"پرسہ "
Posted: Sat Jan 30, 2016 2:01 pm
ہ‘‘
راشد اشرف
کراچی سے
اردو قبیلہ ممبرا کے تحت دسمبر 2015 ء میں شائع ہوئی جناب ندیم صدیقی کی کتاب ’’پرسہ‘‘ کا عنوان بھی خوب ہے۔ پیش لفظ میں وہ کہتے ہیں کہ ’’ نہ جانے کیوں یقین سا ہو چلا ہے کہ اس مصروف دور میں وہ حضرات گنتی ہی کے ہوں گے جو پوری کتاب پڑھ کر دم لیں‘‘............
راقم نے سوا چار سو صفحات کی اس ضخیم کتاب کو حرف بہ حرف پڑھا ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ ’’پرسہ‘‘ کتابوں کے انبوہ کثیر میں ایک خوش گوار اور منفرد اضافہ ہے۔ یہ جن بچھڑ جانے والوں کے تذکرے ہیں ان کی کل تعداد چوبیس ہے۔ ایک مختصر مگر دلچسپ سفرنامہ راجھستان اور چند متفرق مضامین و کالم اس کے علاوہ ہیں۔ مگر جن چوبیس اشخاص کے یہ تذکرے ہیں وہ آنسوؤں اور قہقہوں سے پر ہیں۔ آنسو زیادہ اور قہقہے کم۔ راقم کے دیرینہ دوست جناب محمد انیس الدین کا یہ گراں قدر تحفہ کتابوں کے اس پارسل کا حصہ تھا جس میں شامل ایک کتاب ’’میری دلی‘‘ کا مختصر تعارف مع منتخب کردہ اوراق گزشتہ دنوں محفل میں پیش کیا جاچکا ہے۔
ممبئی کے جن دو حضرات سے راقم الحروف کا رابطہ رہتا ہے،اتفاق دیکھیے کہ دونوں ہی صدیقی ہیں۔ ایک جاوید صدیقی دوسرے ندیم صدیقی۔ اول الذکر فلمی صنعت سے وابستہ ہیں اور اپنے شخصی خاکوں کی یادگار کتاب’’ روشن دان‘‘ کے ذریعے ادبی دنیا میں بھی بھرپور قدم رکھ چکے ہیں۔ حال ہی میں روشن دان کا دوسرا حصہ ’’لنگر خانہ‘‘ شائع ہوا ہے۔ ندیم صدیقی ’’اردو ٹائمز‘‘ ممبئی سے وابستہ ہیں۔ قلم کے مزدور ہیں اور اس بات پر انہیں فخر ہے۔ "اردو ٹائمز کا ادبی صفحہ" آپ اور ہم ایک طویل عرصے سے پڑھ رہے ہیں۔ ندیم صدیقی نے "پرسہ" ہمیں نہیں بھیجی، اسے ہم نے خود دریافت کیا، اچھی کتاب کی خوشبو خود بخود پھیلتی ہے، اسے آپ کو کسی کو بھیجنا نہیں پڑتا۔
بات ہورہی تھی پرسہ اور اس میں شامل چوبیس اشخاص کے تذکروں کی۔ ان اشخاص میں شامل چند نام یہ ہیں: خواجہ احمد عباس، ماچس لکھنوی،فنا نظامی، انجم فوق بدایونی، ظ انصاری، آوارہ سلطان پوری، انور ظہیر خان، نوا لکھنوی، خالدعلیگ، خان ارمان، کوثر جائسی، قیصر الجعفری، سردار جوہر، واجدہ تبسم، عاصی جون پوری، نشتر ترکی ۔
یہاں کراچی میں بیٹھ کر انڈیا کی کسی کتاب پر لکھنا اس وقت نہایت آسان ہوتا ہے جب آپ ان شخصیات سے بخوبی واقف ہوں جو اردو ادب کے افق پر جگما تے نظر آتے ہیں۔ گرچہ ظ انصاری، خواجہ احمد عباس اور واجدہ تبسم کو کون نہیں جانتا۔ ان کے نام اور کام دونوں ہی سے سرحد کے اس پار بھی لوگ اچھی طرح واقف ہیں۔ مگر بات جب ٹھہری فنا نظامی، انجم فوق بدایونی، آوارہ سلطان پوری ، خان ارمان اور دیگر تمام ان لوگوں کی جن کے نام درج بالا مذکور ہیں، تب ’’پرسہ‘‘ جیسے کتابوں کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ ان حضرات کے جیتے جاگتے تذکرے اور کہیں ایک ساتھ دیکھنے میں نہیں آتے۔سچ پوچھیے تو کتنے ہی دلچسپ واقعات سے آگاہی حاصل ہوئی، کتنے دکھوں پر سے پردہ اٹھا، انسانی زندگی کی مجبوریاں، قہقہے، آنسو، نشیب و فراز ، سوچ میں تبدیلیاں غرضکہ کتنے ہی واقعات کو ندیم صدیقی نے ’’پرسہ ‘‘ میں ہمارے لیے محفوظ کردیا ہے۔
آئیے چند ایسے اقتباسات دیکھتے ہیں جو حاصل مطالعہ بھی ہیں اور حاصل زیست بھی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مصنف کے دیکھتے ہی دیکھتے خاکے کے پردے میں جا چھپے۔ حافظ شیراز ی سچ ہی تو کہتے ہیں کہ : میری وفات کے بعد میری قبر زمین پر نہ تلاش کرنا ۔میں تو دانش وروں کے سینوں میں دفن ہوں۔ زیر نظر تحریر محض ان دلچسپ تذکروں کا احاطہ کرتی ہے جو راقم الحروف نے کتاب سے اخذ کیے، جوباعثِ انبساط ٹھہرے اور جو زندگی کے اداس اور بوجھل لمحوں کو مسرت سے ہمکنار کرنے کا سب بنے۔ اس دنیا میں کیسے کیسے لوگ گزرے ہیں، کن کن کٹھنائیوں سے گزر کر انہوں نے زیست کی ہے..........اور ایک ہم ہیں کہ اپنی ذات کو اور اپنے گرد و پیش ہی کو مکمل دنیا سمجھتے ہیں۔
مصنف کی پہلی تحریر فنا نظامی کانپوری پر ہے...اسے شخصی خاکہ کہیے ،تذکرہ کہیے .... جو بھی ہے مگر یہ تحریر فنا صاحب کو فنا ہونے سے بچاتی ہے۔لکھتے ہیں: جگر اپنے زمانے کے شرفاء کے ہیرو تھے۔ اچھے اچھے لوگ ان کی میزبانی کو اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتے تھے۔ سیاہ صورت مگر اجلی سیرت۔ ایک مشاعرہ ہورہا تھا۔ جگر کی نقل میں گورے چٹے عارف عباسی بلیاوی سب سے آگے تھے۔ فنا نے ان کی طرف بڑی رشک آمیز نظروں سے دیکھا اور کہ بھائی عارف عباسی! بالکل جگر کی طرح پڑھتے ہو، انہی کی طرح کپڑے پہنتے ہو۔ تمہیں دیکھ کر رشک آتا ہے مگر ایک کمی ہے تم میں۔
عباسی نے مسکراتے ہوئے پوچھا کہ وہ کیا ؟
فنا نے برجستہ کہا: اپنا منہ ہم سے کالا کروا لو۔
فنا کا ایک شعر ہے:
ترک تعلقات کو اک لمحہ چاہیے
لیکن تمام عمر مجھے سوچنا پڑا کیوں۔
اسے پڑھ کر ہمیں معلوم ہوا کہ شعر کی خوشبو کس طرح سرحد کے اس پار پھیلتی ہے اور زمانے گزر جاتے ہیں مگر شاعر کے نام سے ہم لاعلم ہی رہتے تھے۔ راقم کے کالج کے زمانے کی بات ہے، پاکستان کے معروف غزل گائیک آصف علی نے ’’اب کے سال پونم میں جب تو آئے گی ملنے‘‘ کیا گائی، ہر طرف اس کی شہرت پھیل گئی۔ پڑھنے والوں میں سے اکثر کو یاد ہوگا کہ مذکورہ غزل کا آغاز آصف علی نے جن اشعار سے کیا تھا ان میں سے ایک فنا صاحب ہی کا مذکورہ بالا شعر ہے۔ یہ جس غزل کا شعر ہے اس کا مقطع کچھ یوں ہے:
جب میرے راستے میں کوئی مئے کدہ پڑا
مجھ کو خود اپنے غم کی طرف دیکھنا پڑا
فنا نظامی ایک بذلہ سنج انسان تھے، غضب کے جملہ باز۔ایک مرتبہ ٹرین میں وہ دیگر شعرا کے ساتھ سفر کررہے تھے۔ ایک ہمسفر رام پرکاش (فرضی نام) بحث پر آمادہ تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے یہاں جو آواگون کا نظریہ ہے وہ فرضی نہیں ہے، میں خود ایسے کئی لوگوں سے مل چکا ہوں جو اپنے گزشتہ جنم کی روداد سناتے ہیں اور دلیل کے ساتھ۔
بحث طول پکڑ گئی۔ لوگ مان کر نہیں دے رہے تھے۔ اچانک فنا گویا ہوئے: یہ صحیح کہہ رہے ہیں ۔ لوگ حیران ہوئے۔ وہ کیسے ؟
جواب ملا: یہ بے چارے یونہی آتے اور جاتے رہیں گے۔ اس وقت تک انہیں آواگون کی سزا بھگتنی پڑے گی جب تک یہ مسلمان نہیں ہوجاتے۔
ہر حکومت سالانہ بجٹ بڑے دھوم دھام سے پیش کرتی ہے۔ اس موقع پر فنا نظامی کانپوری کا ایک شعر دیکھیے۔ فرماتے ہیں:
روداد فصل گل نہ سنا، تو حساب دے
اے باغباں بتا میرے حصے میں کیا پڑا ؟
**
یوں ماچس لکھنوی کا خاکہ بے حد دلچسپ ہے، کس بات کا ذکر کیجیے اور کس کا نہیں۔مگر موصوف کا ایک شعر ہی ان کے تمام کلام پر حاوی رہے گا۔ کیا عمدہ بات کی ہے، یہ ہر زمانے کی بات ہے
شیخ آئے جو محشر میں اعمال ندارد
جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد
مذکورہ خاکے میں ندیم صدیقی لکھتے ہیں:
’’آفتاب لکھنوی گزشتہ مشاعروں میں طنز و مزاح کی زنجیر کی ایک توانا کڑی تھے۔ وہ اپنے اس شعر کے ساتھ ذہن کے افق پر نصف النہار ہیں
دو چار مولوی جو اندھیرے میں گھیر لیں
نالے میں گھس نہ جائے تو شیطان کیا کرے
اسی طرح حضرت جھنجھٹ لکھنوی بھی کیا خوب کہہ گئے ہیں
کس بلا کا جوشِ وحشت تیرے دیوانے میں ہے
کل ضمانت پر چھٹا تھا آج پھر تھانے میں ہے
سارس لکھن پوری کا یہ شعر ملاحظہ ہو
کیوں نہ محصور کروں آنکھ کی پتلی میں تجھے
دل چرانے کی سزا میں ہے یہ کالا پانی
محمد حنیف حریف فیض آبادی پچاس برس پہلے جو شعر کہہ گئے تھے اسے موجودہ دور کے تناظر میں دیکھیے
اک نہ اک دن گوشت خوری ہند میں ہوگی حرام
آج ہی سے میم کو بھیجے کھلانا چاہیے
**
مولانا انجم فوقی بدایونی کے خاکے میں کتنی ہی باتیں ہیں جو یاد رہ جانے والی ہیں۔ مگر ارشاد انجمی کا ایک شعر ایسا ہے جس کی تازگی کی کیا ہی بات ہے
یوں تو کہنے کو کیا نہیں ہیں آپ
بندہ پرور! خدا نہیں ہیں آپ
یہ شعر ہم اور آپ کتنے موقعوں پر اور کس کس کے لیے استعمال کرسکتے ہیں.....اس کا شمار ہی کیا۔
خاص طور پر ان کے لیے جو
"God of Small Things"
کہلاتے ہیں۔
ایک خوبصورت شعر قاضی سید وصی احمد المعروف آوارہ سلطان پوری کے خاکے میں بھی مرقو م ہے۔ مگر یہ ان کا نہیں بلکہ توقیر زئی کا ہے۔کہتے ہیں
ہائے وہ لوگ جو کم جاگتے ہیں
پھر وہ بادیدہۂ نم جاگتے ہیں
