ہاے ! ندا فاضلی نہ رھے
Posted: Tue Feb 09, 2016 4:50 pm
میں ندا فاضلی کو اسکول کے زمانے سے دیکهتا آیا ہوں. ممبئی میں بھنڈی بازار کی سڑک پر دو ہوٹلیں - وزیر ریسٹورنٹ اور جباری ہوٹل - بہت مشہور تهیں. آج سے کم و بیش 60 -65 سال قبل ان دونوں ہوٹلوں کی فٹ پاتھ شام ڈھلے ادیب وشعراء کے ملنے کا مرکز تهی، بالخصوص جباری کی فٹ پاتھ کا کونہ جو پٹهان باڑی کی طرف نکلتا ہے. اس کونے کی وجہ سے خاصی جگہ ہوجاتی تھی اور پیدل چلنے والے مسافروں کو زیادہ دقت نہیں ہوتی تھی. علاوہ جباری کے سامنے واقع ایک مسجد میں صلوٰۃ کے پابند شعراء مغرب پڑھ لیتے تهے.
جباری چائے کےلئے مشہور تهی اور ہم چار پانچ دوست جباری میں چائے پینے جایا کرتے تھے. دو چائے ہم سب مل کر پیتے اور ہوٹل سے باہر ان ادبی شخصیات کو دیکھتے، انکی گفتگو سمجھنے کی کوشش کرتے اور جب کچھ سمجھ میں نہیں آتا تو انکی دوران گفتگو والی حرکتوں کی نقالی کرتے، انهیں دانستہ چھیڑتے اور اگر کوئی آنکھ دکھاتا یا غصے کا اظہار کرتا تو مزید چڑا کر بهاگ لیتے.
دبلے پتلے ندا فاضلی صاحب سے میں واقف تها. وہ حجرے محلے میں واقع بزم احباب لائبریری میں منجھلے ماموں سے ملنے اکثر آتے تھے.
انہیں میں انہی ادبی شخصیات کے جهرمٹ اکثر دیکها کرتا تها. وہ ہمیشہ لمبی آستین کی بش شرٹ و پتلون پہنتے تھے اور ان کے کلام کی بیاض انکی بغل میں دبی رہتی تهی جبکہ دیگر حضرات ہاتھ میں بیاض تهامے رہتے تھے. بیاض کو بغل میں دبائے رکهنا ہمارے تجسس کا سبب تها.
ہم میں سے کوئی بھی دوست کسی بھی شاعر و ادیب کے نام سے واقف نہیں تها لیکن اکثر کو چہروں سے جانتے تھے کیونکہ وہ بهی اکثر بزمِ احباب آجاتےتهے.
ایک دن دوستوں کے ساتھ مل کر پلان بنا کہ جو صاحب (ندا فاصلی صاحب) بغل میں بیاض دبائے رہتے ہیں ان کی ڈائری اڑالی جائے. پر کیسے.
طے یہ ہوا کہ میں پیچھے سے ڈائری کھینچ پٹهان باڑی کی طرف بهاگ جاؤنگا اور باقی دوست ان حضرت کے گرد حلقہ بنا لیں گے تاکہ وہ مجهے پکڑنے بهاگ نہ سکیں. ایک نے سجهاو دیا کہ اگر کوئی پکڑنے دوڑے تو اسے لانگ مار کر گرادیا جائے. لیکن ہم سب نے انکار کردیا (پیر کے پنجے سے کسی چلتے ہوئے شخص کے پیر پر مارنے کو لانگ مارنا کہتے تھے)
اور میں ان کی بیاض لے اڑا.
گهر پہنچ کر ڈائری بستے میں چهپا دی. میں ان دنوں پانچویں یا چهٹی جماعت میں تها. دوسرے دن اسکول کے وقفے کے دوران کچھ پڑها لیکن سمجھ کچھ نہیں آیا. لیکن انکا ایک کلام جس میں ماں اور بیسن کی روٹی کا زکر تها اچھا لگا. وہ ڈائری میں نے خود دو دونوں بعد ندا فاضلی صاحب کو لوٹا دی تھی. پوری ڈائری روشنائی والے قلم سے لکهی ہوئ تهی. اس وقت بال پین کا رواج نہیں تھا
آج سے تقریباً 15 - 17 سال قبل ندا صاحب ہندوستانی سفارتخانے کے سالانہ مشاعرے میں شرکت کے لئے آئے تهے تب ان سے ملاقات میرے ساتھی و دوست صحافی جناب عرفان اقبال خان صاحب کے ساتھ ہوئ. ندا صاحب اور عرفان خانصاحب کے والد محترم ڈاکٹر پروفیسر اقبال خانصاحب کے گھریلو مراسم رہے ہیں. دوران گفتگو میں نے میں نے ان پوچھا: "کیا آپ نے مجھے پہچانا" اورپهر انہیں وہ نٹ کھٹ واقعہ یاد دلایا. تهوڑا حافظے پر زور دیا. ان کے چہرے پر خفیف سی مسکراہٹ تھی اوربس مجھے یک ٹک دیکهے جا رہے تھے. شاید متنبہ کر رہے ہوں کہ بیٹا پانچ دہے والے قبل کے ندا فاضلی اور آج کے ندا فاضلی میں بڑا فرق ہے اور یہ کہ میں جہاں مارکس کے خیالات کی قدر کرتا ہوں وہیں میرا، کبیر اور غالب و میر کا بھی شیدائی ہوں. علاوہ اب میں اپنے آپ میں الجھا اور خلاء میں گھورتا کچھ تلاش کرتا نوجوان نہیں بلکہ زندگی کے لیل و نہار دیکها ہوا تجربہ کار عملی انسان ہوں.
عرفان خاموش کبھی ندا صاحب کو دیکھتے تو کبھی مجهے.
ہم بہت دیر تک مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے رہے. زیادہ سنتے رہے کچھ سناتے رہے. کچھ بےتکلفی ہوئ تو میں نے ان کا یہ شعر
تو قریب آئے تو قربت کا اظہار کروں
آئینہ سامنے رکھ کر تیرا دیدار کروں
سنا کر پوچھا کہ قربت کا اظہار کیا یا نہیں تو کچھ نہیں کہا. شاید وجہ یہ رہی ہو کہ عرفان انہیں انکل کہہ کر مخاطب کر رہے تهے اور اپنے سے کم عمر سے لحاظ کا پاس مانع تها جواب میں. آج سوچتا ہوں کہ شاید یہی وہ پاس تها جس نے ندا صاحب کو میری شرارت پر سرزنش کرنے سے روکے رکھا تها. وہ میرے منجھلے ماموں سے میری شکایت بهی کر سکتے تھے.
ندا فاضلی صاحب دارالقرار چلے گئے.
خاک سے اٹهے تهے خاک کے ہوگئے.
اب کا ایک شعر ہے:
وقت کے ساتھ ہے مٹی کا سفر صدیوں سے
کس کو معلوم کہاں کے ہیں کدھر کے ہیں ہم
میرے دوست سعید راہی کے شعری مجموعہ "گاهے گاهے" پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ: "سعید راہی زندگی کی محبت کے شاعر ہیں. اس میں شکایت کی گنجائش کم ہے. ... ہماری شاعری کا ایک بڑا حصہ زندگی اور معاشرہ کی شکوہ شکایت سے بھرا ہوا ہے. ...".
میری دانست میں ندا صاحب خود زندگی کی محبت کے شاعر تھے گو شکایت انهوں نے بهی کی:
کہاں چراغ جلائیں کہاں گلاب رکهیں
چھتیں تو ملتی ہیں لیکن مکاں نہیں ملتا
مرزا
جباری چائے کےلئے مشہور تهی اور ہم چار پانچ دوست جباری میں چائے پینے جایا کرتے تھے. دو چائے ہم سب مل کر پیتے اور ہوٹل سے باہر ان ادبی شخصیات کو دیکھتے، انکی گفتگو سمجھنے کی کوشش کرتے اور جب کچھ سمجھ میں نہیں آتا تو انکی دوران گفتگو والی حرکتوں کی نقالی کرتے، انهیں دانستہ چھیڑتے اور اگر کوئی آنکھ دکھاتا یا غصے کا اظہار کرتا تو مزید چڑا کر بهاگ لیتے.
دبلے پتلے ندا فاضلی صاحب سے میں واقف تها. وہ حجرے محلے میں واقع بزم احباب لائبریری میں منجھلے ماموں سے ملنے اکثر آتے تھے.
انہیں میں انہی ادبی شخصیات کے جهرمٹ اکثر دیکها کرتا تها. وہ ہمیشہ لمبی آستین کی بش شرٹ و پتلون پہنتے تھے اور ان کے کلام کی بیاض انکی بغل میں دبی رہتی تهی جبکہ دیگر حضرات ہاتھ میں بیاض تهامے رہتے تھے. بیاض کو بغل میں دبائے رکهنا ہمارے تجسس کا سبب تها.
ہم میں سے کوئی بھی دوست کسی بھی شاعر و ادیب کے نام سے واقف نہیں تها لیکن اکثر کو چہروں سے جانتے تھے کیونکہ وہ بهی اکثر بزمِ احباب آجاتےتهے.
ایک دن دوستوں کے ساتھ مل کر پلان بنا کہ جو صاحب (ندا فاصلی صاحب) بغل میں بیاض دبائے رہتے ہیں ان کی ڈائری اڑالی جائے. پر کیسے.
طے یہ ہوا کہ میں پیچھے سے ڈائری کھینچ پٹهان باڑی کی طرف بهاگ جاؤنگا اور باقی دوست ان حضرت کے گرد حلقہ بنا لیں گے تاکہ وہ مجهے پکڑنے بهاگ نہ سکیں. ایک نے سجهاو دیا کہ اگر کوئی پکڑنے دوڑے تو اسے لانگ مار کر گرادیا جائے. لیکن ہم سب نے انکار کردیا (پیر کے پنجے سے کسی چلتے ہوئے شخص کے پیر پر مارنے کو لانگ مارنا کہتے تھے)
اور میں ان کی بیاض لے اڑا.
گهر پہنچ کر ڈائری بستے میں چهپا دی. میں ان دنوں پانچویں یا چهٹی جماعت میں تها. دوسرے دن اسکول کے وقفے کے دوران کچھ پڑها لیکن سمجھ کچھ نہیں آیا. لیکن انکا ایک کلام جس میں ماں اور بیسن کی روٹی کا زکر تها اچھا لگا. وہ ڈائری میں نے خود دو دونوں بعد ندا فاضلی صاحب کو لوٹا دی تھی. پوری ڈائری روشنائی والے قلم سے لکهی ہوئ تهی. اس وقت بال پین کا رواج نہیں تھا
آج سے تقریباً 15 - 17 سال قبل ندا صاحب ہندوستانی سفارتخانے کے سالانہ مشاعرے میں شرکت کے لئے آئے تهے تب ان سے ملاقات میرے ساتھی و دوست صحافی جناب عرفان اقبال خان صاحب کے ساتھ ہوئ. ندا صاحب اور عرفان خانصاحب کے والد محترم ڈاکٹر پروفیسر اقبال خانصاحب کے گھریلو مراسم رہے ہیں. دوران گفتگو میں نے میں نے ان پوچھا: "کیا آپ نے مجھے پہچانا" اورپهر انہیں وہ نٹ کھٹ واقعہ یاد دلایا. تهوڑا حافظے پر زور دیا. ان کے چہرے پر خفیف سی مسکراہٹ تھی اوربس مجھے یک ٹک دیکهے جا رہے تھے. شاید متنبہ کر رہے ہوں کہ بیٹا پانچ دہے والے قبل کے ندا فاضلی اور آج کے ندا فاضلی میں بڑا فرق ہے اور یہ کہ میں جہاں مارکس کے خیالات کی قدر کرتا ہوں وہیں میرا، کبیر اور غالب و میر کا بھی شیدائی ہوں. علاوہ اب میں اپنے آپ میں الجھا اور خلاء میں گھورتا کچھ تلاش کرتا نوجوان نہیں بلکہ زندگی کے لیل و نہار دیکها ہوا تجربہ کار عملی انسان ہوں.
عرفان خاموش کبھی ندا صاحب کو دیکھتے تو کبھی مجهے.
ہم بہت دیر تک مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے رہے. زیادہ سنتے رہے کچھ سناتے رہے. کچھ بےتکلفی ہوئ تو میں نے ان کا یہ شعر
تو قریب آئے تو قربت کا اظہار کروں
آئینہ سامنے رکھ کر تیرا دیدار کروں
سنا کر پوچھا کہ قربت کا اظہار کیا یا نہیں تو کچھ نہیں کہا. شاید وجہ یہ رہی ہو کہ عرفان انہیں انکل کہہ کر مخاطب کر رہے تهے اور اپنے سے کم عمر سے لحاظ کا پاس مانع تها جواب میں. آج سوچتا ہوں کہ شاید یہی وہ پاس تها جس نے ندا صاحب کو میری شرارت پر سرزنش کرنے سے روکے رکھا تها. وہ میرے منجھلے ماموں سے میری شکایت بهی کر سکتے تھے.
ندا فاضلی صاحب دارالقرار چلے گئے.
خاک سے اٹهے تهے خاک کے ہوگئے.
اب کا ایک شعر ہے:
وقت کے ساتھ ہے مٹی کا سفر صدیوں سے
کس کو معلوم کہاں کے ہیں کدھر کے ہیں ہم
میرے دوست سعید راہی کے شعری مجموعہ "گاهے گاهے" پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ: "سعید راہی زندگی کی محبت کے شاعر ہیں. اس میں شکایت کی گنجائش کم ہے. ... ہماری شاعری کا ایک بڑا حصہ زندگی اور معاشرہ کی شکوہ شکایت سے بھرا ہوا ہے. ...".
میری دانست میں ندا صاحب خود زندگی کی محبت کے شاعر تھے گو شکایت انهوں نے بهی کی:
کہاں چراغ جلائیں کہاں گلاب رکهیں
چھتیں تو ملتی ہیں لیکن مکاں نہیں ملتا
مرزا