اردو ادب اور صحافت
Posted: Thu Feb 04, 2016 10:15 pm
اردو ادب اور صحافت ۔ آصف جیلانی
میں نہ تو ادیب ہوں اور نہ پوری طرح سے ادب شناسی کا دعوی کر سکتا ہوں۔ پھر اتنا بڑا صحافی بھی نہیں کہ اردو ادب اور صحافت کے بارے میں معتبر طور پرکوئی بات کر سکوں۔ ہاں میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں صحافت کی دنیا کے اندر کا بھیدی ضرور ہوں۔
آج کے دور میں خلط ملط کا جو رجحان حاوی ہے ، اس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کے نزدیک اردو ادب اور صحافت میں کوئی حد امتیاز باقی نہیں رہی ہے۔ لوگ ہر ادیب کو صحافی اور ہر صحافی کو ادیب سمجھنے لگے ہیں۔
میرے خیال میں ہر وہ چیز جو نثر یا نظم میں لکھی جائے اسے ادب تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح تو مختلف علوم و فنون کے بارے میں کتابیں، تاریخ اور جغرافیہ، فقہ اور فلسفہ کے بارے میں مضامین ، تجارت و صنعت کی رپورٹیں ، حتی کہ مردم شماری کے جایزے ، یہ سب جو نثر میں لکھے جاتے ہیں ادب کے ذمرے میں شامل کئے جائیں گے اور یوں فقیروں کی منظوم صدائین اور پھیری لگانے والوں کی گا گا کر بیچنے کے آوازین ، ان سب کو شعری ادب کہنا پڑے گا۔
میرے خیال میں ادب اس شعری اور نثری تخلیق کا نام ہے جو زندگی کو بے جان تصورات میں تحلیل کر کے دیکھنے کے بجائے ، پوری حیات انسانی کی منجدھار میں شامل ہو کر اس کی قوت ، روانی اور حرارت کو اپنے اندر جذب کر لے۔ اس کے مقابلہ میں صحافت کا بنیادی کام ، حالات حاضرہ کے ابلاغ اور اس کے مختلف پہلووں کا تجزیہ کرنا اور معاشرہ کو صحیح راہ دکھانا ہے ۔ یوں صحافت حیات انسانی کی منجدھار کی سمت اور اس کے مختلف پہلوں کی نشاندہی کرتی ہے ، اس میں جذب ہو کر نہیں بلکہ علم ، ادراک اور تجربہ کی بنیاد پر۔
لیکن جہاں تک اردو ادب اور اردو صحافت کا تعلق ہے اس کا ایک دوسرے کے ساتھ بڑا گہرا رشتہ رہا ہے۔ اسی زمانہ میں جب اردو زبان ، کمسنی کے عہد سے نکل کر شعور کی منزلوں کو چھو رہی تھی ، اردو صحافت کا آغاز ہوا۔ یہ انیسویں صدی کا ابتدائی دور تھا اور اسی زمانہ میں ،1836ءکے آس پاس ، محمد باقرصاحب نے دلی سے اردو اخبار نکالا اور اکبر آباد سے منشی سدا سکھ لال کی سرپرستی میں اخبار نورالبصار نکلا۔
حقیقت یہ ہے کہ اردو صحافت نے اردو ادب اور ادیبوں کو عوام سے روشناس کرایا اور یہ مبالغہ نہ ہوگا اگر یہ کہا جائے کہ اردو ادب، صحافت کے ذریعہ ہی مقبول ِعام ہوا اور پروان چڑھا۔
شاعری کے بارے میں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسے جو فروغ ملا اور عوام میں جو مقبولیت حاصل ہوئی اس میں شاہی درباروں اور مشاعروں کا بڑا ہاتھ تھا لیکن اردو نثر کی ترقی خالص ، صحافت کی مرہون منت رہی ہے۔