آوارہ صاحب پر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ان کی معاشی صورت حال انتہائی دگرگوں ہوگئی۔ ایک روز ندیم صدیقی ایک مشاعرہ پڑھ کر واپس جارہے تھے کہ آوارہ صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے مصنف سے کہا کہ مشاعرے کا سب سے اچھا شعر سناؤ۔ ندیم صدیقی نے حق بنارسی کا شعر عرض کیا:
تُو تو ہر چہرے کو آئینہ بنا دیتی ہے
اے غریبی ! تیرا رکھیں بھی تو پردہ کیسے
ندیم صدیقی روانی میں شعر تو سنا گئے۔ پھر آوارہ صاحب کی آنکھوں کی نمی دیکھ کر خجل بھی ہوئے۔
ایک موقع پر آوارہ سلطان پوری نے کیا عمدہ بات کہی ۔ ’’ندیم! اچھے شعر کی ایک تعریف یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ سننے والا اگر شاعر ہے تو اس کے ہاں وہ شعر تحریک پیدا کردیتا ہے ۔‘‘
یہ کہا اور پھر مصنف کی فرمائش پر اپنا ایک شعر سنایا جو سننے والے کے ذہن و قلب میں آج بھی تازہ ہے
عشق اس دور خطا ساز میں ممکن ہی نہ تھا
میں بھی حیران ہوں میں نے تجھے چاہا کیسے
**
’’ماضی قریب میں ممبئی کے چند شعرا‘‘ کتاب کا طویل مضمون ہے۔ اس میں مصنف نے ان شعرا کو یاد کیا ہے جن کو لوگ فراموش کرچکے ہیں۔ یہ مضمون بھی قہقہوں اور آنسوؤں سے پر ہے۔ بھنڈی بازار میں وزیر ہوٹل پرشاعروں کا جمگھٹا لگا رہتا تھا۔ ایک مرتبہ بمبئی کے مضافات میں مشاعرے میں شرکت کے لیے شعرا کو منی بس جیسی گاڑی میں لاد کر لے جایا جارہا تھا۔ ایک موقع پر ڈرائیور نے جب گاڑٰی کی رفتار تیز کردی تو کسی نے خوفزدہ ہو کر اسے ٹوکا کہ بھئی ذرا دھیرے چلو، اس میں شعرا کرام بیٹھے ہیں۔ تس پر اس مرد دانا نے ترنت جواب دیا کہ
’’ اماں کیا ہوگا۔ اگر حادثہ ہوگیا تو اور (شعرا کو) بھر کر لے آؤ ں گا وزیر ہوٹل سے۔ ‘‘
مذکورہ مضمون میں کئی اشخاص کے تذکرے ہیں۔ ان میں پرتو لکھنوی ہیں جو اپنی آنکھوں کے علاج کے دوران ڈاکٹر کی سخت ہدایت و تنبیہ کے نتیجے میں پورے تین برس تک دن کی روشنی میں گھرسے نہ نکلے تھے اور اس دوران گھر کے تہ خانے میں رہتے رہے تھے۔ ندیم صدیقی کے ایک مرتبہ یہ پوچھنے پر کہ کیسے مزاج ہیں؟ ان کا چہرہ متغیر ہوگیا اور انہوں نے ناگواری سے جواب دیا کہ میاں! ایک آدمی کا ایک ہی مزاج ہوتا ہے .......کیسے مزاج ہیں ؟ ...چہ معنی ؟
ان میں علامہ آرزؤ لکھنوی کے شاگرد محمود سروش ہیں۔ محمود سروش 10 مارچ 1911 کو بمبئی میں پیدا ہوئے تھے ۔عسرت کا یہ حال تھا کہ اسٹریٹ لائٹ میں پڑھائی کیا کرتے تھے۔ ایک روز شمشان کے پنڈت نے انہیں دیکھا اور شمشان میں لگے بجلی کے کھمبے کی روشنی میں پڑھنے کی پیشکش کی۔ پھر نقشہ یہ ہوتا تھا ایک جانب سروش پڑھائی میں مصروف ہوتے تھے اور دوسری طرف مردے نذر آتش کیے جاتے تھے۔ اعلی تعلیم حاصل کی، ادبی ذوق پایا اور آرزو کے شاگرد ہوئے۔آرزؤ لکھنوی کا ایک جملہ مشہور ہوا تھا کہ میں شاگرد نہیں استاد بناتا ہوں۔ محمود سروش اپنے استا د کی توقع پر پورے اترے تھے۔
بمبئی کے نوا لکھنوی نے ساری زندگی تنگی میں گزاری۔ ان کا ایک شعر مشہور ہوا جس میں ان کی تمام زندگی کی کرب ناک جھلک نظر آتی ہے
زندگی ایسے تشنج میں گزاری ہے نوا
جیسے بھیگے ہوئے کپڑے کو نچوڑا جائے
برہان پور کے محمود رانی کی زندگی بھی بمبئی میں گزری۔ ان کا ایک قطعہ ملاحظہ ہو
اچھا ہوا کہ راہ میں ٹھوکر لگی ہمیں
ہم گر پڑے تو سارا زمانہ سنبھل گیا
چل پھر کے گن رہے تھے مصیبت کے رات دن
دم لینے ہم جو بیٹھ گئے دم نکل گیا
قریش نگر کے نشان صدیقی نے اپنی قبر کا منفرد کتبہ اپنی زندگی ہی میں لکھ دیا تھا
دوانے بھاگ جا دامن کی ساری دھجیاں لے کر
یہاں تار گریباں سے نئی زنجیر بنتی ہے
مضمون مذکورہ میں ندیم صدیقی نے ظریف نظام رام پوری کے دو اشعار درج کیے ہیں، ملاحظہ کیجیے کہ کتنے سادہ پیرائے میں کتنی چابک دستی سے اپنی بات کہی گئی ہے :
کچھ سکوں یوں ہے زندگانی میں
جیسے مچھلی کی نیند پانی میں
نعت کاشعر:
میں اور مجال شعر رسالت مآب پر
شبنم دھری نہ رہ جائے کف آفتاب پر
’’ماضی قریب میں ممبئی کے چند شعرا‘‘ میں ایک جگہ لفظ تشہیر کے استعمال کے بارے میں چند اشعار درج کیے گئے ہیں۔ مگر پہلے یہ سن لیجیے کہ یہ ذکر ملاڈ کے شمس طالب کا ہے جنہوں نے مصنف کی توجہ اس جانب مبذول کرائی تھی۔ ایک روز وہ مصنف سے یوں گویا ہوئے تھے:
’’ ایک لفظ تشہیر آج عام ہے ۔ اس لفظ کو ہمارے بزرگ منفی معنوں میں استعمال کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے جب لکھنو میں یاس یگانہ کی بدنام زمانہ نظم اور اس کے رد عمل کے دوران یہ لفظ ہمارے علم میں آیا تھا جو یوں تھا کہ ’ لکھنؤ میں گدھے پر بٹھا کر یاس یگانہ چنگیزی کی تشہیر کی گئی‘۔ یعنی کسی کو ذلیل و رسوا کرنے کے لیے لفظ تشہیر کا استعمال ہوتا تھا۔ ‘‘
شمس مرحوم نے اپنی بات کی دلیل میں میر کا یہ شعر بھی پڑھا
موئے پر اور بھی کچھ بڑھ گئی رسوائی عاشق کی
کہ اس کی نعش کو اب شہر میں تشہیر کرتے ہیں
ظ انصاری کے خاکے سے چیدہ چیدہ اقتباسات پیش خدمت ہیں :
’’آپ کے سامنے یہ جو ظ انصاری ہے اس نے بھی دسمبر جنوری کی سردی میں جمی ہوئی دال اور کپڑے میں لپٹی ہوئی سوکھی روٹیاں کھا کر پڑھا ہے۔ میرے ایک ماموں زاد بھائی الہ آباد میں رہتے تھے ،میں پڑھائی کے سلسلے میں انہی کے گھر رہتا تھا۔ رات گئے ٹیوشن سے لوٹتا تھا تو برآمدے میں جہاں تال پتری کی آڑ میں میری چارپائی اور لحاف رکھا رہتا تھا بھابھی وہیں میرا کھانا رکھ دیتی تھیں۔ عموما سالن ہو یا دال، شدید ٹھنڈک کے سبب جم جاتی تھی اور چارروناچار وہی کھانا پڑتا تھا۔ یہ سلسلہ ایک مدت تک چلا۔ ‘‘(مصنف سے مخاطب ہو کر)۔
دیوان سنگھ مفتوں ریاست کے مدیر تھے۔ ایک مرتبہ ظ انصاری ان کے پاس ملازمت کی درخواست لے کرگئے۔ مفتوں نے کہا ’’میاں کچھ لکھ کر لائیے۔‘‘
جواں سال ظ انصاری نے کہا کہ میں ابھی کچھ لکھ دوں ؟
مفتوں: وہ دیکھیے سامنے کرسی میز ہے اور قلم اور کاغذ بھی۔ وہیں بیٹھ جائیے اور لکھ لیجئے۔
کچھ دیر بعد ظ انصاری ان کے پاس کچھ لکھ کر لے گئے۔
مفتوں نے تحریر پڑھی اور گویا ہوئے: میاں صاحب زادے۔ آپ بہت اچھے ادیب بن سکتے ہیں۔ بہت اچھے شاعر بن سکتے ہیں مگر صحافی نہیں بن سکتے۔
ظ انصاری نے کہا :سرکار میں چلا جاؤں گامگر یہ فرمائیے کہ صحافی بننے کے لیے کون سے اوصاف درکار ہوتے ہیں۔
دیوان سنگھ مفتوں نے جواب دیا : میاں !یہاں آتے ہوئے جو چڑیا آپ کے سر کے اوپر سے گزری تھی ،آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ وہ کہاں سے آرہی تھی اور کہاں جارہی تھی۔
**
ندیم صدیقی صاحب نے اچھا کیا جو دیوان سنگھ مفتوں اور ظ انصاری سے متعلق یہ تاریخی واقعہ محفوظ کردیا ۔بریکنگ نیوز کی تلاش میں رہنے والے ہمارے صحافیوں کے سیکھنے کے لیے اس میں بہت کچھ ہے۔ خاص کر وہ صحافی جن کو چڑیا کی آمد و رفت کے معاملات کی آگاہی ہو یا نہ ہو، چڑیا کے چال چلن پر ان کی خاص نظر ہوتی ہے۔۔
یکم فروری 1991 کو جب رحمت آباد کے قبرستان میں ظ انصاری کی تدفین ہورہی تھی تو اس موقع پر مجروح سلطان پوری سے نہ رہا گیا اور وہ کہہ اٹھے تھے کہ ’’ ظ انصاری تو منکر نکیر کے سوالوں سے پہلے خود ہی کوئی سوال کر بیٹھیں گے تو کیا جواب بن پڑے گا اس فرشتہ معصوم سے ؟‘‘
**
ندیم صدیقی کا ’’پرسہ‘‘ خوب ہے۔ اچھی کتاب پڑھ کر ہمیشہ سیر چشمی کا احساس ہوتا ہے۔ ایک بات ضرور کھٹکتی ہے۔ پوری کتاب پڑھ جائیے ، تمام خاکے و تذکرے چھان ماریے،مجال ہے کہ کہیں باقر مہدی کا تذکرہ نظر آئے.........کتاب میں صرف ایک جگہ باقر مہدی کا نام ہے اور بس....صرف نام۔ ہم سبھی یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ باقر مہدی مرحوم سے بھارت بلکہ پاکستان کے تمام ادباء و شعراء خوف کھاتے تھے۔ وہ کب کس کی بھد اڑادیں کوئی نہیں جانتا تھا۔ مگر وہ ممبئی کے باسی تھے، ہند کی ایک معروف شخصیت تھے۔ 11 فروری 1927 کو رودولی، بارہ بنکی میں پیدا ہونے والے باقر مہدی کا انتقال ممبئی میں 24 ستمبر 2006 کو ہوا تھا۔ان پر کچھ تو لکھا جانا چاہیے تھا۔
حضور!اب تو باقر مہدی اس دنیا سے جاچکے ہیں،اب ان سے خوف کھانا چہ معنی ؟
راشد اشرف
کراچی سے
اردو قبیلہ ممبرا کے تحت دسمبر 2015 ء میں شائع ہوئی جناب ندیم صدیقی کی کتاب ’’پرسہ‘‘ کا عنوان بھی خوب ہے۔ پیش لفظ میں وہ کہتے ہیں کہ ’’ نہ جانے کیوں یقین سا ہو چلا ہے کہ اس مصروف دور میں وہ حضرات گنتی ہی کے ہوں گے جو پوری کتاب پڑھ کر دم لیں‘‘............
