"کمال کی باتیں "
Posted: Mon Feb 08, 2016 4:44 pm
کمال احمد رضوی اور ان کی کتاب ’’کمال کی باتیں‘‘
راشد اشرف
(سرورق اور فہرست منسلک ہے)
آپ کو یاد ہوگا کہ ڈیڑھ ماہ قبل سترہ دسمبر 2015 ء کی رات آٹھ بجے لاکھوں پرستاروں کے ہر دل عزیز کمال احمد رضوی المعروف الن کراچی میں واقع اپنی قیام گاہ پر دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے تھے۔
ہم سے رخصت وہ ہوگیا لیکن
رہ گئیں ’کمال‘ کی باتیں
اتفاق دیکھیے کہ ’’کمال کی باتیں‘‘ کا،جسے اٹلانٹس پبلی کیشنز کراچی نے 5 فروری 2016 ء کو نہایت اہتمام سے شائع کیا ہے، عنوان کمال رضوی اپنی زندگی میں ہی طے کرگئے تھے۔ یہ کمال رضوی کے تحریر کردہ خاکے ہیں ۔راقم الحروف کے پاس مسودے پر کام کرنے کے لیے محض سات روز تھے، اٹلانٹس نے تہیہ کرلیا تھا کہ 5 تا 7 فروری 2016 کراچی میں منعقدہ لٹریچر فیسٹیول میں ’’کمال کی باتیں‘ ‘ ان کے اسٹال پر موجود ہونی چاہیے۔ سرورق رات کے ایک بجے بنایا گیا۔ سر پر ایسا بار، ایسی عجلت کہ الامان.............ایک موقع پر کام الجھ گیا، سرا ہی مل کے دیتا تھا، لاکھ سلجھاؤ مگر بے سود۔ مگر پھر یوں ہوا کہ دیوانگی نے اس پار سے اس پار پہنچا ہی دیا۔ کتاب شائع ہوئی تو احساس ہوا کہ بہت ہی ا ن ہونیوں، ناگفتنیوں کے باوجود صدق دل سے کام کیا جائے تو اللہ تعالی بھی مدد کرتے ہیں ۔
کتاب 500 کی تعداد میں شائع کی گئی۔طے ہوا کہ اگلے ایڈیشن میں معمولی تسامحات کو دور کردیا جائے گا۔
یہ بھی بتایا چلوں کہ جلد ہی ’’کمال کی باتیں‘‘ کی تقریب رونمائی کراچی آرٹس کونسل میں کی جائے گی۔ اس سلسلے میں بھی کچھ نہیں کرنا پڑا ،کسی کے آگے دامن کو پھیلانے کی نوبت ہی نہ آئی۔ تقریب رونمائی کی پیشکش کرنے والوں نے خود ہی کی۔ ہم نے کہا بصد شوق، نیکی اور پوچھ پوچھ۔
تین برس قبل کمال رضوی نے ایک طویل عرصے بعد قلم اٹھایا تھا اور منٹو پر ایک ادبی پرچے میں ان کا دلچسپ خاکہ شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد چند مزید خاکے مختلف جرائد میں شائع ہوئے ۔ راقم کو احساس ہوا کہ بجائے مختلف رسائل میں لکھنے کے وہ یہ سب کچھ کتابی شکل میں شائع کریں تو بہتر ہوگا۔ ایک روز موقع دیکھ کر اپنی خواہش کا اظہا رکر ڈالا۔ کمال صاحب خاموش ہوگئے، کچھ نہ کہا۔ چھ ماہ گزر گئے۔ ایک روز فون کیا اور عرض کیا:
حضور! کافی عرصے سے آپ کی کوئی تحریر کسی رسالے میں نہیں دیکھی۔
وہ ایک دم سے بولے: آپ ہی نے تو کہا تھا کہ کتاب آنی چاہیے۔
مجھ پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔ ساتھ ہی ایک احساس تفاخر نے مجھے گھیر لیا کہ انہوں نے مجھ حقیر کی بات رکھی۔
عرض کیا کہ ا چھا کیا آپ نے، اب کتاب ہی آنی چاہپیے۔
مگر پھر ان کے لکھنے کے عمل میں تعطل آتا رہا۔ اس میں ان کے موڈ کا خاصا دخل تھا۔ وہ لکھتے تھے اور پھر یک لخت سلسلہ روک دیتے تھے۔ پھر کافی عرصے کے بعد اچانک دوبارہ لکھنا شروع کردیتے تھے۔ گزشتہ ایک برس میں یہ سلسلہ ایک مرتبہ پھر رک گیا تھا۔ بہرحال جو کچھ بھی اور جتنا کچھ بھی لکھا گیا وہ غنیمت ہے۔افسوس اس بات کا ہے کہ یہ کتاب کمال صاحب کی زندگی میں شائع نہ ہوسکی۔ ان کے انتقال کے بعد اس کی فوری اشاعت ان کی اہلیہ کے بے مثال تعاون سے ہی ممکن ہوسکی ہے ۔
