قیامت کے نامے میرے نام آتے ھیں
Posted: Fri Jan 15, 2016 6:25 pm
قیامت کے نامے میرے نام آئے
زبیر حسن شیخ
شیفتہ آج چمن میں بقراط پر بے حد ناراض دکھا ئی دے رہے تھے...ہمیں دیکھتے ہی فرمانے لگے..... حضور ، قیامت کے نامے میرے نام آئے ہیں.....پتہ نہیں کیسا دور ہے کہ اب لوگ باگ موبائیل پر عجیب و غریب علامتیں ارسال کردیتے ہیں ......مرزا ہوتے تو کچھ سمجھتے بھی کہ وہ علائم اور اشاروں کے ماہر تھے.... اہل ادب بھلے دیر سے ہی سہی انکا مدعا سمجھ جاتے تھے... تہذیب جدیدہ میں پیام رسانی کے عجیب و غریب وسائل ہیں....عجیب نقشِ گستاخی ہے، پتہ نہیں کس کی شوخیء تحریر کا ہے......ایک وہ چہروں سے سجی محفل کیا کم تھی جسے دیکھ دیکھ کر نئی نسل کہے پھرتی ہے کہ .. جب سے آنکھ لگی ' اس منہ' سے رنگ میرا مہ تابی ہے.....اب ایک اور چلتی پھرتی محفل سجی ہے اور عنوان کچھ اس طرح معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی کہے "کیا ہورہا ہے! یہاں آو بتاو سب کو !"..اور بس اسی پر سوار ہوکر اب ہر کوئی پیام رسانی کررہا ہے .. ہجر میں اوروصل میں بھی .... اوراشاروں اور علامتوں سے بتا بھی رہا ہے.. .ہم نے پوچھا حضور کیا آپ سے "وہاٹس اپ". پر کسی نے کچھ کہہ دیا ہے .. فرمایا .. حضور، کہے سو کہے لیکن وہ تو کچھ کر کے بتا رہا تھا ..... چھوٹی چھوٹی تصویریں ارسال کردی کمبخت نے.... ایک تصویر میں ایک آنکھ بند اور زبان باہر، دوسری میں ٹھینگا دکھا رہا تھا ، اور تیسری میں ہتھیلی پر پھونک مار رہا تھا ..... اب اسے کیا سمجھیں کہ کیا کہہ رہا ہے، اور کیا کررہا ہے... وہ تو اچھا ہوا اسے چار چار کی اجازت کا علم نہ تھا.. پتا نہیں چوتھی کیسی ہوتی .....ہمیں تو مرزا کا وہ نازیبا کلام یاد آگیا جو ایام غفلت میں انہوں نے لکھا تھا ، بلکل آوردن تھا... اور جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ ....اسکو بتا کہ یوں، اسکو بتا کہ یوں...ہم آج تک نہ ہی وہ علائم سمجھ سکے اور نہ ہی وہ عزائم .....ویسے لیلا ئٰے تہذیب میں زبان لٹکانا اور اور آنکھ دبانا غیر انسانی حرکات و سکنات میں شمار ہوتا تھا ، اور مذاق میں بھی انگلیوں کا استعمال غیر مردوں کا عمل سمجھا جاتا تھا ...... آج مرزا زندہ ہوتے تو گنجینۂ معنی میں علامتوں کو ضرور شامل کرتے ... فی الحقیقت انہیں اوروں کی طرح ترازو کی محتاجی کبھی تھی ہی نہیں.. ویسے بھی وہ ہاتھوں کو جنبش نہیں دے پاتے ...بس آنکھوں میں دم تھا اور اسی کے دم سے آمدن تھی، اور وہ بھی بنی بنائی اور نپی تلی آمدن .... فن عروض کے پیمانے تخلیق کرتی آمدن...... انکے لئے بے حد آسان ہوتا دور جدید کی ان علامتوں کو غزل میں پرونا.... خیر...... اب گیا وہ "رفت و بود"، اب کہاں "چراغ و دود" ...جو غزل کی رکھ حدود ، دے کلام معجزانہ ...
