Page 1 of 1

میرا جی

Posted: Mon Feb 29, 2016 7:35 pm
by Muzaffar Ahmad Muzaffar
ر

عمرو بن حسین بازہر اطہر


میراجی کا پیدائشی نام محمد ثنااللہ ثانی ڈار تھا ۔ وہ منشی محمد مہتاب الدین کے گھر 25 مئی 1912 کو لاہور میں پیدا ہوئے ۔ انھیں کم سنی سے ہی شاعری کا شوق رہا ابتداء میں ’’ساحری‘‘ تخلص اختیار کیا تھا بعد میں انھیں ایک بنگالی لڑکی سے عشق ہوگیا یعنی وہ میرا سین کے ایک طرفہ عشق میں گرفتار ہوئے اور ’’ساحری‘‘ کے بجائے ’’میراؔؔ جی‘‘ تخلص اختیار کرلیا جو اتنا مشہور ہوا کہ آج بھی ہم انھیں اسی نام سے جانتے ہیں ۔
تاریخ ادب اردو میں 1930 تا 1950 کا زمانہ نہایت اہم رہا ، چونکہ شعری ادب میں کئی ایک تبدیلیاں رونما ہوئیں خصوصاً وہ دور جدید نظم کے لئے بڑا اہم رہا ۔ اس عہد میں ان تبدیلیوں کے لئے کئی ایک شعراء نے اپنا اپنا کردار نبھایا ہے ۔ لیکن اس خصوص میں میراجی اور ن م راشد کا نام سرفہرست آتا ہے جنہوں نے اردو میں جدید نظم کی داغ بیل ڈالی اور جدید نظم کو موضوع اور ہئیت کے اعتبار سے نئی وسعتوں سے روشناس کرانے میں جن شعراء نے ایک اہم کردار ادا کیا تھا ان میں میراجی کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ میراجی کی شاعری ہندوستانی فضا اور ہندوستانی کلچر کی غماز ہے ۔ انھوں نے ہندو دیومالا اور اساطیری موضوعات کو اپناتے ہوئے اور ماضی کی جانب مراجعت کرتے ہوئے شاعری کو ایک نیا رنگ ، نیا روپ اور نیا انداز عطا کیا ۔
میراجی کی نظموں میں ہندوستانی تہذیب کے علاوہ ہندوستان کے ارضی مظاہروں کی جھلک بھی صاف دکھائی دیتی ہے اور ان کی نظموں میں دھرتی کا لمس اور مٹی کی خوشبو بھرپور انداز میں ظاہر ہوتی ہے ۔ یہاں تک کہ انھوں نے عام محاورے ، تلمیحات اور استعارات وغیرہ کو بھی ہندی زبان سے ہی اخذ کئے ہیں ۔ جو اس بات کا اشارہ ہے کہ انھیں دیومالائی اور ہندی زبان پر کافی مہارت حاصل تھی تبھی تو انھوں نے اس بات کا گہرا اثر قبول کیا مثلاً
دھرتی پر بربت کے دھبے ، دھرتی پر دریاکا جال
گہری جھیلیں چھوٹے ٹیلے ، بڑے نالے بادل تال
کالے ڈرانے والے جنگل ، صاف چمکتے سے میدان
لیکن من کا بالک الٹا ہٹ کراتا جائے ہرآن
انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چندرمان
یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی شاعر اپنی شاعری میں اپنے ذاتی تجربوں سے قطعی آزاد بھی نہیں ہوسکتا ۔ لیکن جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنے ذاتی تجربوں کو کہاں تک اور اپنے شعور کی کس سطح پر شعر کے روپ میں ڈھالا ہے ۔ میراجی کی شاعری میں جو کچھ بھی جنس کی تشہیر جھلکتی ہے وہ ان کی زندگی کی الجھی ہوئی ڈور کے باعث ہی ہوتی ہے ۔ اور میراجی کی ہر نظم اپنی جگہ ایک تجربہ ہے ایک اکائی ہے پھر بھی اس کو سمجھنے کیلئے ان کے ذات کے اندر جھانکنے کی ضرورت نہیں ۔