آپ ’’کمال کی باتیں‘‘ کا انداز تحریر دیکھیے۔ کئی مقامات پر آپ کو ’’الن‘‘ کی واضح جھلک نظر آئے گی۔ فیض کے متعلق تحریر میں ایک موقع پر جب فیض مشروبِ خاص سے اجتناب کرتے ہیں تو کمال صاحب بے اختیار جو کچھ کہہ اٹھے تھے وہ الن ہی کا انداز تھا۔
کمال احمد رضوی نے لاہور میں ایک بوہیمین طرز کی زندگی گزاری تھی۔ ’’کمال کی باتیں‘‘ کا سفاکانہ اور کھرا اندازِ تحریر اس طرز زندگی کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔بقول شخصے ایک سچ جو سبھی کے آگے کنڈلی مارے بیٹھا رہتا ہے ،ان کے آگے بھی تھا.............آئینے کا سچ۔
مجھے اس بات پر بھی فخر ہیں کہ بیگم کمال رضوی نے راقم کی درخواست پر اپنے خاوند پر ایک نہایت عمدہ اور دلچسپ تعارفی مضمون لکھا ہے۔جو لوگ پہلی مرتبہ لکھتے ہیں وہ بہت اچھا لکھتے ہیں۔ ایسا ہی ایک تجربہ مجھے اس وقت ہوا تھا جب شاہد احمد دہلوی مرحوم کے صاحب زادے نے اسی انداز کا مضمون اپنے والد پر لکھا تھا جو ان کی پہلی تحریر تھی۔بلا شبہ بیگم کمال کی تحریر ایک سچی اور جرات مند تحریر ہے۔ اپنے خاوند کی طرح انہیں بھی جھوٹ سے نفرت ہے۔ لہذا جو کچھ بھی انہوں نے لکھا ہے وہ سچ لکھا ہے۔ اس منافقانہ معاشرے میں ،میں اسے ایک تازہ ہوا کا جھونکا کہوں گا۔جب میں اسے پہلی مرتبہ پڑھ رہا تھا تو خوش گوار حیرت کا احساس میرے چہرے پر نقش ہو کر رہ گیا تھا۔میں نے استفہا میہ نظروں سے بیگم کمال کی جانب دیکھا۔ وہ مطلب ہمارا سمجھ گئیں اور جواب دیا: ’’ کمال جیسے تھے میں نے انہیں ویسا ہی پیش کیا ہے۔‘‘
اور ہمیں یوں محسوس ہوا گویا کمال صاحب کہہ رہے ہوں کہ :
میاں ! منٹو میرا پسندیدہ انسان تھا۔ اس کے خاکے میں میں نے اس سے اپنی ذہنی ہم آہنگی کے بارے میں سب کچھ لکھ دیا ہے۔ کیا تم یہ توقع کرتے ہو کہ میری بیگم مجھے بقول منٹو ڈرائی کلین کر کے رحمت اللہ علیہ کی کھونٹی پر ٹانگ دے؟
منٹو، فیض احمد فیض،حفیظ جاوید،سبطِ حسن ،رشید عمر تھانوی، شاکر علی، حمید کاشمیری، شوکت رضوی، احمد پرویز، انور جلال شمزا،تجمل حسین، ستارہ بائی کانپوری ...... غرض اس کتاب میں کمال رضوی نے ایک کہکشاں سجائی ہے اورگزرے ہوئے کل کو اپنے مخصوص انداز میں یاد کیا ہے۔ ایک ایسا انداز جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا۔
کمال احمد رضوی کا انداز تحریر بے ساختہ اور منجھا ہوا ہے اور اس میں ایک دبا دبا سا طنز لہریں لیتا ہے۔ اس اندازِ بیاں کو کون پسند نہ کرے گا کہ جب وہ اپنے نانا کا تذکرہ کرتے ہیں:
’’میں نے اپنے نانا جان خلیل احمد کو ہمیشہ دھوتی میں ہی دیکھا تھاجو وہ زیب تن کر کے شہر’گیا‘میں ہائی کورٹ کے سامنے ایک کھوکھے میں اپنے لحیم و شحیم ریمنگٹن ٹائپ رائٹر کے ساتھ براجمان ہوتے تھے۔یہ ان کے گھر سے دس منٹ کے فاصلہ پر تھااور یہ ٹائپ رائٹر ہر روز ایک مزدور ایک پیسہ یومیہ کی اجرت پر وہاں اپنے سر پر پہنچا کرآتا تھا اور وہ بیٹھ کرسائلوں کی ضرورت کے مطابق کاربن پر کاغذ چڑھا کر بے تکان عرضیاں اور وکالت نامے ٹائپ کرتے تھے ۔ اب برس ہا برس بعد مجھے اُن کی وضع قطع کے پیچھے ایک مصلحت کار فرما نظر آتی ہے۔ وہ یہ سوانگ شاید اس لئے رچانے پر مجبور تھے تا کہ مروجہ تعصب میں کوئی ہندو یا غیر مسلم کلائنٹ ہاتھ سے نہ جاتا رہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ ہمیشہ اپنے سر کے بال منڈا کرروایتی پنڈت والا روپ اختیار کئے رکھتے تھے۔ ماتھے پرقشقہ انہوں نے یوں نہیں کھینچا ہو گا تاکہ مسلمانی بھی قائم رہے۔‘‘