مولانا محمد علی جوہر کے ہمدرد، سر سید کے رسالے تہذیب الاخلاق ، مولانا ابوالکلام آزاد کے اخبار الہلال اور البلاغ، بنارس کے اردو اخبار آوازہ اخلاق، کانپور کے “زمانہ”حسرت موہانی کے رسالے اردوئے معلی اور امتیاز علی تاج کے کہکشاں اور مولانا ظفر علی خان کے اخبار زمیندار نے اردو نثر کے ساتھ نظم کی ترقی اور ترویج میں جو اہم حصہ ادا کیا ہے وہ اردو ادب کی تاریخ کے لئے قابل فخر ہے۔
سر سید نے تہذیب الاخلاق کے ذریعہ اردو کے ادیبوں کا ایک بڑا گروہ جمع کیا تھا جس میں مولانا حالی ، مولانا شبلی، ڈاکٹر نذیر احمد خان ، ذکا اللہ خان، محسن الملک اور چراغ علی نمایاں ہیں۔
مولانا حالی نے جب اپنی مسدس سرسید کو بھیجی اور یہ پیش کش کی کہ اس کا حق تصنیف سر سید کے مدرستہ العلوم کے نام کر دیا جائے تو اس کے جواب میں سر سید نے لکھا تھا”میں دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں مگر میں نہیں چاہتا کہ اس مسد س کو جو قوم کا آئینہ یا اس کے ماتم کا مرثیہ ہے کسی قید سے مقید کیا جاوے۔ جس قدر چھپے اور جس قدر مشہور ہو اور لڑکے ڈنڈوں پر گاتے پھریں، قوال درگاہوں میں گاویں ۔ حال لانے والے اس سچے حال پر حال لاویں ، اس سے اسی قدر مجھے خوشی ہوگی ۔ میں اس مسدس کو تہذیب الاخلاق میں چھاپوں گا۔”
اور اردو ادب کا یہ شہ پارہ ، سرسید کے تہذیب الاخلاق کے ذریعہ عوام میں مقبول ہوا۔
مولانا محمد علی جوہر کے ہمدرد نے جہاں ایک طرف عوام میں سیاسی شعور بیدار کیا اور ان کی آزادی کی جدوجہد میں مدد کی وہاں اردو نثر کو بھی مالا مال کیا۔
پریم چند کا پہلا ناول”اسرار معابد”بنارس کے آوازہ اخلاق میں قسط وار شایع ہوا تھااور اسی طرح ان کے دوسرے ناول اور افسانے، کانپور کے زمانہ میں شایع ہوئے۔
اردو ادب میں نثر کا وہ ابتدائی دور جب کہ رومانیت اپنے عروج پر تھی اور ادب لطیف کی اصطلاح عام تھی اس کو خان بہادر ناصر علی کے اخبار “صلاح عام”دلی اور نیاز فتح پوری کے نگار نے بڑھاوا دیا۔ نیاز فتح پوری خود اُس زمانہ میں شعری منشورات کے ماہر تھے۔ یہ زمانہ 1920اور 21ءکا تھا ۔ اسی زمانہ میں سجاد حیدر یلدرم ، نصیر حسین خیال اور مجنوں گورکھپوری ابھرے۔ ان کے شہ پاروں کو گورکھپور کے رسالے “سبحان” اور “مشرق”، کانپور کے “ادیب اردو”بدایوں کے “نقیب”نے عوام میں مقبول کیا۔ خود مجنوں گورکھپوری کے مجلہ “ایوان”نے جو انہوں نے 1930ءمیں گورکھپور سے جاری کیا تھا، اردو ناول اور افسانہ نگاری کی ترقی میں کافی نمایاں رول ادا کیا۔
اردو میں طنز و مزاح کو جو فروغ حاصل ہو اوہ خالص اردو صحافت کی دین ہے۔ اس صنعف کا آغاز سر شار اور سجاد حسین سے ہوتا ہے جنہوں نے اپنے مزاحیہ مضامین کی ابتداءاودھ پنچ سے کی ۔ خود سجاد حسین اس زمانے میں اودھ پنچ کے ایڈیٹرتھے۔ مرزا مچھو بیگ ستم ظریف، پنڈت ہجر، منشی احمد علی کسمنڈوی اور جوالا پرشاد برق اسی زمانہ کے نامور مزاح نگار تھے۔