علم نفسیات کے مطابق زندگی کے نوے فیصد عوامل انسانی جنس کے شعوری یا غیر شعوری مظاہرے ہوتے ہیں ۔ اور ’’فرائڈ‘‘ کا نظریہ بھی اسی بنیاد پر مشتمل ہے جس کے مطابق ادب کی اساس جنس پر ہے صرف اظہار کا انداز مختلف ہے ۔ یہی وجہ رہی ہے کہ فرائیڈ اور دیگر انگلستانی اور فرانسیسی شعراء سے متاثر ہو کر اردو ادب میں کئی ایک شعراء و افسانہ نگاروں نے جنس کا اظہار اپنی تخلیقات میں کیا ہے ۔ اگر ہم اس تناظر میں فیض اور فراق کے علاوہ میراجی کی شاعری کو پرکھیں تو یہ بات آئینے کی طرف عیاں ہوجاتی ہے کہ فراق نے ان جذبات کو بیباکی کے ساتھ اور فیض نے اپنی ان خواہشات کو شعریت کے لطیف پردوں میں چھپا کر پیش کیا ہے ۔ جبکہ میراجی کے یہاں لذت انگیز صورت ضرور ملتی ہے لیکن وہ جذبات کو برانگیختہ ہونے نہیں دیتے بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہے کہ ان کی شاعری کو پڑھتے ہوئے ایک عجیب کیفیت طاری ہوجاتی ہے ۔ اس صورت حال میں قصور قاری کا ہوگا میراجی کا نہیں ۔ اس ضمن میں ساقی فاروقی کے خیالات دیکھئے :
’’میراجی نے آدمی کے ان دکھتے ہوئے زخموں اور زنگ خوردہ جنسی جذبوں کی تطہیر کا فرض شروع کیا ۔ جنھیں ہمارے نظم نگاروں نے دانستہ نظر انداز کررکھا تھا ۔ اور یوں ہماری نظر میں کہیں بھی کوئی شخصیت پوری طرح سے اجاگر نہ ہوپائی تھی‘‘ ۔
(مضمون ’’چار شاعر‘‘ رسالہ نیادور ص 314)
بیسویں صدی کی عالمگیر اقتصادی زبوں حالی اور سیاسی ہزیمت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے اور اس کا شکار ہندوستان بھی ہوا جو پسماندہ بھی تھا اور ملک سامراجی لوٹ کھسوٹ اور دباؤ کے باعث اپنی مہیب ترین شکل میں ظاہر ہوا اور اسی اقتصادی زبوں حالی ، سیاسی ہزیمت جس کی وجہ سے زندگی کے ہر شعبے میں تلخی شامل ہوگئی تھی اور یہی تلخ حقائق اردو شاعری میں بھی داخل ہونے لگے چونکہ ان حقائق کاتعلق راست یا بالراست عوامی زندگی سے تھا ۔ دوسری جانب شعراء میں عوام سے قریب آنے کا رجحان فروغ پاتا گیا ۔ ایسی ہی تلخ حقائق اور اضطراب کی عکاسی میراجی کے نظموں میں بھی جھلکتی ہے ۔ جو اس بات کی غماز ہے کہ ان کی نظر عالمی سیاسی ، سماجی اور اقتصادی کشمکش سے بے خبر نہیں تھی بلکہ ان کی نظر نوجوانوں کی پریشانی اور ذہنی انتشار پر بھی تھی جو اس کشمکش کا نتیجہ تھا ۔
یہ سچ ہے کہ میراجی  کی دروںبین طبیعت نے ان کے ذہنی انتشار کے اسباب کو تخلیقی انداز سے واضح کرتے ہوئے عوام میں ان سے نمٹنے کا احساس اجاگر کرنے کے بجائے جدید نفسیات کا سہارا لیتے ہوئے انھیں جنسی رنگ دے دیا ۔ اور اس جدید رنگ سے میراجی نے ایک نیا برندا بن تیار کرلیا ۔
رات اندھیری ، بن ہے سونا کوئی نہیں ہے ساتھ
پون جھکولے پیڑ ہلائیں ، تھر تھر کانپیں پات
دل میں ڈر کا تیر چھپا ہے ، سینے پر ہے ہاتھ
رہ رہ کر سوچوں میں کیسے پوری ہوگی رات؟