راقم نے سوا چار سو صفحات کی اس ضخیم کتاب کو حرف بہ حرف پڑھا ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ ’’پرسہ‘‘ کتابوں کے انبوہ کثیر میں ایک خوش گوار اور منفرد اضافہ ہے۔ یہ جن بچھڑ جانے والوں کے تذکرے ہیں ان کی کل تعداد چوبیس ہے۔ ایک مختصر مگر دلچسپ سفرنامہ راجھستان اور چند متفرق مضامین و کالم اس کے علاوہ ہیں۔ مگر جن چوبیس اشخاص کے یہ تذکرے ہیں وہ آنسوؤں اور قہقہوں سے پر ہیں۔ آنسو زیادہ اور قہقہے کم۔ راقم کے دیرینہ دوست جناب محمد انیس الدین کا یہ گراں قدر تحفہ کتابوں کے اس پارسل کا حصہ تھا جس میں شامل ایک کتاب ’’میری دلی‘‘ کا مختصر تعارف مع منتخب کردہ اوراق گزشتہ دنوں محفل میں پیش کیا جاچکا ہے۔
ممبئی کے جن دو حضرات سے راقم الحروف کا رابطہ رہتا ہے،اتفاق دیکھیے کہ دونوں ہی صدیقی ہیں۔ ایک جاوید صدیقی دوسرے ندیم صدیقی۔ اول الذکر فلمی صنعت سے وابستہ ہیں اور اپنے شخصی خاکوں کی یادگار کتاب’’ روشن دان‘‘ کے ذریعے ادبی دنیا میں بھی بھرپور قدم رکھ چکے ہیں۔ حال ہی میں روشن دان کا دوسرا حصہ ’’لنگر خانہ‘‘ شائع ہوا ہے۔ ندیم صدیقی ’’اردو ٹائمز‘‘ ممبئی سے وابستہ ہیں۔ قلم کے مزدور ہیں اور اس بات پر انہیں فخر ہے۔ "اردو ٹائمز کا ادبی صفحہ" آپ اور ہم ایک طویل عرصے سے پڑھ رہے ہیں۔ ندیم صدیقی نے "پرسہ" ہمیں نہیں بھیجی، اسے ہم نے خود دریافت کیا، اچھی کتاب کی خوشبو خود بخود پھیلتی ہے، اسے آپ کو کسی کو بھیجنا نہیں پڑتا۔
بات ہورہی تھی پرسہ اور اس میں شامل چوبیس اشخاص کے تذکروں کی۔ ان اشخاص میں شامل چند نام یہ ہیں: خواجہ احمد عباس، ماچس لکھنوی،فنا نظامی، انجم فوق بدایونی، ظ انصاری، آوارہ سلطان پوری، انور ظہیر خان، نوا لکھنوی، خالدعلیگ، خان ارمان، کوثر جائسی، قیصر الجعفری، سردار جوہر، واجدہ تبسم، عاصی جون پوری، نشتر ترکی ۔
یہاں کراچی میں بیٹھ کر انڈیا کی کسی کتاب پر لکھنا اس وقت نہایت آسان ہوتا ہے جب آپ ان شخصیات سے بخوبی واقف ہوں جو اردو ادب کے افق پر جگما تے نظر آتے ہیں۔ گرچہ ظ انصاری، خواجہ احمد عباس اور واجدہ تبسم کو کون نہیں جانتا۔ ان کے نام اور کام دونوں ہی سے سرحد کے اس پار بھی لوگ اچھی طرح واقف ہیں۔ مگر بات جب ٹھہری فنا نظامی، انجم فوق بدایونی، آوارہ سلطان پوری ، خان ارمان اور دیگر تمام ان لوگوں کی جن کے نام درج بالا مذکور ہیں، تب ’’پرسہ‘‘ جیسے کتابوں کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ ان حضرات کے جیتے جاگتے تذکرے اور کہیں ایک ساتھ دیکھنے میں نہیں آتے۔سچ پوچھیے تو کتنے ہی دلچسپ واقعات سے آگاہی حاصل ہوئی، کتنے دکھوں پر سے پردہ اٹھا، انسانی زندگی کی مجبوریاں، قہقہے، آنسو، نشیب و فراز ، سوچ میں تبدیلیاں غرضکہ کتنے ہی واقعات کو ندیم صدیقی نے ’’پرسہ ‘‘ میں ہمارے لیے محفوظ کردیا ہے۔
آئیے چند ایسے اقتباسات دیکھتے ہیں جو حاصل مطالعہ بھی ہیں اور حاصل زیست بھی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مصنف کے دیکھتے ہی دیکھتے خاکے کے پردے میں جا چھپے۔ حافظ شیراز ی سچ ہی تو کہتے ہیں کہ : میری وفات کے بعد میری قبر زمین پر نہ تلاش کرنا ۔میں تو دانش وروں کے سینوں میں دفن ہوں۔ زیر نظر تحریر محض ان دلچسپ تذکروں کا احاطہ کرتی ہے جو راقم الحروف نے کتاب سے اخذ کیے، جوباعثِ انبساط ٹھہرے اور جو زندگی کے اداس اور بوجھل لمحوں کو مسرت سے ہمکنار کرنے کا سب بنے۔ اس دنیا میں کیسے کیسے لوگ گزرے ہیں، کن کن کٹھنائیوں سے گزر کر انہوں نے زیست کی ہے..........اور ایک ہم ہیں کہ اپنی ذات کو اور اپنے گرد و پیش ہی کو مکمل دنیا سمجھتے ہیں۔
مصنف کی پہلی تحریر فنا نظامی کانپوری پر ہے...اسے شخصی خاکہ کہیے ،تذکرہ کہیے .... جو بھی ہے مگر یہ تحریر فنا صاحب کو فنا ہونے سے بچاتی ہے۔لکھتے ہیں: جگر اپنے زمانے کے شرفاء کے ہیرو تھے۔ اچھے اچھے لوگ ان کی میزبانی کو اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتے تھے۔ سیاہ صورت مگر اجلی سیرت۔ ایک مشاعرہ ہورہا تھا۔ جگر کی نقل میں گورے چٹے عارف عباسی بلیاوی سب سے آگے تھے۔ فنا نے ان کی طرف بڑی رشک آمیز نظروں سے دیکھا اور کہ بھائی عارف عباسی! بالکل جگر کی طرح پڑھتے ہو، انہی کی طرح کپڑے پہنتے ہو۔ تمہیں دیکھ کر رشک آتا ہے مگر ایک کمی ہے تم میں۔