بعد کے طنز و مزاح نگار ، رشید احمد صدیقی، ملا رموزی ، پطرس، فرحت اللہ بیگ ، عظیم بیگ چغتائی اور کنہیا لال کپور کتابی طنزو مزاح نگار ہیں۔بعد کی مزاح نگار نسل میں چراغ حسن حسرت ، ابراہیم جلیس، ابن انشا ، نصرا اللہ خان، مجید لاہوری ، حاجی لق لق، فکر تونسوی، طفیل احمد جمالی اور عطا الحق قاسمی وغیرہ ان سبھوں نے اردو صحافت کے ذریعہ اپنی تخلیقات کو جلا دی اور عوام تک پہنچایا۔ اس نسل کے مزاح نگاروں میں ایک بڑا نام مشتاق احمد یوسفی کا ہے لیکن وہ براہ راست حساب کتاب سے کتاب تک آئے ہیں۔
بلا شبہ یہ اردو صحافت کی خوش نصیبی ہے کہ اردو ادب کے ممتاز دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں نے اردو صحافت کی عملی طور پر رہنمائی کی ہے جن میں مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابو الکلام آزاد ، مولانا ظفر علی خان ، حیات اللہ انصاری ، غلام رسول مہر اور مولانا جالب نمایاں ہیںاور آزادی کے بعد ، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، چراغ حسن حسرت اور سبط حسن کے نام درخشاں رہے ہیں۔ لیکن اسے بد قسمتی کہہ لیں یا بدلتے ہوئے حالات کے تقاضے کہ جب سے اردو صحافت نے تجارت کا لبادہ اوڑھا ہے ایڈیٹری خاندانی میراث بنتی جارہی ہے۔اس مسند پر ممتاز ادیبوں کے لئے کوئی جگہ باقی نہیں رہی ہے۔
پاکستان میں اردو ادب کا جہاں تک تعلق ہے اس کے معیار سے قطع نظر اس کی اشاعت اور ترویج میں سیاست یا یوں کہہ لیں سیاست پر فوجی پہروں کا بڑا دخل رہا ہے۔ 1958ءمیں جب پہلی بار فوج نے اقتدار پر شب خون مارا اس کے بعد ایک عرصہ تک اردو صحافت نے راہ فرار اختیار کی اور اس زمانہ میں صحافت نے ادب اور ادبی سرگرمیوں کا سہارا لیا۔ اُس وقت بہت سے لوگ کہتے تھے کہ پاکستان میں اردو اخبارات بڑی حد تک میگزین بن کر رہ گئے ہیں۔
یہ ستم ظریفی ہے کہ پاکستان میں اردو اخبارات نے جہاں اردو ادب کو عوام تک پہنچانے اور مقبول بنانے اور شاعروں اور ادیبوںکے تعارف و تشہیر میں اہم حصہ ادا کیا ہے وہاں اردو زبان کی ہیئت بگاڑنے میں بھی اس نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔
ویسے تو پاکستان کے پورے معاشرہ کے ہر شعبہ میں معیار کی پستی کا مرثیہ عام ہے لیکن صحافت کو ایک عرصہ تک زباں بندی کے ساتھ ساتھ زبان کی ابتری کے سنگین مسئلہ کا بھی سامنا رہا ہے ۔ ایک زمانہ تھا کہ سائنس اور دوسرے علوم کی فنی اصطلاحات کے اردو میں مناسب ترجموں کی کوشش کو فوقیت دی جاتی تھی لیکن اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ بالکل رک گیا ہے ۔مجھے یاد ہے کہ اس وقت جب 1956میں آئین نافذ ہوا تو امروز نے پریزیڈنٹ ہاوس کا ترجمہ ایوان صدر رائج کیا لیکن پھر بھٹو کے دور میں اس کی جگہ پریزیڈنسی عام ہو گیا۔ اب اردو اخبارات اور حتی کہ اردو ناولوں اور افسانوں میں بھی اچھے اچھے اردو کے الفاظ کی جگہ انگریزی الفاظ لیتے جارہے ہیںاور بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے منظم طور پر اردو کو ” انگریزیا “جا رہا ہے۔اردو کے وہ الفاظ جن پر انگریزی مسلط ہو گئی ہے ان کی اتنی بھرمار ہے کہ پوری ایک لغت تیار ہو سکتی ہے ۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اردو اور پاکستان کی علاقائی زبانوں کے درمیان انگریزی کی فصیل کھڑ ی جارہی ہے اور اردو کو علاقائی زبانوں کی دولت سے فیضیاب ہونے کی راہ مسدود کی جارہی ہے۔
ایک بات جو مجھے اردو ادب اور صحافت میں آج کل مشترک نظر آ رہی ہے وہ ہے کہ جس طرح آج اردو صحافت میں نہ کوئی نظری سمت ہے اور نہ کوئی منزل اور مقصدیت ہے اسی طرح اردو ادب میں بھی جیسا کہ مجنوں گورکھپوری نے کہا تھا کہ “ایسا لگتا ہے کہ جس کو دیکھو وہ گویا نشیب و فراز سے بے خبر ایک بے جانے بوجھے راستے پر چل رہا ہے ۔ ہماری ادبی دنیا میں آج نراج کا سا ہے۔ آج ادب ہے نام ہے اپنی اپنی ڈفلی اور اپنے اپنے راگ کا۔ آج ادب میں جو بڑھتی ہوئی انفرادیت پائی جاتی ہے وہ یقینا سقیم اور غیر صحت مند ہے”
غرض موجودہ صورت حال امید افزا نظر نہیں آتی اور اردو زبان کے ابتدائی دور میں ادب اور صحافت میں ایک دوسرے کو سہارا دینے کا جو رجحان اور رویہ تھا ، اور اس میں جو ایک رومانی مقصدیت تھی وہ اب عنقا ہوتی جارہی ہے۔ ممکن ہے کہ یہ بات بیت سے لوگوں کو تلخ لگے لیکن کیا کیا جاسکتا ہے کہ حقیقت عام طور پر تلخ ہی ہوتی ہے۔
میں نہ تو ادیب ہوں اور نہ پوری طرح سے ادب شناسی کا دعوی کر سکتا ہوں۔ پھر اتنا بڑا صحافی بھی نہیں کہ اردو ادب اور صحافت کے بارے میں معتبر طور پرکوئی بات کر سکوں۔ ہاں میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں صحافت کی دنیا کے اندر کا بھیدی ضرور ہوں۔
آج کے دور میں خلط ملط کا جو رجحان حاوی ہے ، اس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کے نزدیک اردو ادب اور صحافت میں کوئی حد امتیاز باقی نہیں رہی ہے۔ لوگ ہر ادیب کو صحافی اور ہر صحافی کو ادیب سمجھنے لگے ہیں۔
میرے خیال میں ہر وہ چیز جو نثر یا نظم میں لکھی جائے اسے ادب تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح تو مختلف علوم و فنون کے بارے میں کتابیں، تاریخ اور جغرافیہ، فقہ اور فلسفہ کے بارے میں مضامین ، تجارت و صنعت کی رپورٹیں ، حتی کہ مردم شماری کے جایزے ، یہ سب جو نثر میں لکھے جاتے ہیں ادب کے ذمرے میں شامل کئے جائیں گے اور یوں فقیروں کی منظوم صدائین اور پھیری لگانے والوں کی گا گا کر بیچنے کے آوازین ، ان سب کو شعری ادب کہنا پڑے گا۔