ایک دوسری جگہ کس بے ساختگی سے وہ اپنی بات ان الفاظ میں کہہ جاتے ہیں کہ ’’ہماری زندگی کئی کہانیوں میں بٹی ہوئی ہیں صرف ان کو ہاتھ لگانے کی دیر ہے۔ سب کچھ سامنے آجاتا ہے۔‘‘
کمال رضوی کس عمدگی سے حالا ت کے تجزیئے پر قادر تھے، اس کا اندازہ درج ذیل اقتباس سے لگایا جاسکتا ہے:
’’بھٹو صاحب نے اقتدار سنبھال لیا تھا۔ شاکر صاحب ناشتہ کی میز پر اخباروں کی سرخیاں پڑھ کر اپنی تمام تر معصومیت کے ساتھ بھٹو کو داددے رہے تھے۔ اس لئے کہ وہ ہر روز ایک ادارے کو پرائیویٹائز کر رہے تھے۔ اور پاکستان بھر کے مزدوروں کو روٹی کپڑا اور مکان کا مژدہ سنا کر ملوں کارخانوں کے جلاؤ گھیراؤ کا تحفہ پیش کر رہے تھے۔اصل میں ہمیں تبدیلی چاہیے ہوتی ہے۔ تبدیلی ہر قیمت پر تبدیلی خواہ وہ مارشل لاء ہی کیو ں نہ ہو۔ جب نتائج آنا شروع ہوتے ہیں تو ہمیں آٹے دال کا بھاؤمعلوم ہونے لگتا ہے تو پھر ہم دوسری تبدیلی کے لئے تیارہو جاتے ہیں۔‘‘
یوں تو اس پوری کتاب ہی میں جا بجا ایسے ٹکڑے بکھرے ہوئے ہیں جہاں کمال رضوی کے قلم سے بلا کا طنز و مزاح نکلا ہے مگر شاکر علی پر لکھے خاکے میں ایک کرنل صاحب کی کتیا اور شاکر علی کے کتے کے ملاپ کے سلسلے میں جو واقعہ درج ہے اسے پڑھ کر آپ اپنی بے ساختہ مسکراہٹ پر قابو نہ رکھ سکیں گے۔ مذکورہ خاکہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ اس میں رفیع خاور کا تذکرہ بھی ہے اور اس عورت کا بھی جس کی وجہ سے رفیع خاور کو اپنی جان اپنے ہی ہاتھوں سے لینی پڑی تھی۔مذکورہ خاکے میں کمال رضوی لکھتے ہیں:
شاکر علی کے ساندہ روڈ والا بنگلہ جُو ان کو کالج کی طرف سے ملا ہوا تھا بڑے مزے کی جگہ تھی۔ میرے علاوہ یہاں شاکر علی صا حب کا ایک چہیتا کتّا بھی ہوتا تھا جس کانام انہوں نے سیزر رکھا تھا۔شاکر صاحب کو اس کتّے سے خاصی انسیت تھی۔ ایک دن میں بنگلہ کے عریض لان میں بیٹھا گلاب کے پھولوں کو تک رہا تھا۔ سیزر بھی میرے سا منے گلہریوں کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔ میں اس کھیل سے ابھی محظوظ ہو ہی رہا تھا کہ گیٹ کے اندر ایک جیپ داخل ہوئی جس میں ایک ریٹائرڈ فوجی کرنل مع اپنی کتّیا کے اسٹیرنگ پربیٹھاداخل ہوا۔ اس نے انگریزی میں مجھ سے پوچھا:
’’ تمھارا باپ گھر پر ہے‘‘؟
میں سمجھ گیا کہ وہ شاکر صاحب کا پوچھ رہا ہے۔ میں نے کہا:’’ نہیں وہ کالج میں ہوں گے۔‘‘
’’ویری گڈُ‘‘۔اس نے فوجی لہجے میں اطمینان ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
’’ فرمائیے‘‘۔ میں نے پوچھا ’’میں آپ کے لئے کیا کر سکتا ہوں ؟‘‘
’’جو تمھارا باپ نہیں کر سکا۔‘‘
’’مطلب؟؟
’’ تمھارا باپ بہت ہٹ دھرم قسم کا آدمی ہے وہ کسی کی بات سننے کو تیار ہی نہیں ہوتا۔‘‘
’’ کیا بات‘‘۔میں نے پوچھا۔
’’ میں نے ان سے کئی بار کہا کہ تم اپنے کتّے کا اور میری جولی کا میل کردو۔‘‘
’’ آپ کا مطلب ہے‘‘.....میں نے بھانپتے ہوئے پوچھا:’’ جولی کا سیزر سے میل‘‘....؟
’’ ہاں وہی لیکن تمھارے باپ نے صاف انکار کر دیا اوربولا نکل جا ؤیہاں سے۔ آئیندہ میں تمھاری شکل نہ دیکھوں۔ حالانکہ میں رقم بھی ادا کرنے کو تیار تھا۔‘‘