عباسی نے مسکراتے ہوئے پوچھا کہ وہ کیا ؟
فنا نے برجستہ کہا: اپنا منہ ہم سے کالا کروا لو۔
فنا کا ایک شعر ہے:
ترک تعلقات کو اک لمحہ چاہیے
لیکن تمام عمر مجھے سوچنا پڑا کیوں۔
اسے پڑھ کر ہمیں معلوم ہوا کہ شعر کی خوشبو کس طرح سرحد کے اس پار پھیلتی ہے اور زمانے گزر جاتے ہیں مگر شاعر کے نام سے ہم لاعلم ہی رہتے تھے۔ راقم کے کالج کے زمانے کی بات ہے، پاکستان کے معروف غزل گائیک آصف علی نے ’’اب کے سال پونم میں جب تو آئے گی ملنے‘‘ کیا گائی، ہر طرف اس کی شہرت پھیل گئی۔ پڑھنے والوں میں سے اکثر کو یاد ہوگا کہ مذکورہ غزل کا آغاز آصف علی نے جن اشعار سے کیا تھا ان میں سے ایک فنا صاحب ہی کا مذکورہ بالا شعر ہے۔ یہ جس غزل کا شعر ہے اس کا مقطع کچھ یوں ہے:
جب میرے راستے میں کوئی مئے کدہ پڑا
مجھ کو خود اپنے غم کی طرف دیکھنا پڑا
فنا نظامی ایک بذلہ سنج انسان تھے، غضب کے جملہ باز۔ایک مرتبہ ٹرین میں وہ دیگر شعرا کے ساتھ سفر کررہے تھے۔ ایک ہمسفر رام پرکاش (فرضی نام) بحث پر آمادہ تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے یہاں جو آواگون کا نظریہ ہے وہ فرضی نہیں ہے، میں خود ایسے کئی لوگوں سے مل چکا ہوں جو اپنے گزشتہ جنم کی روداد سناتے ہیں اور دلیل کے ساتھ۔
بحث طول پکڑ گئی۔ لوگ مان کر نہیں دے رہے تھے۔ اچانک فنا گویا ہوئے: یہ صحیح کہہ رہے ہیں ۔ لوگ حیران ہوئے۔ وہ کیسے ؟
جواب ملا: یہ بے چارے یونہی آتے اور جاتے رہیں گے۔ اس وقت تک انہیں آواگون کی سزا بھگتنی پڑے گی جب تک یہ مسلمان نہیں ہوجاتے۔
ہر حکومت سالانہ بجٹ بڑے دھوم دھام سے پیش کرتی ہے۔ اس موقع پر فنا نظامی کانپوری کا ایک شعر دیکھیے۔ فرماتے ہیں:
روداد فصل گل نہ سنا، تو حساب دے
اے باغباں بتا میرے حصے میں کیا پڑا ؟
**
یوں ماچس لکھنوی کا خاکہ بے حد دلچسپ ہے، کس بات کا ذکر کیجیے اور کس کا نہیں۔مگر موصوف کا ایک شعر ہی ان کے تمام کلام پر حاوی رہے گا۔ کیا عمدہ بات کی ہے، یہ ہر زمانے کی بات ہے
شیخ آئے جو محشر میں اعمال ندارد
جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد
مذکورہ خاکے میں ندیم صدیقی لکھتے ہیں:
’’آفتاب لکھنوی گزشتہ مشاعروں میں طنز و مزاح کی زنجیر کی ایک توانا کڑی تھے۔ وہ اپنے اس شعر کے ساتھ ذہن کے افق پر نصف النہار ہیں
دو چار مولوی جو اندھیرے میں گھیر لیں
نالے میں گھس نہ جائے تو شیطان کیا کرے
اسی طرح حضرت جھنجھٹ لکھنوی بھی کیا خوب کہہ گئے ہیں
کس بلا کا جوشِ وحشت تیرے دیوانے میں ہے
کل ضمانت پر چھٹا تھا آج پھر تھانے میں ہے
سارس لکھن پوری کا یہ شعر ملاحظہ ہو
کیوں نہ محصور کروں آنکھ کی پتلی میں تجھے
دل چرانے کی سزا میں ہے یہ کالا پانی
محمد حنیف حریف فیض آبادی پچاس برس پہلے جو شعر کہہ گئے تھے اسے موجودہ دور کے تناظر میں دیکھیے
اک نہ اک دن گوشت خوری ہند میں ہوگی حرام
آج ہی سے میم کو بھیجے کھلانا چاہیے
**
مولانا انجم فوقی بدایونی کے خاکے میں کتنی ہی باتیں ہیں جو یاد رہ جانے والی ہیں۔ مگر ارشاد انجمی کا ایک شعر ایسا ہے جس کی تازگی کی کیا ہی بات ہے
یوں تو کہنے کو کیا نہیں ہیں آپ
بندہ پرور! خدا نہیں ہیں آپ
یہ شعر ہم اور آپ کتنے موقعوں پر اور کس کس کے لیے استعمال کرسکتے ہیں.....اس کا شمار ہی کیا۔
خاص طور پر ان کے لیے جو
"God of Small Things"
کہلاتے ہیں۔
ایک خوبصورت شعر قاضی سید وصی احمد المعروف آوارہ سلطان پوری کے خاکے میں بھی مرقو م ہے۔ مگر یہ ان کا نہیں بلکہ توقیر زئی کا ہے۔کہتے ہیں
ہائے وہ لوگ جو کم جاگتے ہیں
پھر وہ بادیدہۂ نم جاگتے ہیں
