بھو کہ آد می کتنی دیر میں مر جاتا ہے
Posted: Thu Jan 28, 2016 8:59 pm
بھوکا آدمی کتنی دیر میں مرجاتا ہے
گل بخشالوی
اذانِ فجر کےساتھ ہی آنکھ کھُلی ، مسجد کے حجرے میں اپنا بستر لپٹ کر وضو خانے آیا ،تومسجد کے خادم نے کہا گل زمان مسجد کی صفائی دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی ،میں سمجھتا ہوں تمہیں مسجد کے حجرے میں رہنے کیلئے جگہ دے کر میں نے کوئی غلطی نہیں کی،واقعی تم مومن اور صاحب کردار انسان ہو۔
گل زمان نے کہا عبداللہ کا کاجی آپ کا احسان اور میری خوشی بختی ہے کہ کراچی جیسے معروف اور گنجان آبادشہر میں مجھ مسافر کو اللہ کے گھر میں آپ نے رہنے کیلئے جگہ دی ۔مسجد کی صفائی تو میرا سجدہ شکر ہے اللہ کے سوا کراچی میں میرا کون ہے ۔مزدوری کیلئے آیا ہوں ۔دن بھر مزدوری کے بعد شام کو جب حجرے میں آتاہوں تو دن بھر کی تھکاوٹ دور ہوجاتی ہے ۔
ہاں بیٹا !آج کے دور میں یہی ایک ایسی جگہ ہے جہاں ذہنی سکون ملتاہے عبداللہ نے کہا ہاں کا کاجی لیکن دہشت گردوں نے امن وسکون کے گہوارے اللہ کے گھر کو ہی نشانہ بنایا ہوا ہے ۔خود کو مسلمان بھی کہتے ہیں نفاذ شریعت کے دعویدار بھی ہیں اور معصوم مسلمانوں ہی کا قتل عام کررہے ہیں۔
عبداللہ نے کہا ،ہاں بیٹا!آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں لیکن میں نہیں سمجھتا کہ یہ لوگ مسلمان ہیں اگر ہیں بھی تو بھٹک گئے ہیں مسلمان دشمن قوتوں کے آلہ کار بن کر عاقبت کو بھول گئے ہیں ۔ایک وقت تھا جب مغربی ممالک میں قرآن کاایک سپارہ شہیدکر دیا جاتا،تو مسلمان سراپا احتجاج ہوئے لیکن آج اللہ کے گھر میں اللہ کو سجدہ ریز اللہ کے معصوم بندوں کےساتھ قرآن مجید شہید ہورہے ہیں اور عالم اسلام دہشت گردوں کیخدمت تک محدود ہوکر رہ گیا ہے
اچھا گل زمان آپ وضو کرلیں ،میں کچھ دیر تلاوت کر لیتا ہوں یہ رونا تو ا ب ہمارا مقدر لگتا ہے ۔
ہاں کا کاجی !اللہ ہی ہم پر رحم کرے گل زمان یہ کہتے ہوئے وضوخانے چلا گیا نماز فجر کے بعد حسب معمول گل زمان اپنی سائیکل پر چونا بھگونے والی بالٹی میں سفیدی کا دوسرا سامان رکھ کر صدر چوک چلا گیا ۔جیسے جیسے سحر کی روشنی پھیلتی گئی کئی ایک ایسے دوسرے مزدور آتے گئے اور فٹ پاتھ پر بیٹھتے گئے ۔یہ سب دیہاڑی دار مزدور تھے ۔
بڑے شہروں میں عام طور پر گھروں میں سفیدی یا دوسرے ایسے چھوٹے چھوٹے کاموں کیلئے لوگ آکر ایسے مزدوروں کو روز مرہ دیہاڑی پر کام کیلئے لے جاتے ہیں۔جیسے ہی ان کے قریب کوئی گاڑی رکتی ہے تو یہ دیہاڑی دار مزدور اُس کی طرف ایسے لپکتے ہیں جیسے بھوکے خیرات کی روٹی کیلئے۔
