام ‘‘ اور ’’ گرہن ‘‘شائع ہو چکے تھے ۔ یہ ترقی پسند تحریک کے عروج کا زمانہ تھا ۔ راجندر سنگھ بیدی نے آل ریڈیو جمو ں وکشمیر کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے بھی کا م کیا ۔ ان کی دوسرے افسانوی مجموعوں میں ’’ کو کھ جلی ‘‘ اور ’’ اپنے دکھ مجھے دے دو ‘‘ شامل ہیں جبکہ ڈرامہ کا ایک مجموعہ ’’ سات کھیل کے نا م سے شائع ہو ا۔ راجندر سنگھ بیدی کے ہم عصروں میں کر شن چندر، سعادت حسن منٹو، اعصمت چغتائی احمد ندیم قاسمی ، بلونت سنگھ ، خواجہ احمد عباس اور اوپندر ناتھ اشک جیسے معروف لکھنے والے شامل ہیں ۔ بید ی اپنے منفرد اسلو ب کی بدولت اپنی پہچان بنا تے ہیں ۔ نقادوں نے اکثر ان کا موازنہ منٹو کے ساتھ کیا ہے ۔ بید ی کی بیشتر کہا نیو ں کا مرکزی کردار عورت ہے ۔ وہ عورت جو ہندوستا ن کی معاشرت اور مردانہ نظام زیست میں اپنے وجو د کی بقا کے لیے سرگرداں ہے ۔ منٹو کے افسانوں کی عورت آگ ہے تو بید ی کی کہانیو ں میں عورت ابریشم ۔ بیدی آنسوؤ ں کو متکلم زبان دیتے ہیں ۔ جذبو ں اور نا آسودوہ خواہشوں کی ترجمانی کرتے ہیں ۔ بیدی کے ایک ناولٹ ’’اک چادر میلی سی ‘‘ کو غیرمعمولی پذیرائی اور شہرت حاصل ہوئی ۔ پا کستان کی اداکارہ و ہدایت کار ہ سنگیتا نے اس ناولٹ کی کہانی پر ایک فلم ’’مٹھی بھر چاول‘‘ بنا ئی تھی ۔ جس میں اداکار ندیم ، غلام محی الدین ، کویتا اور خود سنگیتا نے بھی کا م کیا تھا ۔ سکھ معاشرت کے تنا ظر میں لکھی گئی اس کہا نی پر سنگیتا نے اپنی زندگی کی بہترین فلم بنائی جسے دیکھ کر بید ی نے بھی سراہا تھا ۔ بید ی کی وفات کے بعد بالی وڈ میں اک چادر میلی سی کو اسی نام سے فلما یا گیا لیکن یہ حیرت انگیز طور پر یہ ایک ناکام کو شش ثابت ہو ئی ۔ ناولٹ اک چادر میلی سی کا انگریزی اور دیگر زبانوں میں بھی ترجمہ کیا گیا ہے ۔ ادبی دنیا میں راجندرسنگھ بیدی کا نام ایک قد آور ادیب کے طور پر اپنی پہچان بنا چکا تھا ۔ البتہ دیگر ترقی پسند ادیبوں کی طرح جب انہو ں نے فلم نگر کا رخ کیا تو فلمو ں کی کہا نی و مکالمے لکھنے کے علا وہ انہوں نے فلم کی ہدایات بھی دیں ۔ 1949میں فلم ’’بڑی بہن ‘‘ کے مکا لمے لکھے ۔لیکن فلمی مکالمہ نگار کے طور پر ان کی اولین بڑی پہچان 1950میں ریلیز ہو نے والی اداکار دلیپ کما ر کی فلم ’’ داغ‘‘ تھی ۔ بیدی نے اپنے کا میاب فلمی کیرئیر کو جا ری رکھا ان کی دوسری فلموں میں گرم کو ٹ ۔ رنگولی ۔مرزا غالب ۔ مدھومتی ۔ دیوداس ۔انو رادھا ۔ انوپما ۔ستیہ کام ۔ ابھیمان شامل ہیں جن کی کہانی و مکالمے انہوں نے تحریر کئے ۔ 1970میں اپنے ہی ایک ڈرامے نقل مکا نی پر فلم ’’دستک ‘‘ بنائی جس کی ہدایات بھی انہوں نے دی تھی ۔ ان کا بیٹا نریندر بیدی بھی فلم ڈائریکٹر ہے جس نے جو انی دیوانی ۔ بے نا م ۔رفوچکر اور صنم تیری قسم فلموں کی ہدایات دی ہیں ۔ راجند ر سنگھ بیدی اپنی شریک حیات کی وفات کے دو سال بعد 1984 میں ان کا انتقال ہو گیا ۔ فلم میکر نینا گپتا نے تقسیم کے موضوع پر لکھی گئی ان کی کہانی ’’لاجونتی ‘‘ پر ایک ٹیلی فلم بنا ئی ۔ گورنمنٹ آف انڈیا نے اردو ادب میں نما یا ں خدمات انجام دینے والوں کے لیے راجندر سنگھ بیدی ایوارڈ کا اجرا کیا ہے ۔ ان کی آخری فلم ’’ اکھین دیکھی ‘‘ تھی جس کی کہا نی لکھنے کے علا وہ اس کی ہدایا ت بھی دے رہے تھے ، لیکن یہ فلم ریلیز نہ ہو سکی ۔ فلم مدھو متی اور ستیہ کام کے بہترین مکالمے لکھنے پر انہیں فلم فیئر ایوارڈ دئیے گئے ۔ جب کہ ساہتیہ اکیڈمی نے ان کے ناولٹ ایک چادر میلی سی کے انگریزی ترجمے پر انہیں ایوارڈ دیا اس کے سا تھ ساتھ ان کے ڈراموں پر غالب ایوارڈ سے انہیں نو ازا گیا ۔ ۔عورت کی گھٹی ہوئی آواز خواہش ،خواب اور سرگوشی بید ی کے افسانوی رنگ محل کی مترنم آوازیں ہیں ۔ وہ رنگوں میں محبت کو کھوجتا ہے تو افسانہ ’’جو گیا ‘‘ لکھتا ہے اور جب بارش کی کن من اس کی کہا نی میں ڈھلتی ہے تو اس کا افسانہ دس منٹ بارش میں تخلیق ہو تا ہے ….
ان کی ہم عصر عصمت چغتا ئی نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ’’ اپنی عمر کے آخری حصے میں بیدی نے اپنے سفید بال سیاہ کرلیے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنی ہی ایک فلم کی ہیروئین کے عشق میں مبتلا ہو چکے تھے‘‘۔
لاہو ر جہا ں انہوں نے اپنے کیرئیر کا ابتدائی زمانہ بسر کیا اور افسانوی ادب لکھنے کاآغاز کیا ۔ ان کی یا دوں سے آباد ہے ۔ پنجاب یو نیورسٹی کے باہر وہ سنگی مجسمہ بھی اسی طرح ایستادہ ہے جس کے حوالے سے انہو ں نے کہا نی ’’لمس ‘‘ لکھی تھی ۔ کیا ہم لا ہو ر کی کسی سڑک کو راجندرسنگھ بیدی کے نا م سے مو سوم کر سکتے ہیں جس سے اس روایت کا شاندار آغاز ہو کہ امن پسند انسان دوست اور ترقی پسند فن کا ر ہر ملک کا مشترکہ ورثہ ہو تے ہیں ۔بیدی کے سوسالہ جنم پر یہ ان کے لیے شاندار خراج عقیدت ہو گا