فرمایا، کمبخت بقراط سے ہم یہی پوچھ رہے تھے کہ اس نے ہمارے برقی قاصد کا اتا پتا کس کس کو دیا اور کیوں دیا ہے ؟.... بقراط نے کہا حضور ہم نے آپ ہی کےکہنے پر بی جے پی کی ایک برقی محفل میں آپ کو شامل کردیا تھا..... آپ ہی ان سے روابط روا رکھنے پر زور دے رہے تھے ... حالات کے تحت خود کو بدلنے پر زور دے رہے تھے.... بس آپ جیسے کسی نیم جان مسلمان کی ادا ہی انکے لئے کافی تھی.....بھیج دیا انہوں نے برقی پیام مع تصویر بتاں ، وہ قیامت کے نامے اور وہ علائم .... اب سلسلہ جنبانی شروع ہوا ہے تو پیامات آتے رہیں گے نا..... حضور آپ جیسے مسلمانوں کا یہ حال ہے بقول شاعر کہ ... نہ تلطف، نہ محبت نہ مروت نہ وفا.......سادگی دیکھ، کہ اس پر بھی لگا جاتا ہوں....فرمایا ....اماں اتنی بے غیرتی سے تو ہم نے رنجشیں بھی نہیں کی ہیں، دشمنی بھی کی ہے تو ایمانداری سے کی ہے......الغرض ہمیں احساس تو تھا کہ بی جے پی کبھی مسلمانوں کی نہیں ہوسکتی.... اور اگر وہ ہونا بھی چاہے تو اسکی بالائی اور ذیلی جماعتیں ایسا ہونے نہیں دیگی ... ابھی کل ہی وہ سابق بی جے پی عزت مآب وزیر قانون سبرامنیم سوامی ، اپنی مکروہ مسکراہٹ لئے مسلمانوں کے خلاف اول فول فرما رہے تھے، سابق وزیر قانون کے تیور ہمیشہ یہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے قانون کی دیوی کو گھر کی لونڈی بنا رکھا ہے .....بابری مسجد کے علاوہ دیگر مساجد کے سودے کی بات کر رہے تھے، کل ہمارے سجدوں کا سودا کریں گے جناب ...جبکہ مسلمان کے گریباں کا ایک تار بھی نہیں خریدسکتے بے چارے .....
بقراط نے کہا حضور، ہمارے تعلیمی اداروں کو جنہیں قوم نے خون جگر سے سینچا تھا ، انہیں زہریلے رنگ میں رنگنے کی بات بھی بی جے پی کے شدت پسند اداروں میں ہورہی ہے.... شہر ممبئی میں اسماعیل یوسف کالج دیکھتے دیکھتے ہی کانگریس کے دور میں ہڑپ کر لیا گیا ... اور اب بی جے پی کے دور میں شہدے علیگڈھ سے ہماری شناخت ختم کرنا چاہ رہے ہیں .....بلکہ یہ تو ہندوستان سے ہماری شناخت ختم کرنے کے در پہ ہیں ..ہمارے اداروں پر ناجائز قبضہ کر ہمارے تعلیمی عروج پر روک لگانا چاہ رہے ہیں، دوسری طرف جھوٹے مقدموں میں علما، اساتذ ہ ، اور تعلیم یافتہ مسلمانوں کو پھنسا کر ترقی کے راستے بند کررہے ہیں، تیسری طرف خود ساختہ دہشت گردی میں پھنسی عالمی معیشت کا ٹھیکرا اسلام اور جملہ مسلمانوں کے سر پھوڑ کر انہیں ذہنی تناؤ میں مبتلا رکھنے کی سازش رچی جا رہی ہے، چوتھی طرف رواداری کی پگھلتی وینیلا دکھا کر گنے چنے "سیوڈو سیکولر" مسلمانوں کو رجھایا جارہا ہے، جو بے چارے سمجھ نہیں پارہے ہیں کہ ایمان میں بے یقینی ہے، یا یقین میں بے ایمانی .....تقریر میں شعلہ بیانی پر اعتراض کر مقرر اور سامعین کو خائف کردیا گیا ہے اور پھر اب تحریر میں شعلہ بیانی پر قاری اور محرر کو.. ..اب آگ کو آگ کہنے سے آگ تو نہیں لگ جاتی ....بلآخر مسلمان بھی اب جمہوریت کی صلیب اٹھا ئے گھوم رہا ہے .. بقراط نے کہا حضور، اہل مغرب نے دہشت گردی کے نام پر عالمی معیشت کو یرغمال بنا رکھا ہے ، اور یہ بیچاری بوڑھی گھوڑی لال لگام اپنے کاغذی زیورات پر نازاں آخر کیا کرتی ... Stockholm Syndrome.."اسٹاک ھوم سینڈروم " کا شکار ہوگئی .... ہم نے ہونقوں کی طرح شیفتہ اور بقراط کا منہ دیکھا ...... شیفتہ نے فرمایا ، ادب کی زبان میں کہا جا ئے تو....صیاد سے الفت ہوئی ہے بلبل کو ... بے چاری کیا کرتی، دوسری عالمی جنگ کے بعد سے یرغمال ہے .... اور یہی اصطلاح ان اسیران تہذیب پر بھی ثابت آتی ہے جنہیں قانون فطرت منہ مارنے اور ڈنڈی مارنے نہیں دیتا، او رجن میں کیا مغربی اور کیا مشرقی ، کیا عربی اور کیا عجمی ، کیا ایرانی اور کیا تورانی، کیا ہندوستانی اور کیا پاکستانی ....یہ سب صیہونی معاشی نظام کے ہاتھوں یرغمال ہیں اور اب "اسٹاک ھوم سینڈروم " کے شکار ہیں .....کیوں نہ ہو بھلا، اسٹاک بھی انکا ، ھوم بھی اور سینڈروم بھی....
فرمایا، ہمیں پتا تھا کہ بی جے پی نےسیاسی شہدے بھی پال رکھے ہیں، لیکن یہ نہیں پتا تھا کہ ہماری قوم کے غدار ہماری شناخت کا سودا کریں گے... ایک احساس باقی تھا جو اہل فکر و قلم کو ہمیشہ رہتا ہے...اماں..اب تجدید وفا کا کوئی امکاں باقی نہیں بچا ہے ... بلکہ .. اب کی بار مقتل میں بہ طرز دیگر جانا چاہیے، کیونکہ ..ہمیشہ مسلمان کا لہو اسکی ایڑیوں پر گرا ہے ...وہ کب تک یہ کہے گا کہ بیلچے لاؤ! کھودو قبر، میں کہاں ہوں..کچھ پتا تو چلے ...اور کب تک رب سے احتجاج کرتا رہے گا کہ ... ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا؟.. ...کب تک باطل کے سامنے مثل حباب آبجو رہے گا ، جبکہ اسے خالق حقیقی کے سامنے یوں رہنا زیب دیتا ہے ....ملک عزیز ہو یا ملک غریب...شاعر بہت پہلے کہہ گیا کہ .....رلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستاں مجھکو ... کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں ...لیکن پھر یہ بھی آس دلا گیا ہے کہ .....آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش..... اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جا ئے گی....آملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک ....بزم گل کی ہم نفس بادصبا ہو جائے گی .....
--
زبیر حسن شیخ
شیفتہ آج چمن میں بقراط پر بے حد ناراض دکھا ئی دے رہے تھے...ہمیں دیکھتے ہی فرمانے لگے..... حضور ، قیامت کے نامے میرے نام آئے ہیں.....پتہ نہیں کیسا دور ہے کہ اب لوگ باگ موبائیل پر عجیب و غریب علامتیں ارسال کردیتے ہیں ......مرزا ہوتے تو کچھ سمجھتے بھی کہ وہ علائم اور اشاروں کے ماہر تھے.... اہل ادب بھلے دیر سے ہی سہی انکا مدعا سمجھ جاتے تھے... تہذیب جدیدہ میں پیام رسانی کے عجیب و غریب وسائل ہیں....عجیب نقشِ گستاخی ہے، پتہ نہیں کس کی شوخیء تحریر کا ہے......ایک وہ چہروں سے سجی محفل کیا کم تھی جسے دیکھ دیکھ کر نئی نسل کہے پھرتی ہے کہ .. جب سے آنکھ لگی ' اس منہ' سے رنگ میرا مہ تابی ہے.....اب ایک اور چلتی پھرتی محفل سجی ہے اور عنوان کچھ اس طرح معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی کہے "کیا ہورہا ہے! یہاں آو بتاو سب کو !"..اور بس اسی پر سوار ہوکر اب ہر کوئی پیام رسانی کررہا ہے .. ہجر میں اوروصل میں بھی .... اوراشاروں اور علامتوں سے بتا بھی رہا ہے.. .ہم نے پوچھا حضور کیا آپ سے "وہاٹس اپ". پر کسی نے کچھ کہہ دیا ہے .. فرمایا .. حضور، کہے سو کہے لیکن وہ تو کچھ کر کے بتا رہا تھا ..... چھوٹی چھوٹی تصویریں ارسال کردی کمبخت نے.... ایک تصویر میں ایک آنکھ بند اور زبان باہر، دوسری میں ٹھینگا دکھا رہا تھا ، اور تیسری میں ہتھیلی پر پھونک مار رہا تھا ..... اب اسے کیا سمجھیں کہ کیا کہہ رہا ہے، اور کیا کررہا ہے... وہ تو اچھا ہوا اسے چار چار کی اجازت کا علم نہ تھا.. پتا نہیں چوتھی کیسی ہوتی .....ہمیں تو مرزا کا وہ نازیبا کلام یاد آگیا جو ایام غفلت میں انہوں نے لکھا تھا ، بلکل آوردن تھا... اور جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ ....اسکو بتا کہ یوں، اسکو بتا کہ یوں...ہم آج تک نہ ہی وہ علائم سمجھ سکے اور نہ ہی وہ عزائم .....ویسے لیلا ئٰے تہذیب میں زبان لٹکانا اور اور آنکھ دبانا غیر انسانی حرکات و سکنات میں شمار ہوتا تھا ، اور مذاق میں بھی انگلیوں کا استعمال غیر مردوں کا عمل سمجھا جاتا تھا ...... آج مرزا زندہ ہوتے تو گنجینۂ معنی میں علامتوں کو ضرور شامل کرتے ... فی الحقیقت انہیں اوروں کی طرح ترازو کی محتاجی کبھی تھی ہی نہیں.. ویسے بھی وہ ہاتھوں کو جنبش نہیں دے پاتے ...بس آنکھوں میں دم تھا اور اسی کے دم سے آمدن تھی، اور وہ بھی بنی بنائی اور نپی تلی آمدن .... فن عروض کے پیمانے تخلیق کرتی آمدن...... انکے لئے بے حد آسان ہوتا دور جدید کی ان علامتوں کو غزل میں پرونا.... خیر...... اب گیا وہ "رفت و بود"، اب کہاں "چراغ و دود" ...جو غزل کی رکھ حدود ، دے کلام معجزانہ ...
فرمایا، کمبخت بقراط سے ہم یہی پوچھ رہے تھے کہ اس نے ہمارے برقی قاصد کا اتا پتا کس کس کو دیا اور کیوں دیا ہے ؟.... بقراط نے کہا حضور ہم نے آپ ہی کےکہنے پر بی جے پی کی ایک برقی محفل میں آپ کو شامل کردیا تھا..... آپ ہی ان سے روابط روا رکھنے پر زور دے رہے تھے ... حالات کے تحت خود کو بدلنے پر زور دے رہے تھے.... بس آپ جیسے کسی نیم جان مسلمان کی ادا ہی انکے لئے کافی تھی.....بھیج دیا انہوں نے برقی پیام مع تصویر بتاں ، وہ قیامت کے نامے اور وہ علائم .... اب سلسلہ جنبانی شروع ہوا ہے تو پیامات آتے رہیں گے نا..... حضور آپ جیسے مسلمانوں کا یہ حال ہے بقول شاعر کہ ... نہ تلطف، نہ محبت نہ مروت نہ وفا.......سادگی دیکھ، کہ اس پر بھی لگا جاتا ہوں....فرمایا ....اماں اتنی بے غیرتی سے تو ہم نے رنجشیں بھی نہیں کی ہیں، دشمنی بھی کی ہے تو ایمانداری سے کی ہے......الغرض ہمیں احساس تو تھا کہ بی جے پی کبھی مسلمانوں کی نہیں ہوسکتی.... اور اگر وہ ہونا بھی چاہے تو اسکی بالائی اور ذیلی جماعتیں ایسا ہونے نہیں دیگی ... ابھی کل ہی وہ سابق بی جے پی عزت مآب وزیر قانون سبرامنیم سوامی ، اپنی مکروہ مسکراہٹ لئے مسلمانوں کے خلاف اول فول فرما رہے تھے، سابق وزیر قانون کے تیور ہمیشہ یہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے قانون کی دیوی کو گھر کی لونڈی بنا رکھا ہے .....بابری مسجد کے علاوہ دیگر مساجد کے سودے کی بات کر رہے تھے، کل ہمارے سجدوں کا سودا کریں گے جناب ...جبکہ مسلمان کے گریباں کا ایک تار بھی نہیں خریدسکتے بے چارے .....