میں نے پوچھا:’’ کتنی رقم؟‘‘
کرنل بولا: ’’ یہی کوئی ڈھائی تین سو روپے۔‘‘
میں نے کہا :یہ تو بہت تھوڑے ہیں۔
کرنل نے رقم میں معقول اضافہ کر دیا تو میں نے جولی کو اس کے حوالے کر دیا۔
کرنل نے فوجی انگریزی میں بڑی دعائیں دیں اور رقم ڈھیلی کر تے ہوئے جولی اور سیزر کی پیڈگری پر ایسی مفید معلومات فراہم کیں جن سے اب تک میں نا آشنا تھا۔ وہ مطمئن اور آسودہ ہو کر جب جیپ میں سوار ہو کر جانے لگا تو اس نے مجھے بڑے زور کا سیلو ٹ مارااور جاتے ہوئے کئی بار ہاتھ ہلائے اور فوجی تپاک کااظہار کیا۔
اس شام میں نے شاکر صاحب کو ایک اچھے سے ہوٹل میں ڈنر کی آفر کی تو شاکر صاحب کی باچھیں کِھل گئیں اوروہ ترنگ میں بولے:’’ پھر ڈنر سے پہلے کے لوازمات میری طرف سے ہوں گے۔‘‘
ہم جب لوازمات سے فارغ ہو کر شیزان پہنچے تو شاکر کی پسند کی ڈشیں آ رڈر ہوئیں جو شاکر بہت مزے لے لے کر کھارہے تھے۔ میں نے جب ان سے پوچھاکہ شاکر صاحب یہ کرنل صاحب کا کیا قصّہ ہے وہ آج پھر آئے تھے۔ شاکر مسکراتے ہوئے بولے:
’’کرنل پاگل ہے۔یاروہ اپنی کتّیا کے لئے سیزر کو مانگ رہا تھا۔‘‘
’’ اچھا؟پھر؟‘‘
’’میرے انکار پر اُس نے کچھ رقم کا بھی لالچ دیا۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’یار اب ہم اتنے گئے گزرے ہو گئے کہ اپنے کتّے کی کمائی کھائیں گے۔‘‘
میں نے ایک توقف کے بعد عرض کیا: ’’ کھائیں گے نہیں آپ کھا رہے ہیں۔‘‘
اس کے بعدجب میں نے سارا ایپی سوڈ سنایا تو پہلے تو وہ جھنجھلائے پھر اس واقعے کا مزہ اُٹھانے لگے۔
---------
’’کمال کی باتیں‘‘ میں قند مکرر کے طور پر کمال رضوی صاحب کا ایک عمدہ ترجمہ بھی شامل کیا گیا ہے۔ ترگنیف پر لکھا یہ مضمون ادب لطیف میں 1955 ء میں شائع ہوا تھا۔
اٹلانٹس پبلی کیشنز کے جناب فاروق احمد اس تمام عرصے میں راقم کے ساتھ رہے اور ہر طرح کی سہولتوں سے نوازتے رہے۔ وہ ایک کتاب دوست شخص ہیں۔ ان کی دلچسپی ہمیشہ کی طرح اس کتاب میں بھی ابتدا تا انتہا رہی۔ مجھے کہنے دیجیے کہ فاروق احمد کی مدد کے بنا یہ کام کبھی اس خوب صورت انداز میں پایہ تکمیل کو نہ پہنچ پاتا۔ اٹلانٹس پبلی کیشنز نے حالیہ برسوں میں چند انتہائی اہم ادبی کتابیں شائع کی ہیں اور ایک معتبر ادارے کی حیثیت سے سامنے آیا ہے۔ کراچی جیسے سدا کے کاروباری شہر میں فاروق احمد نے حال ہی میں ایک ایسا کام کیا ہے جس کی دوسری مثال نہیں ملتی۔ گلشن اقبال کے علاقے میں زرِ کثیر صرف کر کے ایک ’’بل بورڈ‘‘ (bill board) سال بھر کے لیے کرائے پر لیا گیا ہے جس پر اٹلانٹس کی کتابوں کے رنگا رنگ اشتہار آویزاں کردیے گئے ہیں ۔ جلد ہی اس پر ’’کمال کی باتیں‘‘ کا اشتہار بھی آویزاں کردیا جائے گا اور یہ سلسلہ اگے ایک برس تک یونہی جاری رہے گا۔بادی النظر میں یقیناًیہ گھاٹے کا سودا ہے ، اس شہر ناپرساں میں ایسا کون کرتا ہے، اپنی کمائی کو کون آگ لگاتا ہے ؟ مگر فاروق احمد کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے سے یہ امید تو رکھی جاسکتی ہے کہ دوسرے بھی اس جانب مائل ہوں گے۔کتب بینی کو فروغ حاصل ہوگا۔وہ جن کا مالِ زندگی محض کتابیں ہیں، کم از کم ان کی جانب سے پذیرائی تو ہوگی۔
صلائے عام ہے..........................