آوارہ صاحب پر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ان کی معاشی صورت حال انتہائی دگرگوں ہوگئی۔ ایک روز ندیم صدیقی ایک مشاعرہ پڑھ کر واپس جارہے تھے کہ آوارہ صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے مصنف سے کہا کہ مشاعرے کا سب سے اچھا شعر سناؤ۔ ندیم صدیقی نے حق بنارسی کا شعر عرض کیا:
تُو تو ہر چہرے کو آئینہ بنا دیتی ہے
اے غریبی ! تیرا رکھیں بھی تو پردہ کیسے
ندیم صدیقی روانی میں شعر تو سنا گئے۔ پھر آوارہ صاحب کی آنکھوں کی نمی دیکھ کر خجل بھی ہوئے۔
ایک موقع پر آوارہ سلطان پوری نے کیا عمدہ بات کہی ۔ ’’ندیم! اچھے شعر کی ایک تعریف یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ سننے والا اگر شاعر ہے تو اس کے ہاں وہ شعر تحریک پیدا کردیتا ہے ۔‘‘
یہ کہا اور پھر مصنف کی فرمائش پر اپنا ایک شعر سنایا جو سننے والے کے ذہن و قلب میں آج بھی تازہ ہے
عشق اس دور خطا ساز میں ممکن ہی نہ تھا
میں بھی حیران ہوں میں نے تجھے چاہا کیسے
**
’’ماضی قریب میں ممبئی کے چند شعرا‘‘ کتاب کا طویل مضمون ہے۔ اس میں مصنف نے ان شعرا کو یاد کیا ہے جن کو لوگ فراموش کرچکے ہیں۔ یہ مضمون بھی قہقہوں اور آنسوؤں سے پر ہے۔ بھنڈی بازار میں وزیر ہوٹل پرشاعروں کا جمگھٹا لگا رہتا تھا۔ ایک مرتبہ بمبئی کے مضافات میں مشاعرے میں شرکت کے لیے شعرا کو منی بس جیسی گاڑی میں لاد کر لے جایا جارہا تھا۔ ایک موقع پر ڈرائیور نے جب گاڑٰی کی رفتار تیز کردی تو کسی نے خوفزدہ ہو کر اسے ٹوکا کہ بھئی ذرا دھیرے چلو، اس میں شعرا کرام بیٹھے ہیں۔ تس پر اس مرد دانا نے ترنت جواب دیا کہ
’’ اماں کیا ہوگا۔ اگر حادثہ ہوگیا تو اور (شعرا کو) بھر کر لے آؤ ں گا وزیر ہوٹل سے۔ ‘‘
مذکورہ مضمون میں کئی اشخاص کے تذکرے ہیں۔ ان میں پرتو لکھنوی ہیں جو اپنی آنکھوں کے علاج کے دوران ڈاکٹر کی سخت ہدایت و تنبیہ کے نتیجے میں پورے تین برس تک دن کی روشنی میں گھرسے نہ نکلے تھے اور اس دوران گھر کے تہ خانے میں رہتے رہے تھے۔ ندیم صدیقی کے ایک مرتبہ یہ پوچھنے پر کہ کیسے مزاج ہیں؟ ان کا چہرہ متغیر ہوگیا اور انہوں نے ناگواری سے جواب دیا کہ میاں! ایک آدمی کا ایک ہی مزاج ہوتا ہے .......کیسے مزاج ہیں ؟ ...چہ معنی ؟
ان میں علامہ آرزؤ لکھنوی کے شاگرد محمود سروش ہیں۔ محمود سروش 10 مارچ 1911 کو بمبئی میں پیدا ہوئے تھے ۔عسرت کا یہ حال تھا کہ اسٹریٹ لائٹ میں پڑھائی کیا کرتے تھے۔ ایک روز شمشان کے پنڈت نے انہیں دیکھا اور شمشان میں لگے بجلی کے کھمبے کی روشنی میں پڑھنے کی پیشکش کی۔ پھر نقشہ یہ ہوتا تھا ایک جانب سروش پڑھائی میں مصروف ہوتے تھے اور دوسری طرف مردے نذر آتش کیے جاتے تھے۔ اعلی تعلیم حاصل کی، ادبی ذوق پایا اور آرزو کے شاگرد ہوئے۔آرزؤ لکھنوی کا ایک جملہ مشہور ہوا تھا کہ میں شاگرد نہیں استاد بناتا ہوں۔ محمود سروش اپنے استا د کی توقع پر پورے اترے تھے۔
بمبئی کے نوا لکھنوی نے ساری زندگی تنگی میں گزاری۔ ان کا ایک شعر مشہور ہوا جس میں ان کی تمام زندگی کی کرب ناک جھلک نظر آتی ہے
زندگی ایسے تشنج میں گزاری ہے نوا
جیسے بھیگے ہوئے کپڑے کو نچوڑا جائے
برہان پور کے محمود رانی کی زندگی بھی بمبئی میں گزری۔ ان کا ایک قطعہ ملاحظہ ہو
اچھا ہوا کہ راہ میں ٹھوکر لگی ہمیں
ہم گر پڑے تو سارا زمانہ سنبھل گیا
چل پھر کے گن رہے تھے مصیبت کے رات دن
دم لینے ہم جو بیٹھ گئے دم نکل گیا
قریش نگر کے نشان صدیقی نے اپنی قبر کا منفرد کتبہ اپنی زندگی ہی میں لکھ دیا تھا
دوانے بھاگ جا دامن کی ساری دھجیاں لے کر
یہاں تار گریباں سے نئی زنجیر بنتی ہے
مضمون مذکورہ میں ندیم صدیقی نے ظریف نظام رام پوری کے دو اشعار درج کیے ہیں، ملاحظہ کیجیے کہ کتنے سادہ پیرائے میں کتنی چابک دستی سے اپنی بات کہی گئی ہے :
کچھ سکوں یوں ہے زندگانی میں
جیسے مچھلی کی نیند پانی میں
نعت کاشعر:
میں اور مجال شعر رسالت مآب پر
شبنم دھری نہ رہ جائے کف آفتاب پر
