Page 1 of 1

زبیررضوی کے انتقال پر اظہارتعزیت

Posted: Sun Feb 21, 2016 5:20 pm
by Muzaffar Ahmad Muzaffar
زبیررضوی کے انتقال پر اظہارتعزیت


نئی دہلی 20فروری:
یکایک زبیر رضوی کی یہ افسوسناک خبر ملی کہ دلی اردو اکیڈمی کے منعقدہ ایک سمینار میں وہ اپنی صدارتی تقریر کرتے کرتے جاں بحق ہوگئے۔ چھ ،سات ماہ قبل ہی ان کی برین سرجری ہوئی تھی۔ آپریشن کامیاب ہوا تھا، لیکن ڈاکٹروں نے ذہنی تناؤ سے بچنے کی خاص ہدایت کی تھی۔ پچھلے کئی ماہ سے وہ احباب سے بھی بہ مشکل مل پارہے تھے۔ ایسی حالت میں انھوں نے اپنے رسالے ’ذہن جدید‘ کو جاری رکھا۔ اردو ادب ایک صاف گواور صاف باطن ادیب سے محروم ہوگئی۔ اردو مجلس ، دہلی نے تعزیتی جلسہ منعقد کرکے انہیں یاد کیا اور ایصال ثواب کے لیے دعائیں کیں۔ 
پروفیسر عتیق اللہ نے گزشتہ پچاس برسوں سے ان کے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے انھیں ایک اہم شاعر اور صحافی قرار دیا جن کا تخلیقی سفر کم و بیش پینسٹھ برسوں پر پھیلا ہوا ہے۔ مرحوم بہ یک وقت کئی خوبیوں کے مالک تھے۔ ادب و زندگی کا ایک خاص تصور رکھتے تھے۔ ترقی پسندی اور جدیدیت دونوں تحریکات کے بہترین عناصر ان کی شاعری میں کار فرما تھے۔ ہمیشہ اپنے اصولوں پر قایم رہے ، کبھی دربارداری کی نہ کسی صاحبِ حل و عقد سے کوئی توقع رکھی ۔ گزشتہ اٹھارہ برسوں سے ’ذہن جدید‘ کو جاری رکھا۔ پریس سے لے کر پوسٹ تک کے سارے کام اکیلے انجام دیتے تھے۔ ’ذہن جدید‘ کے فلم، ڈرامہ اور فنون سے متعلق کالم خود ہی لکھتے تھے۔ ’ذہن جدید‘ کے اداریے ان کی حقیقت بیانی اور صاف گوئی کے مظہر ہوا کرتے تھے۔ ہمارے دور کے ان اردو دشمنوں کے خلاف ہمیشہ صف آرا رہے جن کا ظاہر کچھ ہے، باطن کچھ۔ جن لوگوں کی مکاری، ریاکاری اور منافقت کا کچا چٹھا وہ پیش کرتے رہے، ان کے پاس وسیع تر اختیارات تھے۔ لیکن زبیر رضوی نے کبھی کسی سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ آخر دم تک حق کی لڑائی لڑتے رہے اور المیہ یہ کہ وہ اپنی جنگ میں اکیلے تھے۔ ان کے بعد یہ میدان بھی خالی ہے۔ شہادت کا دستور ختم ہوگیا۔
پروفیسر صادق نے گزشتہ پچاس ، پچپن برسوں کے تعلقات کا ذکر کیا اور بہت سی یادوں کے حوالے دیے۔ انھوں نے ’ذہن جدید‘ کو ایک تحریک کا نام دیا جس نے نئی نسلوں کی ذہن سازی میں سرگرم حصہ لیا تھا۔ زبیر رضوی نے کئی نئے شعرا اور نئے افسانہ نگاروں سے متعارف کرایا۔ زبیر رضوی کے ایک انتہائی متوازن اور طاقتور مجلے سے بھی محروم ہوگئے۔ اگر کچھ احباب اسے جاری رکھنے کا تہیہ کریں تو یہ ایک بڑی خدمت ہوگی۔ زبیر صاحب نے شاعری کے علاوہ آرٹ پر ہزاروں صفحات لکھے ہیں ،انھیں بھی منظر عام پر لانا چاہیے۔ ان کے اداریے بھی ہمیشہ لائق توجہ رہے ہیں۔ انھیں بھی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ اپنے آپ میں ایک ادارہ تھا، ان کی تلافی آسان نہ ہوگی۔
پروفیسر ابن کنول نے زبیر رضوی کو اردو کا مجاہد قرار دیا جو محض ایک شاعر نہیں تھے بلکہ ان کا ایک وژن تھا جس کا اطلاق ان کی ساری تحریروں میں ملتا ہے۔ پروفیسر کنول نے یہ بھی فرمایا کہ جدیدیت کے ہنگاموں میں قاری کہیں گم ہوگیا تھا، زبیر بھائی نے اسے بحال کیا اور ’ذہن جدید‘ میں ادب کے علاوہ عام قاریوں کی دلچسپی کا سامان وافر ہوا کرتا تھا۔ زبیر صاحب وضع دار انسان تھے۔ وہ مسلسل لکھتے رہے۔ ان کے غیر مطبوعہ کلام اور منتشر تحریروں کی اشاعت ہونی چاہیے۔ ایسے حق گو ہمیشہ نقصان میں رہتے ہیں اور انھوں نے بہت سے نقصان بھی اٹھائے۔ اپنی صحت کی طرف توجہ نہیں دی۔ میں نے انہیں ہمیشہ بروئے کار ہی دیکھا۔ دماغی آپریشن کے بعد بھی ’ذہن جدید‘ کا تازہ شمارہ دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ ان دعاؤں کے ساتھ یہ جلسہ اختتام پذیر ہوا کہ خدا ان کے درجات بلند کرے اور ان کے قرابت داروں کو صبر کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین