دوہے
جیون رس کو چاہیے دریا جیسی آس
اک قطرے سے کیا بجھے صحرا جیس پیاس
ہم سے رہا نہ جائے گا سچائی سے دور
زخموں سے کر دیجیے چاہے تن من چُور
دریا بہتا جائے ہے، سنیے راگ بہاگ
صحرا سے کیا پائیے جس میں ہر سو آگ
گارا سدا گارا ہی رہے، صدیوں گھومے چاک
ہاتھ نہ لاگیں جب تلک ہیں جو ہنر میں طاق
شاہین فصیح ربانی