Page 1 of 1

قدرت اللّه شہاب

Posted: Fri Feb 26, 2016 10:40 pm
by Muzaffar Ahmad Muzaffar
نامور ادیب قدرت اللہ شہاب کی سال گرہ ہے
قدرت اللہ شہاب 26 فروری 1917ء کو گلگت میں پیدا ہوئے تھے۔ 1941ءمیں گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادبیات میں ایم اے کرنے کے بعد وہ انڈین سول سروس میں شامل ہوئے۔ ابتدا میں انہوں نے بہار، اڑیسہ اور بنگال میں خدمات انجام دیں۔ قیام پاکستان کے بعد وہ متعدد اہم انتظامی عہدوں پر فائز رہے جن میں حکومت آزاد کشمیرکے سیکریٹری جنرل، وفاقی سیکریٹری وزارت اطلاعات، ڈپٹی کمشنر جھنگ، ڈائریکٹر انڈسٹریز حکومت پنجاب اور گورنر جنرل غلام محمد، اسکندر مرزا اور صدر ایوب خان کے پرائیویٹ سیکریٹری، سیکریٹری اطلاعات، ہالینڈ میں پاکستان کے سفیر اور سیکریٹری تعلیم کے مناصب شامل تھے۔ یحییٰ خان کے دور حکومت میں وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوکر اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسکو سے وابستہ ہوگئے۔ اس زمانے میں انہوں نے مقبوضہ عرب علاقوں میں اسرائیل کی شرانگیزیوں کا جائزہ لینے کے لئے ان علاقوں کا خفیہ دورہ کیا اور اسرائیل کی زیادتیوں کا پردہ چاک کیا۔ شہاب صاحب کی اس خدمات کی بدولت مقبوضہ عرب علاقوں میں یونیسکو کا منظور شدہ نصاب رائج ہوگیا جو فلسطینی مسلمانوں کی ایک عظیم خدمت تھی۔
قدرت اللہ شہاب کا ایک اہم کارنامہ پاکستان رائٹرز گلڈ کی تشکیل تھا۔ وہ خود بھی اردو کے ایک اچھے ادیب تھے ان کی تصانیف میں یاخدا، نفسانے، ماں جی اور سرخ فیتہ کے علاوہ ان کی خودنوشت سوانح عمری شہاب نامہ شامل ہے۔
قدرت اللہ شہاب 24 جولائی 1986ءکو اسلام آباد میں وفات پاگئے اور وہیں آسودہ خاک ہوئے۔
یوں تو آپس کی روٹھ راٹھ ، چھوٹی موٹی ناراضگیاں ہمارے درمیان درجنوں بار ویسے ہی ہوئیں جیسے ہر میاں بیوی کے درمیان ہونا چاہیے۔ لیکن ہماری اصل بڑی لڑائی ایک بار ہوئی، اسلام آباد میں ہم نے اپنے ڈرائنگ روم کے لئے قالین خریدنا تھا، میں نے بڑے شوق سے ایک قالین پسند کیا جس کی زمین سفید اور رنگین پھول تھے، عفت نے اُسے یوں مسترد کر دیا جیسے سبزی فروش کو اُلٹے ہاتھوں باسی پالک، مولی، گاجر اور گوبھی کے پھول لوٹا رہی ہو، مجھے بڑا رنج ہوا۔ گھر آ کر میں نے سارا دن اُس سے کوئی بات نہ کی۔
رات کو وہ کہنے لگی
دیکھ تیرا منہ پہلے ہی بڑا گول ہے، جب تُو ناراض ہوتا ہے تو یہ اور بھی گول مٹول ہو جاتا ہے، آج بھلا تُو اتنا ناراض کیوں ہے؟
میں نے قالین کی بات اُٹھائی۔
قالین تو نہایت عمدہ ہے
اُس نے کہا
لیکن ہمارے کام کا نہیں
میں نے پوچھا
کیوں؟
دراصل بات یہ ہے
وہ بولی، جن لوگوں کے لئے یہ قالین بنا ہے، اُن میں سے کوئی ہمارے ہاں نہیں آتا۔
کیا مطلب؟ میں نے تلخی سے دریافت کیا
وہ اُٹھ کر بیٹھ گئی اور اسکول کی اُستانی کی طرح بڑی وضاحت سے گِن گِن کر سمجھانے لگی کہ ہمارے ہاں ابنِ انشاء آتا ہے، وہ پھسکڑا مار کر فرش پر بیٹھ جاتا ہے، ایک طرف مالٹے، دوسری طرف مونگ پھلی، سامنے گنڈیریوں کا ڈھیر، جمیل الدین عالی آتا ہے، آتے ہی فرش پر لیٹ جاتا ہے اور سگریٹ پر سگریٹ پی کر اُن کی راکھ ایش ٹرے میں نہیں بلکہ اپنے ارد گرد قالین پر بکھیرتا ہے۔ ممتاز مفتی ایک ہاتھ میں کُھلے پان اور دوسرے ہاتھ میں زردے کی پڑیا لئے آتا ہے۔ اشفاق احمد قالین پر اخبار بچھا کر اس پر تربوز چیرنا پھاڑنا شروع کر دیتا ہے۔ ملتان سے ایثار راعی آم اور خربوزے لے کر آئے گا، ڈھاکہ سے جسیم الدین کیلے اور رس گُلوں کی ٹپکتی ہوئی ٹوکری لائے گا، وہ یہ سب تحفے لا کر بڑے تپاک سے قالین پر سجا دیتے ہیں، سال میں کئی بار ممتاز حسین شاہ بی۔ اے، ساٹھ سال کی عمر میں ایم ۔ اے انگلش کی تیاری کرنے آتا ہے اور فاؤنٹین پین چِھڑک چِھڑک کر اپنی پڑھائی کرتا ہے، صرف ایک راجہ شفیع ہے جب کبھی وہ مکئی کی روٹی، سرسوں کا ساگ اور تازہ مکھن اپنے گاؤں سے لے کر آتا ہے تو آتے ہی انہیں قالین پر نہیں اُنڈیلتا بلکہ بڑے قرینے سے باورچی خانے میں جا کر رکھ دیتا ہے، کیونکہ نہ تو وہ شاعر ہے نہ ادیب، فقط ہمارے دوستوں کا دوست ہے۔ بات نہایت سچی تھی، چناںچہ ہم نے ایک نہایت میل خوردہ قالین خرید کر آپس میں صلح کر لی۔
شہاب نامہ سے اقتباس۔۔ از قدرت اللہ شہاب