بقراط نے کہا حضور، ہمارے تعلیمی اداروں کو جنہیں قوم نے خون جگر سے سینچا تھا ، انہیں زہریلے رنگ میں رنگنے کی بات بھی بی جے پی کے شدت پسند اداروں میں ہورہی ہے.... شہر ممبئی میں اسماعیل یوسف کالج دیکھتے دیکھتے ہی کانگریس کے دور میں ہڑپ کر لیا گیا ... اور اب بی جے پی کے دور میں شہدے علیگڈھ سے ہماری شناخت ختم کرنا چاہ رہے ہیں .....بلکہ یہ تو ہندوستان سے ہماری شناخت ختم کرنے کے در پہ ہیں ..ہمارے اداروں پر ناجائز قبضہ کر ہمارے تعلیمی عروج پر روک لگانا چاہ رہے ہیں، دوسری طرف جھوٹے مقدموں میں علما، اساتذ ہ ، اور تعلیم یافتہ مسلمانوں کو پھنسا کر ترقی کے راستے بند کررہے ہیں، تیسری طرف خود ساختہ دہشت گردی میں پھنسی عالمی معیشت کا ٹھیکرا اسلام اور جملہ مسلمانوں کے سر پھوڑ کر انہیں ذہنی تناؤ میں مبتلا رکھنے کی سازش رچی جا رہی ہے، چوتھی طرف رواداری کی پگھلتی وینیلا دکھا کر گنے چنے "سیوڈو سیکولر" مسلمانوں کو رجھایا جارہا ہے، جو بے چارے سمجھ نہیں پارہے ہیں کہ ایمان میں بے یقینی ہے، یا یقین میں بے ایمانی .....تقریر میں شعلہ بیانی پر اعتراض کر مقرر اور سامعین کو خائف کردیا گیا ہے اور پھر اب تحریر میں شعلہ بیانی پر قاری اور محرر کو.. ..اب آگ کو آگ کہنے سے آگ تو نہیں لگ جاتی ....بلآخر مسلمان بھی اب جمہوریت کی صلیب اٹھا ئے گھوم رہا ہے .. بقراط نے کہا حضور، اہل مغرب نے دہشت گردی کے نام پر عالمی معیشت کو یرغمال بنا رکھا ہے ، اور یہ بیچاری بوڑھی گھوڑی لال لگام اپنے کاغذی زیورات پر نازاں آخر کیا کرتی ... Stockholm Syndrome.."اسٹاک ھوم سینڈروم " کا شکار ہوگئی .... ہم نے ہونقوں کی طرح شیفتہ اور بقراط کا منہ دیکھا ...... شیفتہ نے فرمایا ، ادب کی زبان میں کہا جا ئے تو....صیاد سے الفت ہوئی ہے بلبل کو ... بے چاری کیا کرتی، دوسری عالمی جنگ کے بعد سے یرغمال ہے .... اور یہی اصطلاح ان اسیران تہذیب پر بھی ثابت آتی ہے جنہیں قانون فطرت منہ مارنے اور ڈنڈی مارنے نہیں دیتا، او رجن میں کیا مغربی اور کیا مشرقی ، کیا عربی اور کیا عجمی ، کیا ایرانی اور کیا تورانی، کیا ہندوستانی اور کیا پاکستانی ....یہ سب صیہونی معاشی نظام کے ہاتھوں یرغمال ہیں اور اب "اسٹاک ھوم سینڈروم " کے شکار ہیں .....کیوں نہ ہو بھلا، اسٹاک بھی انکا ، ھوم بھی اور سینڈروم بھی....
فرمایا، ہمیں پتا تھا کہ بی جے پی نےسیاسی شہدے بھی پال رکھے ہیں، لیکن یہ نہیں پتا تھا کہ ہماری قوم کے غدار ہماری شناخت کا سودا کریں گے... ایک احساس باقی تھا جو اہل فکر و قلم کو ہمیشہ رہتا ہے...اماں..اب تجدید وفا کا کوئی امکاں باقی نہیں بچا ہے ... بلکہ .. اب کی بار مقتل میں بہ طرز دیگر جانا چاہیے، کیونکہ ..ہمیشہ مسلمان کا لہو اسکی ایڑیوں پر گرا ہے ...وہ کب تک یہ کہے گا کہ بیلچے لاؤ! کھودو قبر، میں کہاں ہوں..کچھ پتا تو چلے ...اور کب تک رب سے احتجاج کرتا رہے گا کہ ... ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا؟.. ...کب تک باطل کے سامنے مثل حباب آبجو رہے گا ، جبکہ اسے خالق حقیقی کے سامنے یوں رہنا زیب دیتا ہے ....ملک عزیز ہو یا ملک غریب...شاعر بہت پہلے کہہ گیا کہ .....رلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستاں مجھکو ... کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں ...لیکن پھر یہ بھی آس دلا گیا ہے کہ .....آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش..... اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جا ئے گی....آملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک ....بزم گل کی ہم نفس بادصبا ہو جائے گی .....
--