سورج اُفق سے بلند ہو کر سر پہ آنے لگا تھا لیکن صدر چوک سنسان تھا ۔گل زمان اپنے ساتھی مزدور خانی زمان سے کہنے لگا ،لگتا ہے آج پھر پسینہ جام ہے خانی زمان نے کہا ،لگتا تو ایسے ہی ہے ۔آج پھر دیہاڑی نہیں لگے گی ۔پندرہ بیس مزدوروں کے درمیان بیٹھا ہوا بزرگ حمید گل بابا اچانک بلک بلک کر رونے لگا مزدور اُس کے گرد جمع ہوگئے ۔ہر زبان پر ایک ہی سوال تھا کیا ہوا حمید بابا؟
وہ روئے جارہا تھا ۔جھریوں بھرے چہرے پر ڈاڑھی کے سفید بالوں پر سے آنسو ایسے کر رہے تھے جیسے برساتے ہیں نیم کے زرد پتوں پر سے پانی کے قطرے ۔
حمید بابا کی ہچکی تھمی تو کہنے لگا پانچواں دن ہے ۔کوئی دیہاڑی نہیں لگی ۔کبھی شٹر ڈاﺅ ن ہرتال ہے تو کبھی پہیہ جام ۔کبھی جلوس ہے تو کبھی دھرنا ۔گھر میں کھانے کےلئے کچھ نہیں بجے رات کو بھوکے سوگئے تھے ۔آج بھی خالی ہاتھ جاﺅں گا تو بچوں کو کیا منہ دکھاﺅں گا ۔ان ظالم خود پرست ،سرمایا دار سیاستدانوں اور نام نہاد سہی قائدین کو کیا معلوم کہ ہم یومیہ مزدوروں کے گھروں میں بھوک کیسے تڑپتی ہے ۔سادات محمدی اور مزدوروں کے حقوق کا نعرہ لگانے والے تو قومی دولت لوٹ کر شاہی زندگی گزاررہے ہیں انہیں کیا معلوم کہ ہم مزدوروں پر زندگی کا بوجھ کس قدر بھاری ہے ۔
گل زمان نے کہا ،بابا ہمارے لئے صرف خدا ہے ۔ہڑتال کی کال دینے والے جلوسوں میں شاہراہوں پر مارچ اور دھرنے دینے والے لیڈر کیا جانیں کہ وہ کرسی کیلئے قوم کو کس اذیت سے دو چار کرتے ہیں ۔بچے سکول ،سرکاری ،غیر سرکاری ملازم کام پر نہیں پہنچ پاتے مرہ کی زندگی جام ہوجاتی ہے مریض ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ دیتے ہیں اور ہم جیسے مزدور گھروں میں ناچتی بھوک کےساتھ ان لیڈروں کا ماتم کررہے ہوتے ہیں۔
فانی زمان کہنے لگا ،گل زمان یہ رونا تو ہم روز روتے ہیں۔پہلے حمید گل بابا کے بھوکے ہوں کا سوچو ،یہ کہتے ہوئے حکانی زمان نے جیب سے خاکی کاغذ کا لفافہ نکالا اور اُس میں سے دو روپے نکال کر دوسرے مزدور ساتھیوں کی طرف دیکھنے لگا۔
سب مزوروں کے ہاتھ اپنی اپنی جیبوں کی تلاشی لینے لگے۔گل زمان نے دوسرے کھانے کیلئے 4چپاتیوں اور ایک پیالہ دال کیلئے نیفے میں رکھے پانچ روپے نکال کر اُن میں دو روپے خانی زمان کو دے دئےے ۔فٹ پاتھ پر بیٹھے سب مزدوروں نے مل کر 23روپے حمید گل بابا کو دئےے تو وہ اپنے آنسو ضبط نہ کر سکا اور ایک ٹھنڈی آہ بھر کر آسمان کی طرف دیکھنے لگا۔
پہیہ جام کی وجہ سے سب مزدور اپنی اپنی راہ ہولےے ۔گل زمان سقے کھانے والے ہوٹل میں جا کر لائن میں کھڑا ہو گیا ۔اُس سے آگے ایک خوش شکل نوجوان تھا۔جو شکل وصورت سے سوات کا لگ رہا تھا تین افراد آگے لائن میںکھڑا شخص اپنی باری آنے پر ہوٹل کے مالک سے کہنے لگا ۔آج پھر پہیہ جام ہے کل آپ کو دیہاڑی لگا کر تین سوروپے دے دونگا ۔آج میرے پاس پیسے نہیں ہیں ۔مجھے سخت بھوک لگی ہے دوچپاتیاں اور دال کا ایک پیالہ دے دیں ۔
ہوٹل کے مالک نے کہا ۔کل کے مردے کل دفن کریں گے ۔آج نقد کل ادھار ۔
بھوکے مزدور کو کھانا نہیں ملا ۔تو اُس کی آنکھوں میں بھوک کے آنسو تیرنے لگے اور خاموشی سے لائن سے نکل کر چلا گیا ۔گل زمان کے آگے کھڑا نوجوان لائن سے نکل کر ایک طرف سینے پر ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوگیا گلزمان نے اپنی باری آنے پر دو چپاتیاں اور دال کی پیالی کے تین روپے دئےے اور کھانا لے کر فٹ پاتھ کےساتھ رکھے ،بینچ پر بیٹھ گیا ۔جہاں دوسرے کئی لوگ بیٹھے کھانا کھارہے تھے ، لیکن کسی نے اُس نوجوان پر کوئی توجہ نہیں دی ۔گل زین نے اُس کی طرف دیکھا تو نوجوان اُس کی طرف آیا اور مسکراتے ہوئے گل زمان سے سوال کیا ۔
٭ بھوکا آدمی کتنی دیر میں مرجاتا ہے
٭ کیا گل زمان نے سوال پر سوال کر دیا
نوجوان نے پھیکی سی مسکراہٹ میں گل زمان سے کہا،کیا میں آپ کےساتھ بیٹھ سکتا ہوں ۔
ہاں ہاں کیوں نہیں ،گل زمان نے چپاتی کی چنگیر اور دال کی پیالی اپنے طرف سرکاتے ہوئے اُسے بیٹھنے کو کہا ۔
نوجوان نے بیٹھتے ہوئے کہا ،دال کی خوشبو سے پتہ چلتا ہے کہ بڑی لذیز ہے ،گل زمان نے جواب دیتے ہوئے کہا ،ہاں پانی کے تڑکے میں پکی ہوئی دال سے ایسی ہی خوشبو آتی ہے۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھا By the wayبھوکا آدمی کتنی دیر میں مر جاتا ہے ۔By the wayگل زمان اُس کی طرف دیکھنے لگا۔
ہاں ،دراصل میں سوات کے ایک کالج میں انگریزی کا پروفیسر تھا ۔حالات کا تو آپ کا پتہ ہے کہ سوات کے رئیس آج کل فقیروںکی سی زندگی مہاجر کیمپوں میں گزار رہے ہیں ،میں بھی اُن میں سے ایک ہوں ۔مہاجر کیمپ میں ہم فقیروںکو روٹی مل جاتی ہے لیکن صرف روٹی ہی تو زندگی کی ضرورت نہیں ۔اس لےے میں شہر کی طرف آلگتا ہوں کہ کہیں مزدو مل جائے اور دو چار روپے کمالوں ،لیکن آج پھر پہیہ جام ہے چلو چھوڑیں اس بات کو آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔
کس سوال کا ۔گل زمان کہنے لگا ۔
یہی کہ بھوکا آدمی کتنی دیر میں مر جاتا ہے ،نوجوان نے اپنا سوال دہر ایا
کس بھوک کی بات کرتے ہو ،ہوس کی یا حرص کی ،گل زمان نے پوچھا
نوجوان نے ہنستے ہوئے پیٹ پر ہاتھ پھیرا،نہیں میں اس کی بھوک کی بات کررہا ہوں گل زمان نے کہا ،پیٹ کا بھوکا کبھی نہیں مرتا ۔ضروری تو نہیں کہ روٹی ہی کھائی جائے اور بھی تو کچھ کھایا جاسکتا ہے ۔
نوجوان کہنے لگا ،جانتا ہوں ۔کچھ اور کھانے کیلئے بھی تو پیسے کی ضرورت ہوتی ہے نا،چلو چھوڑیں اس بات کو ،آپ کھانا کھائیں آپکو بھی تو بھوک لگی ہوگی ۔نوجوان نے کہا کوئی بات نہیں کھالوں گا ۔گل زمان کہنے لگا اور کچھ کھانے کیلئے پیسوں کی ضرورت نہیں ہوتی ۔
وہ کیا ،نوجوان نے پوچھا ؟
گل زمان کہنے لگا ،میں جب نیا نیا کراچی آیا تو ایک دن کا م نہ ملنے کی وجہ سے بھوک نے بڑ ا پریشان کیا ۔جیب خالی تھی ۔تو بازار میں ایک ریڑھی والے کے پاس جاکھڑا ہوا ،وہ کھیرے چھیل چھیل کر بیچ رہا تھا ۔میں نے اُس سے کہا میں فارغ کھڑا ہوں ،آپ کی مدد کردوں ،اندھے کو کیا چاہےے دو آنکھیں ۔ریڑھی والے نے کھیروں کی ٹوکری اور چھری آگے کردی ۔میری بھوک چمکنے لگی تھی۔
چند ہی منٹوں میں اُس کی ضرورت کے مطابق کھیرے چھیل کر دیدے ۔تو اُس نے مزدوری میں مجھے دو کھیرے دے دئےے ۔میں نے کہا ،اگر آپ کہیں تو یہ چھلکے بھی پھینک آﺅں ۔ریڑھی والے نے خوش ہو کر کھیرے کے چھلکے پلاسٹک کے لفافے میں ڈال دئےے ۔میں تھیلا لے کر قریب ہی کھیل کے میدان میں آیا اور خوب پیٹ بھر کے چھلکے کھالےے ۔
نوجوان نے کہا ،اُس دن شاید پہیہ جا م ہڑتال نہیں تھی ۔گل زمان نے بھی ایسے ہی کیا تھا ۔آپ نے کھیرے کے چھلکے کھائے اور میں نے سیب کے۔میں نے جوس نکالنے والے کی مدد کیلئے اُس کے پاس جمع شدہ چھلکے پھینکنے کیلئے کہا تھا ۔
گل زمان کہنے لگا ۔ہاں اُس دن پہیہ جام نہیں تھا ۔
اس لےے تو کہہ رہا ہوں ،آپ خوش نصیب تھے میری طرح پہیہ جام ہڑتال اُس دن بھی نہیں تھی جب میں نے چھلکے کھائے تھے ۔نوجوان نے ہنستے ہوئے کہا ۔آپ کھانا کھائیں دال ٹھنڈی ہورہی ہے ۔میرے سوال کا جواب بعد میں دے دینا ۔نوجوان نے کہا ۔
گل زمان نے پوچھا ،کیا ؟
یہی کہ بھوکا آدمی کتنی دیر میں مر جاتا ہے ،نوجوان نے کہا
آپ بار بار یہ سوال کیوں دہرارہے ہیں ،گل زمان نے سوال کیا ۔
اس لےے کہ مجھے بھوک لگی ہے ،نوجوان آنکھوں میں آنسو چمکنے لگے تھے ۔