میرے خیال میں ادب اس شعری اور نثری تخلیق کا نام ہے جو زندگی کو بے جان تصورات میں تحلیل کر کے دیکھنے کے بجائے ، پوری حیات انسانی کی منجدھار میں شامل ہو کر اس کی قوت ، روانی اور حرارت کو اپنے اندر جذب کر لے۔ اس کے مقابلہ میں صحافت کا بنیادی کام ، حالات حاضرہ کے ابلاغ اور اس کے مختلف پہلووں کا تجزیہ کرنا اور معاشرہ کو صحیح راہ دکھانا ہے ۔ یوں صحافت حیات انسانی کی منجدھار کی سمت اور اس کے مختلف پہلوں کی نشاندہی کرتی ہے ، اس میں جذب ہو کر نہیں بلکہ علم ، ادراک اور تجربہ کی بنیاد پر۔
لیکن جہاں تک اردو ادب اور اردو صحافت کا تعلق ہے اس کا ایک دوسرے کے ساتھ بڑا گہرا رشتہ رہا ہے۔ اسی زمانہ میں جب اردو زبان ، کمسنی کے عہد سے نکل کر شعور کی منزلوں کو چھو رہی تھی ، اردو صحافت کا آغاز ہوا۔ یہ انیسویں صدی کا ابتدائی دور تھا اور اسی زمانہ میں ،1836ءکے آس پاس ، محمد باقرصاحب نے دلی سے اردو اخبار نکالا اور اکبر آباد سے منشی سدا سکھ لال کی سرپرستی میں اخبار نورالبصار نکلا۔
حقیقت یہ ہے کہ اردو صحافت نے اردو ادب اور ادیبوں کو عوام سے روشناس کرایا اور یہ مبالغہ نہ ہوگا اگر یہ کہا جائے کہ اردو ادب، صحافت کے ذریعہ ہی مقبول ِعام ہوا اور پروان چڑھا۔
شاعری کے بارے میں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسے جو فروغ ملا اور عوام میں جو مقبولیت حاصل ہوئی اس میں شاہی درباروں اور مشاعروں کا بڑا ہاتھ تھا لیکن اردو نثر کی ترقی خالص ، صحافت کی مرہون منت رہی ہے۔
مولانا محمد علی جوہر کے ہمدرد، سر سید کے رسالے تہذیب الاخلاق ، مولانا ابوالکلام آزاد کے اخبار الہلال اور البلاغ، بنارس کے اردو اخبار آوازہ اخلاق، کانپور کے “زمانہ”حسرت موہانی کے رسالے اردوئے معلی اور امتیاز علی تاج کے کہکشاں اور مولانا ظفر علی خان کے اخبار زمیندار نے اردو نثر کے ساتھ نظم کی ترقی اور ترویج میں جو اہم حصہ ادا کیا ہے وہ اردو ادب کی تاریخ کے لئے قابل فخر ہے۔
سر سید نے تہذیب الاخلاق کے ذریعہ اردو کے ادیبوں کا ایک بڑا گروہ جمع کیا تھا جس میں مولانا حالی ، مولانا شبلی، ڈاکٹر نذیر احمد خان ، ذکا اللہ خان، محسن الملک اور چراغ علی نمایاں ہیں۔
مولانا حالی نے جب اپنی مسدس سرسید کو بھیجی اور یہ پیش کش کی کہ اس کا حق تصنیف سر سید کے مدرستہ العلوم کے نام کر دیا جائے تو اس کے جواب میں سر سید نے لکھا تھا”میں دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں مگر میں نہیں چاہتا کہ اس مسد س کو جو قوم کا آئینہ یا اس کے ماتم کا مرثیہ ہے کسی قید سے مقید کیا جاوے۔ جس قدر چھپے اور جس قدر مشہور ہو اور لڑکے ڈنڈوں پر گاتے پھریں، قوال درگاہوں میں گاویں ۔ حال لانے والے اس سچے حال پر حال لاویں ، اس سے اسی قدر مجھے خوشی ہوگی ۔ میں اس مسدس کو تہذیب الاخلاق میں چھاپوں گا۔”
اور اردو ادب کا یہ شہ پارہ ، سرسید کے تہذیب الاخلاق کے ذریعہ عوام میں مقبول ہوا۔
مولانا محمد علی جوہر کے ہمدرد نے جہاں ایک طرف عوام میں سیاسی شعور بیدار کیا اور ان کی آزادی کی جدوجہد میں مدد کی وہاں اردو نثر کو بھی مالا مال کیا۔