’’کمال کی باتیں ‘‘کی اشاعتی تفصیلات:
ناشر: اٹلانٹس پبلی کیشنز، کراچی
قیمت: چار سو نوے روپے
دنیا بھر میں کہیں بھی ترسیل کے لیے رابطہ:
0300-2472238 & 92-21-32578273
برقی پتہ : atlantis.publications@hotmail.com
راشد اشرف
(سرورق اور فہرست منسلک ہے)
آپ کو یاد ہوگا کہ ڈیڑھ ماہ قبل سترہ دسمبر 2015 ء کی رات آٹھ بجے لاکھوں پرستاروں کے ہر دل عزیز کمال احمد رضوی المعروف الن کراچی میں واقع اپنی قیام گاہ پر دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے تھے۔
ہم سے رخصت وہ ہوگیا لیکن
رہ گئیں ’کمال‘ کی باتیں
اتفاق دیکھیے کہ ’’کمال کی باتیں‘‘ کا،جسے اٹلانٹس پبلی کیشنز کراچی نے 5 فروری 2016 ء کو نہایت اہتمام سے شائع کیا ہے، عنوان کمال رضوی اپنی زندگی میں ہی طے کرگئے تھے۔ یہ کمال رضوی کے تحریر کردہ خاکے ہیں ۔راقم الحروف کے پاس مسودے پر کام کرنے کے لیے محض سات روز تھے، اٹلانٹس نے تہیہ کرلیا تھا کہ 5 تا 7 فروری 2016 کراچی میں منعقدہ لٹریچر فیسٹیول میں ’’کمال کی باتیں‘ ‘ ان کے اسٹال پر موجود ہونی چاہیے۔ سرورق رات کے ایک بجے بنایا گیا۔ سر پر ایسا بار، ایسی عجلت کہ الامان.............ایک موقع پر کام الجھ گیا، سرا ہی مل کے دیتا تھا، لاکھ سلجھاؤ مگر بے سود۔ مگر پھر یوں ہوا کہ دیوانگی نے اس پار سے اس پار پہنچا ہی دیا۔ کتاب شائع ہوئی تو احساس ہوا کہ بہت ہی ا ن ہونیوں، ناگفتنیوں کے باوجود صدق دل سے کام کیا جائے تو اللہ تعالی بھی مدد کرتے ہیں ۔
کتاب 500 کی تعداد میں شائع کی گئی۔طے ہوا کہ اگلے ایڈیشن میں معمولی تسامحات کو دور کردیا جائے گا۔
یہ بھی بتایا چلوں کہ جلد ہی ’’کمال کی باتیں‘‘ کی تقریب رونمائی کراچی آرٹس کونسل میں کی جائے گی۔ اس سلسلے میں بھی کچھ نہیں کرنا پڑا ،کسی کے آگے دامن کو پھیلانے کی نوبت ہی نہ آئی۔ تقریب رونمائی کی پیشکش کرنے والوں نے خود ہی کی۔ ہم نے کہا بصد شوق، نیکی اور پوچھ پوچھ۔
تین برس قبل کمال رضوی نے ایک طویل عرصے بعد قلم اٹھایا تھا اور منٹو پر ایک ادبی پرچے میں ان کا دلچسپ خاکہ شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد چند مزید خاکے مختلف جرائد میں شائع ہوئے ۔ راقم کو احساس ہوا کہ بجائے مختلف رسائل میں لکھنے کے وہ یہ سب کچھ کتابی شکل میں شائع کریں تو بہتر ہوگا۔ ایک روز موقع دیکھ کر اپنی خواہش کا اظہا رکر ڈالا۔ کمال صاحب خاموش ہوگئے، کچھ نہ کہا۔ چھ ماہ گزر گئے۔ ایک روز فون کیا اور عرض کیا:
حضور! کافی عرصے سے آپ کی کوئی تحریر کسی رسالے میں نہیں دیکھی۔
وہ ایک دم سے بولے: آپ ہی نے تو کہا تھا کہ کتاب آنی چاہیے۔
مجھ پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔ ساتھ ہی ایک احساس تفاخر نے مجھے گھیر لیا کہ انہوں نے مجھ حقیر کی بات رکھی۔
عرض کیا کہ ا چھا کیا آپ نے، اب کتاب ہی آنی چاہپیے۔
مگر پھر ان کے لکھنے کے عمل میں تعطل آتا رہا۔ اس میں ان کے موڈ کا خاصا دخل تھا۔ وہ لکھتے تھے اور پھر یک لخت سلسلہ روک دیتے تھے۔ پھر کافی عرصے کے بعد اچانک دوبارہ لکھنا شروع کردیتے تھے۔ گزشتہ ایک برس میں یہ سلسلہ ایک مرتبہ پھر رک گیا تھا۔ بہرحال جو کچھ بھی اور جتنا کچھ بھی لکھا گیا وہ غنیمت ہے۔افسوس اس بات کا ہے کہ یہ کتاب کمال صاحب کی زندگی میں شائع نہ ہوسکی۔ ان کے انتقال کے بعد اس کی فوری اشاعت ان کی اہلیہ کے بے مثال تعاون سے ہی ممکن ہوسکی ہے ۔