’’ماضی قریب میں ممبئی کے چند شعرا‘‘ میں ایک جگہ لفظ تشہیر کے استعمال کے بارے میں چند اشعار درج کیے گئے ہیں۔ مگر پہلے یہ سن لیجیے کہ یہ ذکر ملاڈ کے شمس طالب کا ہے جنہوں نے مصنف کی توجہ اس جانب مبذول کرائی تھی۔ ایک روز وہ مصنف سے یوں گویا ہوئے تھے:
’’ ایک لفظ تشہیر آج عام ہے ۔ اس لفظ کو ہمارے بزرگ منفی معنوں میں استعمال کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے جب لکھنو میں یاس یگانہ کی بدنام زمانہ نظم اور اس کے رد عمل کے دوران یہ لفظ ہمارے علم میں آیا تھا جو یوں تھا کہ ’ لکھنؤ میں گدھے پر بٹھا کر یاس یگانہ چنگیزی کی تشہیر کی گئی‘۔ یعنی کسی کو ذلیل و رسوا کرنے کے لیے لفظ تشہیر کا استعمال ہوتا تھا۔ ‘‘
شمس مرحوم نے اپنی بات کی دلیل میں میر کا یہ شعر بھی پڑھا
موئے پر اور بھی کچھ بڑھ گئی رسوائی عاشق کی
کہ اس کی نعش کو اب شہر میں تشہیر کرتے ہیں
ظ انصاری کے خاکے سے چیدہ چیدہ اقتباسات پیش خدمت ہیں :
’’آپ کے سامنے یہ جو ظ انصاری ہے اس نے بھی دسمبر جنوری کی سردی میں جمی ہوئی دال اور کپڑے میں لپٹی ہوئی سوکھی روٹیاں کھا کر پڑھا ہے۔ میرے ایک ماموں زاد بھائی الہ آباد میں رہتے تھے ،میں پڑھائی کے سلسلے میں انہی کے گھر رہتا تھا۔ رات گئے ٹیوشن سے لوٹتا تھا تو برآمدے میں جہاں تال پتری کی آڑ میں میری چارپائی اور لحاف رکھا رہتا تھا بھابھی وہیں میرا کھانا رکھ دیتی تھیں۔ عموما سالن ہو یا دال، شدید ٹھنڈک کے سبب جم جاتی تھی اور چارروناچار وہی کھانا پڑتا تھا۔ یہ سلسلہ ایک مدت تک چلا۔ ‘‘(مصنف سے مخاطب ہو کر)۔
دیوان سنگھ مفتوں ریاست کے مدیر تھے۔ ایک مرتبہ ظ انصاری ان کے پاس ملازمت کی درخواست لے کرگئے۔ مفتوں نے کہا ’’میاں کچھ لکھ کر لائیے۔‘‘
جواں سال ظ انصاری نے کہا کہ میں ابھی کچھ لکھ دوں ؟
مفتوں: وہ دیکھیے سامنے کرسی میز ہے اور قلم اور کاغذ بھی۔ وہیں بیٹھ جائیے اور لکھ لیجئے۔
کچھ دیر بعد ظ انصاری ان کے پاس کچھ لکھ کر لے گئے۔
مفتوں نے تحریر پڑھی اور گویا ہوئے: میاں صاحب زادے۔ آپ بہت اچھے ادیب بن سکتے ہیں۔ بہت اچھے شاعر بن سکتے ہیں مگر صحافی نہیں بن سکتے۔
ظ انصاری نے کہا :سرکار میں چلا جاؤں گامگر یہ فرمائیے کہ صحافی بننے کے لیے کون سے اوصاف درکار ہوتے ہیں۔
دیوان سنگھ مفتوں نے جواب دیا : میاں !یہاں آتے ہوئے جو چڑیا آپ کے سر کے اوپر سے گزری تھی ،آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ وہ کہاں سے آرہی تھی اور کہاں جارہی تھی۔
**
ندیم صدیقی صاحب نے اچھا کیا جو دیوان سنگھ مفتوں اور ظ انصاری سے متعلق یہ تاریخی واقعہ محفوظ کردیا ۔بریکنگ نیوز کی تلاش میں رہنے والے ہمارے صحافیوں کے سیکھنے کے لیے اس میں بہت کچھ ہے۔ خاص کر وہ صحافی جن کو چڑیا کی آمد و رفت کے معاملات کی آگاہی ہو یا نہ ہو، چڑیا کے چال چلن پر ان کی خاص نظر ہوتی ہے۔۔
یکم فروری 1991 کو جب رحمت آباد کے قبرستان میں ظ انصاری کی تدفین ہورہی تھی تو اس موقع پر مجروح سلطان پوری سے نہ رہا گیا اور وہ کہہ اٹھے تھے کہ ’’ ظ انصاری تو منکر نکیر کے سوالوں سے پہلے خود ہی کوئی سوال کر بیٹھیں گے تو کیا جواب بن پڑے گا اس فرشتہ معصوم سے ؟‘‘
**
ندیم صدیقی کا ’’پرسہ‘‘ خوب ہے۔ اچھی کتاب پڑھ کر ہمیشہ سیر چشمی کا احساس ہوتا ہے۔ ایک بات ضرور کھٹکتی ہے۔ پوری کتاب پڑھ جائیے ، تمام خاکے و تذکرے چھان ماریے،مجال ہے کہ کہیں باقر مہدی کا تذکرہ نظر آئے.........کتاب میں صرف ایک جگہ باقر مہدی کا نام ہے اور بس....صرف نام۔ ہم سبھی یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ باقر مہدی مرحوم سے بھارت بلکہ پاکستان کے تمام ادباء و شعراء خوف کھاتے تھے۔ وہ کب کس کی بھد اڑادیں کوئی نہیں جانتا تھا۔ مگر وہ ممبئی کے باسی تھے، ہند کی ایک معروف شخصیت تھے۔ 11 فروری 1927 کو رودولی، بارہ بنکی میں پیدا ہونے والے باقر مہدی کا انتقال ممبئی میں 24 ستمبر 2006 کو ہوا تھا۔ان پر کچھ تو لکھا جانا چاہیے تھا۔
حضور!اب تو باقر مہدی اس دنیا سے جاچکے ہیں،اب ان سے خوف کھانا چہ معنی ؟