پریم چند کا پہلا ناول”اسرار معابد”بنارس کے آوازہ اخلاق میں قسط وار شایع ہوا تھااور اسی طرح ان کے دوسرے ناول اور افسانے، کانپور کے زمانہ میں شایع ہوئے۔
اردو ادب میں نثر کا وہ ابتدائی دور جب کہ رومانیت اپنے عروج پر تھی اور ادب لطیف کی اصطلاح عام تھی اس کو خان بہادر ناصر علی کے اخبار “صلاح عام”دلی اور نیاز فتح پوری کے نگار نے بڑھاوا دیا۔ نیاز فتح پوری خود اُس زمانہ میں شعری منشورات کے ماہر تھے۔ یہ زمانہ 1920اور 21ءکا تھا ۔ اسی زمانہ میں سجاد حیدر یلدرم ، نصیر حسین خیال اور مجنوں گورکھپوری ابھرے۔ ان کے شہ پاروں کو گورکھپور کے رسالے “سبحان” اور “مشرق”، کانپور کے “ادیب اردو”بدایوں کے “نقیب”نے عوام میں مقبول کیا۔ خود مجنوں گورکھپوری کے مجلہ “ایوان”نے جو انہوں نے 1930ءمیں گورکھپور سے جاری کیا تھا، اردو ناول اور افسانہ نگاری کی ترقی میں کافی نمایاں رول ادا کیا۔
اردو میں طنز و مزاح کو جو فروغ حاصل ہو اوہ خالص اردو صحافت کی دین ہے۔ اس صنعف کا آغاز سر شار اور سجاد حسین سے ہوتا ہے جنہوں نے اپنے مزاحیہ مضامین کی ابتداءاودھ پنچ سے کی ۔ خود سجاد حسین اس زمانے میں اودھ پنچ کے ایڈیٹرتھے۔ مرزا مچھو بیگ ستم ظریف، پنڈت ہجر، منشی احمد علی کسمنڈوی اور جوالا پرشاد برق اسی زمانہ کے نامور مزاح نگار تھے۔
بعد کے طنز و مزاح نگار ، رشید احمد صدیقی، ملا رموزی ، پطرس، فرحت اللہ بیگ ، عظیم بیگ چغتائی اور کنہیا لال کپور کتابی طنزو مزاح نگار ہیں۔بعد کی مزاح نگار نسل میں چراغ حسن حسرت ، ابراہیم جلیس، ابن انشا ، نصرا اللہ خان، مجید لاہوری ، حاجی لق لق، فکر تونسوی، طفیل احمد جمالی اور عطا الحق قاسمی وغیرہ ان سبھوں نے اردو صحافت کے ذریعہ اپنی تخلیقات کو جلا دی اور عوام تک پہنچایا۔ اس نسل کے مزاح نگاروں میں ایک بڑا نام مشتاق احمد یوسفی کا ہے لیکن وہ براہ راست حساب کتاب سے کتاب تک آئے ہیں۔
بلا شبہ یہ اردو صحافت کی خوش نصیبی ہے کہ اردو ادب کے ممتاز دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں نے اردو صحافت کی عملی طور پر رہنمائی کی ہے جن میں مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابو الکلام آزاد ، مولانا ظفر علی خان ، حیات اللہ انصاری ، غلام رسول مہر اور مولانا جالب نمایاں ہیںاور آزادی کے بعد ، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، چراغ حسن حسرت اور سبط حسن کے نام درخشاں رہے ہیں۔ لیکن اسے بد قسمتی کہہ لیں یا بدلتے ہوئے حالات کے تقاضے کہ جب سے اردو صحافت نے تجارت کا لبادہ اوڑھا ہے ایڈیٹری خاندانی میراث بنتی جارہی ہے۔اس مسند پر ممتاز ادیبوں کے لئے کوئی جگہ باقی نہیں رہی ہے۔