آپ ’’کمال کی باتیں‘‘ کا انداز تحریر دیکھیے۔ کئی مقامات پر آپ کو ’’الن‘‘ کی واضح جھلک نظر آئے گی۔ فیض کے متعلق تحریر میں ایک موقع پر جب فیض مشروبِ خاص سے اجتناب کرتے ہیں تو کمال صاحب بے اختیار جو کچھ کہہ اٹھے تھے وہ الن ہی کا انداز تھا۔
کمال احمد رضوی نے لاہور میں ایک بوہیمین طرز کی زندگی گزاری تھی۔ ’’کمال کی باتیں‘‘ کا سفاکانہ اور کھرا اندازِ تحریر اس طرز زندگی کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔بقول شخصے ایک سچ جو سبھی کے آگے کنڈلی مارے بیٹھا رہتا ہے ،ان کے آگے بھی تھا.............آئینے کا سچ۔
مجھے اس بات پر بھی فخر ہیں کہ بیگم کمال رضوی نے راقم کی درخواست پر اپنے خاوند پر ایک نہایت عمدہ اور دلچسپ تعارفی مضمون لکھا ہے۔جو لوگ پہلی مرتبہ لکھتے ہیں وہ بہت اچھا لکھتے ہیں۔ ایسا ہی ایک تجربہ مجھے اس وقت ہوا تھا جب شاہد احمد دہلوی مرحوم کے صاحب زادے نے اسی انداز کا مضمون اپنے والد پر لکھا تھا جو ان کی پہلی تحریر تھی۔بلا شبہ بیگم کمال کی تحریر ایک سچی اور جرات مند تحریر ہے۔ اپنے خاوند کی طرح انہیں بھی جھوٹ سے نفرت ہے۔ لہذا جو کچھ بھی انہوں نے لکھا ہے وہ سچ لکھا ہے۔ اس منافقانہ معاشرے میں ،میں اسے ایک تازہ ہوا کا جھونکا کہوں گا۔جب میں اسے پہلی مرتبہ پڑھ رہا تھا تو خوش گوار حیرت کا احساس میرے چہرے پر نقش ہو کر رہ گیا تھا۔میں نے استفہا میہ نظروں سے بیگم کمال کی جانب دیکھا۔ وہ مطلب ہمارا سمجھ گئیں اور جواب دیا: ’’ کمال جیسے تھے میں نے انہیں ویسا ہی پیش کیا ہے۔‘‘
اور ہمیں یوں محسوس ہوا گویا کمال صاحب کہہ رہے ہوں کہ :
میاں ! منٹو میرا پسندیدہ انسان تھا۔ اس کے خاکے میں میں نے اس سے اپنی ذہنی ہم آہنگی کے بارے میں سب کچھ لکھ دیا ہے۔ کیا تم یہ توقع کرتے ہو کہ میری بیگم مجھے بقول منٹو ڈرائی کلین کر کے رحمت اللہ علیہ کی کھونٹی پر ٹانگ دے؟
منٹو، فیض احمد فیض،حفیظ جاوید،سبطِ حسن ،رشید عمر تھانوی، شاکر علی، حمید کاشمیری، شوکت رضوی، احمد پرویز، انور جلال شمزا،تجمل حسین، ستارہ بائی کانپوری ...... غرض اس کتاب میں کمال رضوی نے ایک کہکشاں سجائی ہے اورگزرے ہوئے کل کو اپنے مخصوص انداز میں یاد کیا ہے۔ ایک ایسا انداز جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا۔
کمال احمد رضوی کا انداز تحریر بے ساختہ اور منجھا ہوا ہے اور اس میں ایک دبا دبا سا طنز لہریں لیتا ہے۔ اس اندازِ بیاں کو کون پسند نہ کرے گا کہ جب وہ اپنے نانا کا تذکرہ کرتے ہیں:
’’میں نے اپنے نانا جان خلیل احمد کو ہمیشہ دھوتی میں ہی دیکھا تھاجو وہ زیب تن کر کے شہر’گیا‘میں ہائی کورٹ کے سامنے ایک کھوکھے میں اپنے لحیم و شحیم ریمنگٹن ٹائپ رائٹر کے ساتھ براجمان ہوتے تھے۔یہ ان کے گھر سے دس منٹ کے فاصلہ پر تھااور یہ ٹائپ رائٹر ہر روز ایک مزدور ایک پیسہ یومیہ کی اجرت پر وہاں اپنے سر پر پہنچا کرآتا تھا اور وہ بیٹھ کرسائلوں کی ضرورت کے مطابق کاربن پر کاغذ چڑھا کر بے تکان عرضیاں اور وکالت نامے ٹائپ کرتے تھے ۔ اب برس ہا برس بعد مجھے اُن کی وضع قطع کے پیچھے ایک مصلحت کار فرما نظر آتی ہے۔ وہ یہ سوانگ شاید اس لئے رچانے پر مجبور تھے تا کہ مروجہ تعصب میں کوئی ہندو یا غیر مسلم کلائنٹ ہاتھ سے نہ جاتا رہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ ہمیشہ اپنے سر کے بال منڈا کرروایتی پنڈت والا روپ اختیار کئے رکھتے تھے۔ ماتھے پرقشقہ انہوں نے یوں نہیں کھینچا ہو گا تاکہ مسلمانی بھی قائم رہے۔‘‘