گل زمان نے دو چپاتیوں میں ایک اُسے پکڑاتے ہوئے دال کی پیالی اُس کی طر سرکادی ۔
٭٭٭٭
گل بخشالوی
اذانِ فجر کےساتھ ہی آنکھ کھُلی ، مسجد کے حجرے میں اپنا بستر لپٹ کر وضو خانے آیا ،تومسجد کے خادم نے کہا گل زمان مسجد کی صفائی دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی ،میں سمجھتا ہوں تمہیں مسجد کے حجرے میں رہنے کیلئے جگہ دے کر میں نے کوئی غلطی نہیں کی،واقعی تم مومن اور صاحب کردار انسان ہو۔
گل زمان نے کہا عبداللہ کا کاجی آپ کا احسان اور میری خوشی بختی ہے کہ کراچی جیسے معروف اور گنجان آبادشہر میں مجھ مسافر کو اللہ کے گھر میں آپ نے رہنے کیلئے جگہ دی ۔مسجد کی صفائی تو میرا سجدہ شکر ہے اللہ کے سوا کراچی میں میرا کون ہے ۔مزدوری کیلئے آیا ہوں ۔دن بھر مزدوری کے بعد شام کو جب حجرے میں آتاہوں تو دن بھر کی تھکاوٹ دور ہوجاتی ہے ۔
ہاں بیٹا !آج کے دور میں یہی ایک ایسی جگہ ہے جہاں ذہنی سکون ملتاہے عبداللہ نے کہا ہاں کا کاجی لیکن دہشت گردوں نے امن وسکون کے گہوارے اللہ کے گھر کو ہی نشانہ بنایا ہوا ہے ۔خود کو مسلمان بھی کہتے ہیں نفاذ شریعت کے دعویدار بھی ہیں اور معصوم مسلمانوں ہی کا قتل عام کررہے ہیں۔
عبداللہ نے کہا ،ہاں بیٹا!آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں لیکن میں نہیں سمجھتا کہ یہ لوگ مسلمان ہیں اگر ہیں بھی تو بھٹک گئے ہیں مسلمان دشمن قوتوں کے آلہ کار بن کر عاقبت کو بھول گئے ہیں ۔ایک وقت تھا جب مغربی ممالک میں قرآن کاایک سپارہ شہیدکر دیا جاتا،تو مسلمان سراپا احتجاج ہوئے لیکن آج اللہ کے گھر میں اللہ کو سجدہ ریز اللہ کے معصوم بندوں کےساتھ قرآن مجید شہید ہورہے ہیں اور عالم اسلام دہشت گردوں کیخدمت تک محدود ہوکر رہ گیا ہے
اچھا گل زمان آپ وضو کرلیں ،میں کچھ دیر تلاوت کر لیتا ہوں یہ رونا تو ا ب ہمارا مقدر لگتا ہے ۔
ہاں کا کاجی !اللہ ہی ہم پر رحم کرے گل زمان یہ کہتے ہوئے وضوخانے چلا گیا نماز فجر کے بعد حسب معمول گل زمان اپنی سائیکل پر چونا بھگونے والی بالٹی میں سفیدی کا دوسرا سامان رکھ کر صدر چوک چلا گیا ۔جیسے جیسے سحر کی روشنی پھیلتی گئی کئی ایک ایسے دوسرے مزدور آتے گئے اور فٹ پاتھ پر بیٹھتے گئے ۔یہ سب دیہاڑی دار مزدور تھے ۔
بڑے شہروں میں عام طور پر گھروں میں سفیدی یا دوسرے ایسے چھوٹے چھوٹے کاموں کیلئے لوگ آکر ایسے مزدوروں کو روز مرہ دیہاڑی پر کام کیلئے لے جاتے ہیں۔جیسے ہی ان کے قریب کوئی گاڑی رکتی ہے تو یہ دیہاڑی دار مزدور اُس کی طرف ایسے لپکتے ہیں جیسے بھوکے خیرات کی روٹی کیلئے۔