پاکستان میں اردو ادب کا جہاں تک تعلق ہے اس کے معیار سے قطع نظر اس کی اشاعت اور ترویج میں سیاست یا یوں کہہ لیں سیاست پر فوجی پہروں کا بڑا دخل رہا ہے۔ 1958ءمیں جب پہلی بار فوج نے اقتدار پر شب خون مارا اس کے بعد ایک عرصہ تک اردو صحافت نے راہ فرار اختیار کی اور اس زمانہ میں صحافت نے ادب اور ادبی سرگرمیوں کا سہارا لیا۔ اُس وقت بہت سے لوگ کہتے تھے کہ پاکستان میں اردو اخبارات بڑی حد تک میگزین بن کر رہ گئے ہیں۔
یہ ستم ظریفی ہے کہ پاکستان میں اردو اخبارات نے جہاں اردو ادب کو عوام تک پہنچانے اور مقبول بنانے اور شاعروں اور ادیبوںکے تعارف و تشہیر میں اہم حصہ ادا کیا ہے وہاں اردو زبان کی ہیئت بگاڑنے میں بھی اس نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔
ویسے تو پاکستان کے پورے معاشرہ کے ہر شعبہ میں معیار کی پستی کا مرثیہ عام ہے لیکن صحافت کو ایک عرصہ تک زباں بندی کے ساتھ ساتھ زبان کی ابتری کے سنگین مسئلہ کا بھی سامنا رہا ہے ۔ ایک زمانہ تھا کہ سائنس اور دوسرے علوم کی فنی اصطلاحات کے اردو میں مناسب ترجموں کی کوشش کو فوقیت دی جاتی تھی لیکن اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ بالکل رک گیا ہے ۔مجھے یاد ہے کہ اس وقت جب 1956میں آئین نافذ ہوا تو امروز نے پریزیڈنٹ ہاوس کا ترجمہ ایوان صدر رائج کیا لیکن پھر بھٹو کے دور میں اس کی جگہ پریزیڈنسی عام ہو گیا۔ اب اردو اخبارات اور حتی کہ اردو ناولوں اور افسانوں میں بھی اچھے اچھے اردو کے الفاظ کی جگہ انگریزی الفاظ لیتے جارہے ہیںاور بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے منظم طور پر اردو کو ” انگریزیا “جا رہا ہے۔اردو کے وہ الفاظ جن پر انگریزی مسلط ہو گئی ہے ان کی اتنی بھرمار ہے کہ پوری ایک لغت تیار ہو سکتی ہے ۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اردو اور پاکستان کی علاقائی زبانوں کے درمیان انگریزی کی فصیل کھڑ ی جارہی ہے اور اردو کو علاقائی زبانوں کی دولت سے فیضیاب ہونے کی راہ مسدود کی جارہی ہے۔
ایک بات جو مجھے اردو ادب اور صحافت میں آج کل مشترک نظر آ رہی ہے وہ ہے کہ جس طرح آج اردو صحافت میں نہ کوئی نظری سمت ہے اور نہ کوئی منزل اور مقصدیت ہے اسی طرح اردو ادب میں بھی جیسا کہ مجنوں گورکھپوری نے کہا تھا کہ “ایسا لگتا ہے کہ جس کو دیکھو وہ گویا نشیب و فراز سے بے خبر ایک بے جانے بوجھے راستے پر چل رہا ہے ۔ ہماری ادبی دنیا میں آج نراج کا سا ہے۔ آج ادب ہے نام ہے اپنی اپنی ڈفلی اور اپنے اپنے راگ کا۔ آج ادب میں جو بڑھتی ہوئی انفرادیت پائی جاتی ہے وہ یقینا سقیم اور غیر صحت مند ہے”
غرض موجودہ صورت حال امید افزا نظر نہیں آتی اور اردو زبان کے ابتدائی دور میں ادب اور صحافت میں ایک دوسرے کو سہارا دینے کا جو رجحان اور رویہ تھا ، اور اس میں جو ایک رومانی مقصدیت تھی وہ اب عنقا ہوتی جارہی ہے۔ ممکن ہے کہ یہ بات بیت سے لوگوں کو تلخ لگے لیکن کیا کیا جاسکتا ہے کہ حقیقت عام طور پر تلخ ہی ہوتی ہے۔