ایک دوسری جگہ کس بے ساختگی سے وہ اپنی بات ان الفاظ میں کہہ جاتے ہیں کہ ’’ہماری زندگی کئی کہانیوں میں بٹی ہوئی ہیں صرف ان کو ہاتھ لگانے کی دیر ہے۔ سب کچھ سامنے آجاتا ہے۔‘‘
کمال رضوی کس عمدگی سے حالا ت کے تجزیئے پر قادر تھے، اس کا اندازہ درج ذیل اقتباس سے لگایا جاسکتا ہے:
’’بھٹو صاحب نے اقتدار سنبھال لیا تھا۔ شاکر صاحب ناشتہ کی میز پر اخباروں کی سرخیاں پڑھ کر اپنی تمام تر معصومیت کے ساتھ بھٹو کو داددے رہے تھے۔ اس لئے کہ وہ ہر روز ایک ادارے کو پرائیویٹائز کر رہے تھے۔ اور پاکستان بھر کے مزدوروں کو روٹی کپڑا اور مکان کا مژدہ سنا کر ملوں کارخانوں کے جلاؤ گھیراؤ کا تحفہ پیش کر رہے تھے۔اصل میں ہمیں تبدیلی چاہیے ہوتی ہے۔ تبدیلی ہر قیمت پر تبدیلی خواہ وہ مارشل لاء ہی کیو ں نہ ہو۔ جب نتائج آنا شروع ہوتے ہیں تو ہمیں آٹے دال کا بھاؤمعلوم ہونے لگتا ہے تو پھر ہم دوسری تبدیلی کے لئے تیارہو جاتے ہیں۔‘‘
یوں تو اس پوری کتاب ہی میں جا بجا ایسے ٹکڑے بکھرے ہوئے ہیں جہاں کمال رضوی کے قلم سے بلا کا طنز و مزاح نکلا ہے مگر شاکر علی پر لکھے خاکے میں ایک کرنل صاحب کی کتیا اور شاکر علی کے کتے کے ملاپ کے سلسلے میں جو واقعہ درج ہے اسے پڑھ کر آپ اپنی بے ساختہ مسکراہٹ پر قابو نہ رکھ سکیں گے۔ مذکورہ خاکہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ اس میں رفیع خاور کا تذکرہ بھی ہے اور اس عورت کا بھی جس کی وجہ سے رفیع خاور کو اپنی جان اپنے ہی ہاتھوں سے لینی پڑی تھی۔مذکورہ خاکے میں کمال رضوی لکھتے ہیں:
شاکر علی کے ساندہ روڈ والا بنگلہ جُو ان کو کالج کی طرف سے ملا ہوا تھا بڑے مزے کی جگہ تھی۔ میرے علاوہ یہاں شاکر علی صا حب کا ایک چہیتا کتّا بھی ہوتا تھا جس کانام انہوں نے سیزر رکھا تھا۔شاکر صاحب کو اس کتّے سے خاصی انسیت تھی۔ ایک دن میں بنگلہ کے عریض لان میں بیٹھا گلاب کے پھولوں کو تک رہا تھا۔ سیزر بھی میرے سا منے گلہریوں کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔ میں اس کھیل سے ابھی محظوظ ہو ہی رہا تھا کہ گیٹ کے اندر ایک جیپ داخل ہوئی جس میں ایک ریٹائرڈ فوجی کرنل مع اپنی کتّیا کے اسٹیرنگ پربیٹھاداخل ہوا۔ اس نے انگریزی میں مجھ سے پوچھا:
’’ تمھارا باپ گھر پر ہے‘‘؟
میں سمجھ گیا کہ وہ شاکر صاحب کا پوچھ رہا ہے۔ میں نے کہا:’’ نہیں وہ کالج میں ہوں گے۔‘‘
’’ویری گڈُ‘‘۔اس نے فوجی لہجے میں اطمینان ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
’’ فرمائیے‘‘۔ میں نے پوچھا ’’میں آپ کے لئے کیا کر سکتا ہوں ؟‘‘
’’جو تمھارا باپ نہیں کر سکا۔‘‘
’’مطلب؟؟
’’ تمھارا باپ بہت ہٹ دھرم قسم کا آدمی ہے وہ کسی کی بات سننے کو تیار ہی نہیں ہوتا۔‘‘
’’ کیا بات‘‘۔میں نے پوچھا۔
’’ میں نے ان سے کئی بار کہا کہ تم اپنے کتّے کا اور میری جولی کا میل کردو۔‘‘
’’ آپ کا مطلب ہے‘‘.....میں نے بھانپتے ہوئے پوچھا:’’ جولی کا سیزر سے میل‘‘....؟
’’ ہاں وہی لیکن تمھارے باپ نے صاف انکار کر دیا اوربولا نکل جا ؤیہاں سے۔ آئیندہ میں تمھاری شکل نہ دیکھوں۔ حالانکہ میں رقم بھی ادا کرنے کو تیار تھا۔‘‘
میں نے پوچھا:’’ کتنی رقم؟‘‘
کرنل بولا: ’’ یہی کوئی ڈھائی تین سو روپے۔‘‘