سورج اُفق سے بلند ہو کر سر پہ آنے لگا تھا لیکن صدر چوک سنسان تھا ۔گل زمان اپنے ساتھی مزدور خانی زمان سے کہنے لگا ،لگتا ہے آج پھر پسینہ جام ہے خانی زمان نے کہا ،لگتا تو ایسے ہی ہے ۔آج پھر دیہاڑی نہیں لگے گی ۔پندرہ بیس مزدوروں کے درمیان بیٹھا ہوا بزرگ حمید گل بابا اچانک بلک بلک کر رونے لگا مزدور اُس کے گرد جمع ہوگئے ۔ہر زبان پر ایک ہی سوال تھا کیا ہوا حمید بابا؟
وہ روئے جارہا تھا ۔جھریوں بھرے چہرے پر ڈاڑھی کے سفید بالوں پر سے آنسو ایسے کر رہے تھے جیسے برساتے ہیں نیم کے زرد پتوں پر سے پانی کے قطرے ۔
حمید بابا کی ہچکی تھمی تو کہنے لگا پانچواں دن ہے ۔کوئی دیہاڑی نہیں لگی ۔کبھی شٹر ڈاﺅ ن ہرتال ہے تو کبھی پہیہ جام ۔کبھی جلوس ہے تو کبھی دھرنا ۔گھر میں کھانے کےلئے کچھ نہیں بجے رات کو بھوکے سوگئے تھے ۔آج بھی خالی ہاتھ جاﺅں گا تو بچوں کو کیا منہ دکھاﺅں گا ۔ان ظالم خود پرست ،سرمایا دار سیاستدانوں اور نام نہاد سہی قائدین کو کیا معلوم کہ ہم یومیہ مزدوروں کے گھروں میں بھوک کیسے تڑپتی ہے ۔سادات محمدی اور مزدوروں کے حقوق کا نعرہ لگانے والے تو قومی دولت لوٹ کر شاہی زندگی گزاررہے ہیں انہیں کیا معلوم کہ ہم مزدوروں پر زندگی کا بوجھ کس قدر بھاری ہے ۔
گل زمان نے کہا ،بابا ہمارے لئے صرف خدا ہے ۔ہڑتال کی کال دینے والے جلوسوں میں شاہراہوں پر مارچ اور دھرنے دینے والے لیڈر کیا جانیں کہ وہ کرسی کیلئے قوم کو کس اذیت سے دو چار کرتے ہیں ۔بچے سکول ،سرکاری ،غیر سرکاری ملازم کام پر نہیں پہنچ پاتے مرہ کی زندگی جام ہوجاتی ہے مریض ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ دیتے ہیں اور ہم جیسے مزدور گھروں میں ناچتی بھوک کےساتھ ان لیڈروں کا ماتم کررہے ہوتے ہیں۔
فانی زمان کہنے لگا ،گل زمان یہ رونا تو ہم روز روتے ہیں۔پہلے حمید گل بابا کے بھوکے ہوں کا سوچو ،یہ کہتے ہوئے حکانی زمان نے جیب سے خاکی کاغذ کا لفافہ نکالا اور اُس میں سے دو روپے نکال کر دوسرے مزدور ساتھیوں کی طرف دیکھنے لگا۔
سب مزوروں کے ہاتھ اپنی اپنی جیبوں کی تلاشی لینے لگے۔گل زمان نے دوسرے کھانے کیلئے 4چپاتیوں اور ایک پیالہ دال کیلئے نیفے میں رکھے پانچ روپے نکال کر اُن میں دو روپے خانی زمان کو دے دئےے ۔فٹ پاتھ پر بیٹھے سب مزدوروں نے مل کر 23روپے حمید گل بابا کو دئےے تو وہ اپنے آنسو ضبط نہ کر سکا اور ایک ٹھنڈی آہ بھر کر آسمان کی طرف دیکھنے لگا۔
پہیہ جام کی وجہ سے سب مزدور اپنی اپنی راہ ہولےے ۔گل زمان سقے کھانے والے ہوٹل میں جا کر لائن میں کھڑا ہو گیا ۔اُس سے آگے ایک خوش شکل نوجوان تھا۔جو شکل وصورت سے سوات کا لگ رہا تھا تین افراد آگے لائن میںکھڑا شخص اپنی باری آنے پر ہوٹل کے مالک سے کہنے لگا ۔آج پھر پہیہ جام ہے کل آپ کو دیہاڑی لگا کر تین سوروپے دے دونگا ۔آج میرے پاس پیسے نہیں ہیں ۔مجھے سخت بھوک لگی ہے دوچپاتیاں اور دال کا ایک پیالہ دے دیں ۔
ہوٹل کے مالک نے کہا ۔کل کے مردے کل دفن کریں گے ۔آج نقد کل ادھار ۔
بھوکے مزدور کو کھانا نہیں ملا ۔تو اُس کی آنکھوں میں بھوک کے آنسو تیرنے لگے اور خاموشی سے لائن سے نکل کر چلا گیا ۔گل زمان کے آگے کھڑا نوجوان لائن سے نکل کر ایک طرف سینے پر ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوگیا گلزمان نے اپنی باری آنے پر دو چپاتیاں اور دال کی پیالی کے تین روپے دئےے اور کھانا لے کر فٹ پاتھ کےساتھ رکھے ،بینچ پر بیٹھ گیا ۔جہاں دوسرے کئی لوگ بیٹھے کھانا کھارہے تھے ، لیکن کسی نے اُس نوجوان پر کوئی توجہ نہیں دی ۔گل زین نے اُس کی طرف دیکھا تو نوجوان اُس کی طرف آیا اور مسکراتے ہوئے گل زمان سے سوال کیا ۔
٭ بھوکا آدمی کتنی دیر میں مرجاتا ہے
٭ کیا گل زمان نے سوال پر سوال کر دیا
نوجوان نے پھیکی سی مسکراہٹ میں گل زمان سے کہا،کیا میں آپ کےساتھ بیٹھ سکتا ہوں ۔
ہاں ہاں کیوں نہیں ،گل زمان نے چپاتی کی چنگیر اور دال کی پیالی اپنے طرف سرکاتے ہوئے اُسے بیٹھنے کو کہا ۔
نوجوان نے بیٹھتے ہوئے کہا ،دال کی خوشبو سے پتہ چلتا ہے کہ بڑی لذیز ہے ،گل زمان نے جواب دیتے ہوئے کہا ،ہاں پانی کے تڑکے میں پکی ہوئی دال سے ایسی ہی خوشبو آتی ہے۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھا By the wayبھوکا آدمی کتنی دیر میں مر جاتا ہے ۔By the wayگل زمان اُس کی طرف دیکھنے لگا۔
ہاں ،دراصل میں سوات کے ایک کالج میں انگریزی کا پروفیسر تھا ۔حالات کا تو آپ کا پتہ ہے کہ سوات کے رئیس آج کل فقیروںکی سی زندگی مہاجر کیمپوں میں گزار رہے ہیں ،میں بھی اُن میں سے ایک ہوں ۔مہاجر کیمپ میں ہم فقیروںکو روٹی مل جاتی ہے لیکن صرف روٹی ہی تو زندگی کی ضرورت نہیں ۔اس لےے میں شہر کی طرف آلگتا ہوں کہ کہیں مزدو مل جائے اور دو چار روپے کمالوں ،لیکن آج پھر پہیہ جام ہے چلو چھوڑیں اس بات کو آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔
کس سوال کا ۔گل زمان کہنے لگا ۔