میں نے کہا :یہ تو بہت تھوڑے ہیں۔
کرنل نے رقم میں معقول اضافہ کر دیا تو میں نے جولی کو اس کے حوالے کر دیا۔
کرنل نے فوجی انگریزی میں بڑی دعائیں دیں اور رقم ڈھیلی کر تے ہوئے جولی اور سیزر کی پیڈگری پر ایسی مفید معلومات فراہم کیں جن سے اب تک میں نا آشنا تھا۔ وہ مطمئن اور آسودہ ہو کر جب جیپ میں سوار ہو کر جانے لگا تو اس نے مجھے بڑے زور کا سیلو ٹ مارااور جاتے ہوئے کئی بار ہاتھ ہلائے اور فوجی تپاک کااظہار کیا۔
اس شام میں نے شاکر صاحب کو ایک اچھے سے ہوٹل میں ڈنر کی آفر کی تو شاکر صاحب کی باچھیں کِھل گئیں اوروہ ترنگ میں بولے:’’ پھر ڈنر سے پہلے کے لوازمات میری طرف سے ہوں گے۔‘‘
ہم جب لوازمات سے فارغ ہو کر شیزان پہنچے تو شاکر کی پسند کی ڈشیں آ رڈر ہوئیں جو شاکر بہت مزے لے لے کر کھارہے تھے۔ میں نے جب ان سے پوچھاکہ شاکر صاحب یہ کرنل صاحب کا کیا قصّہ ہے وہ آج پھر آئے تھے۔ شاکر مسکراتے ہوئے بولے:
’’کرنل پاگل ہے۔یاروہ اپنی کتّیا کے لئے سیزر کو مانگ رہا تھا۔‘‘
’’ اچھا؟پھر؟‘‘
’’میرے انکار پر اُس نے کچھ رقم کا بھی لالچ دیا۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’یار اب ہم اتنے گئے گزرے ہو گئے کہ اپنے کتّے کی کمائی کھائیں گے۔‘‘
میں نے ایک توقف کے بعد عرض کیا: ’’ کھائیں گے نہیں آپ کھا رہے ہیں۔‘‘
اس کے بعدجب میں نے سارا ایپی سوڈ سنایا تو پہلے تو وہ جھنجھلائے پھر اس واقعے کا مزہ اُٹھانے لگے۔
---------
’’کمال کی باتیں‘‘ میں قند مکرر کے طور پر کمال رضوی صاحب کا ایک عمدہ ترجمہ بھی شامل کیا گیا ہے۔ ترگنیف پر لکھا یہ مضمون ادب لطیف میں 1955 ء میں شائع ہوا تھا۔
اٹلانٹس پبلی کیشنز کے جناب فاروق احمد اس تمام عرصے میں راقم کے ساتھ رہے اور ہر طرح کی سہولتوں سے نوازتے رہے۔ وہ ایک کتاب دوست شخص ہیں۔ ان کی دلچسپی ہمیشہ کی طرح اس کتاب میں بھی ابتدا تا انتہا رہی۔ مجھے کہنے دیجیے کہ فاروق احمد کی مدد کے بنا یہ کام کبھی اس خوب صورت انداز میں پایہ تکمیل کو نہ پہنچ پاتا۔ اٹلانٹس پبلی کیشنز نے حالیہ برسوں میں چند انتہائی اہم ادبی کتابیں شائع کی ہیں اور ایک معتبر ادارے کی حیثیت سے سامنے آیا ہے۔ کراچی جیسے سدا کے کاروباری شہر میں فاروق احمد نے حال ہی میں ایک ایسا کام کیا ہے جس کی دوسری مثال نہیں ملتی۔ گلشن اقبال کے علاقے میں زرِ کثیر صرف کر کے ایک ’’بل بورڈ‘‘ (bill board) سال بھر کے لیے کرائے پر لیا گیا ہے جس پر اٹلانٹس کی کتابوں کے رنگا رنگ اشتہار آویزاں کردیے گئے ہیں ۔ جلد ہی اس پر ’’کمال کی باتیں‘‘ کا اشتہار بھی آویزاں کردیا جائے گا اور یہ سلسلہ اگے ایک برس تک یونہی جاری رہے گا۔بادی النظر میں یقیناًیہ گھاٹے کا سودا ہے ، اس شہر ناپرساں میں ایسا کون کرتا ہے، اپنی کمائی کو کون آگ لگاتا ہے ؟ مگر فاروق احمد کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے سے یہ امید تو رکھی جاسکتی ہے کہ دوسرے بھی اس جانب مائل ہوں گے۔کتب بینی کو فروغ حاصل ہوگا۔وہ جن کا مالِ زندگی محض کتابیں ہیں، کم از کم ان کی جانب سے پذیرائی تو ہوگی۔
صلائے عام ہے..........................
’’کمال کی باتیں ‘‘کی اشاعتی تفصیلات:
ناشر: اٹلانٹس پبلی کیشنز، کراچی
قیمت: چار سو نوے روپے
دنیا بھر میں کہیں بھی ترسیل کے لیے رابطہ:
0300-2472238 & 92-21-32578273
برقی پتہ : atlantis.publications@hotmail.com