یہی کہ بھوکا آدمی کتنی دیر میں مر جاتا ہے ،نوجوان نے اپنا سوال دہر ایا
کس بھوک کی بات کرتے ہو ،ہوس کی یا حرص کی ،گل زمان نے پوچھا
نوجوان نے ہنستے ہوئے پیٹ پر ہاتھ پھیرا،نہیں میں اس کی بھوک کی بات کررہا ہوں گل زمان نے کہا ،پیٹ کا بھوکا کبھی نہیں مرتا ۔ضروری تو نہیں کہ روٹی ہی کھائی جائے اور بھی تو کچھ کھایا جاسکتا ہے ۔
نوجوان کہنے لگا ،جانتا ہوں ۔کچھ اور کھانے کیلئے بھی تو پیسے کی ضرورت ہوتی ہے نا،چلو چھوڑیں اس بات کو ،آپ کھانا کھائیں آپکو بھی تو بھوک لگی ہوگی ۔نوجوان نے کہا کوئی بات نہیں کھالوں گا ۔گل زمان کہنے لگا اور کچھ کھانے کیلئے پیسوں کی ضرورت نہیں ہوتی ۔
وہ کیا ،نوجوان نے پوچھا ؟
گل زمان کہنے لگا ،میں جب نیا نیا کراچی آیا تو ایک دن کا م نہ ملنے کی وجہ سے بھوک نے بڑ ا پریشان کیا ۔جیب خالی تھی ۔تو بازار میں ایک ریڑھی والے کے پاس جاکھڑا ہوا ،وہ کھیرے چھیل چھیل کر بیچ رہا تھا ۔میں نے اُس سے کہا میں فارغ کھڑا ہوں ،آپ کی مدد کردوں ،اندھے کو کیا چاہےے دو آنکھیں ۔ریڑھی والے نے کھیروں کی ٹوکری اور چھری آگے کردی ۔میری بھوک چمکنے لگی تھی۔
چند ہی منٹوں میں اُس کی ضرورت کے مطابق کھیرے چھیل کر دیدے ۔تو اُس نے مزدوری میں مجھے دو کھیرے دے دئےے ۔میں نے کہا ،اگر آپ کہیں تو یہ چھلکے بھی پھینک آﺅں ۔ریڑھی والے نے خوش ہو کر کھیرے کے چھلکے پلاسٹک کے لفافے میں ڈال دئےے ۔میں تھیلا لے کر قریب ہی کھیل کے میدان میں آیا اور خوب پیٹ بھر کے چھلکے کھالےے ۔
نوجوان نے کہا ،اُس دن شاید پہیہ جا م ہڑتال نہیں تھی ۔گل زمان نے بھی ایسے ہی کیا تھا ۔آپ نے کھیرے کے چھلکے کھائے اور میں نے سیب کے۔میں نے جوس نکالنے والے کی مدد کیلئے اُس کے پاس جمع شدہ چھلکے پھینکنے کیلئے کہا تھا ۔
گل زمان کہنے لگا ۔ہاں اُس دن پہیہ جام نہیں تھا ۔
اس لےے تو کہہ رہا ہوں ،آپ خوش نصیب تھے میری طرح پہیہ جام ہڑتال اُس دن بھی نہیں تھی جب میں نے چھلکے کھائے تھے ۔نوجوان نے ہنستے ہوئے کہا ۔آپ کھانا کھائیں دال ٹھنڈی ہورہی ہے ۔میرے سوال کا جواب بعد میں دے دینا ۔نوجوان نے کہا ۔
گل زمان نے پوچھا ،کیا ؟
یہی کہ بھوکا آدمی کتنی دیر میں مر جاتا ہے ،نوجوان نے کہا
آپ بار بار یہ سوال کیوں دہرارہے ہیں ،گل زمان نے سوال کیا ۔
اس لےے کہ مجھے بھوک لگی ہے ،نوجوان آنکھوں میں آنسو چمکنے لگے تھے ۔
گل زمان نے دو چپاتیوں میں ایک اُسے پکڑاتے ہوئے دال کی پیالی اُس کی طر سرکادی ۔
٭٭٭٭