کیسے اپنے دل سے مٹاؤں برہ اگن کا روگ
کیسے سمجھاؤں پریم پہیلی کیسے کروں سنجوگ
رات کی گھڑیاں بیت نہ جائیں دور ہے اس کاد یس
دور دیس ہے پریتم کا اور میں بدلے ہوں بھیس
میراجی کی نظموں میں ایک رنگ قنوطیت کا بھی ہے ۔ انکی نظموں میں سماج سے دوری اور شخصیت پرستی بھی صاف جھلکتی ہے اور یہ رویہ خود ان کی اپنی ذات سے ہے ۔ چونکہ وہ اپنی جس زندگی کو کل زندگی سمجھ رہے تھے وہ گردابوں اور لامتناہی سلسلے کے سوا کچھ بھی نہیں تھی ۔
قسمت کی ہوئی کیسے ٹلے
پھر سر پر آئی کیسے ٹلے
کب دل باتوں سے بہلتا ہے
یہ تو رہ رہ کے مچلتا ہے
میراجی کی زندگی ابتداء سے ہی تلخیوں کا شکار رہی ۔ وہ منشی مہتاب الدین کے بڑے صاحبزادے تھے والد ریٹائرڈ ہوچکے تھے اور یہی گھر والوں کی امید تھے اور ان ہی پر گھر والوں کی نظریں مرکوز تھیں ۔ جبکہ یہ ظالم سماج اعلی تخلیقی صلاحیتوں کے باوجود انھیں قابل عزت مقام دینے سے قاصر رہا ۔ چونکہ میراجی کے پاس میٹرک کی سند نہ تھی سماج کی یہی بے رخی و بے رغبتی ان کی نظموں میں بھی منعکس ہوتی گئی ۔
کوئی نہ جانے کوئی نہ جانے مرے دل کا حال
جینا ہے جنجال مجھے اب جینا ہے جنجال
میرا دل ہے دکھ سے بوجھل ، دور ہے سکھ کی ڈھال
میٹھے میٹھے من کو بھائے سب دنیا کے گیت
لیکن میرا جیون راگ انوکھا ہے سرتال
میراجی کا ارادہ فرار اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ وہ راہ فرار اختیار کیلئے گھر بار اور یہاں تک کہ وہ اپنی شریک حیات کو بھی چھوڑنے پر آمادہ نظر آتے ہیں تب ہی تو وہ کہتے ہیں کہ
لیٹے لیٹے جو تیری آنکھوں میں نیند آجائے
میں تجھے چھوڑ کے چل دوں کہیں چل دوں چپ چاپ
’’پردہ‘‘ میراجی کی ایک بہترین نظم ہے ۔ اس نظم میں دریا سے مل کر ساگربننے کی خواہش کا احساس ہوتا ہے جس کا اظہار انہوں نے بہت خوبصورتی سے کیا ہے ۔
پھر ساگر میں مل جاتے ہم
اور مل کر دھوم مچاتے ہم
یہ گیت ہمیشہ گاتے ہم
’’سب گیانی ہیں انجان رہے‘‘
لیکن کیا ہو
ہم اور دیس تم اور دیس
بنیادی طور پر یہ کہا جاسکتاہے کہ میراجی کی شاعری ذات کی شاعری ہے فکر و شعور کی شاعری ہے ۔ اس کے علاوہ احساسات و جذبات کی شاعری ہے ۔ چونکہ وہ حیات و کائنات کو داخلی اور ذاتی تجربوں سے دیکھتے ہیں اور ان تجربوں سے میراجی کے اندر ایک احساس جاگتا ہے کہ فنا اور بقا دونوں آکر ان کی ذات میں تحلیل ہوجاتے ہیں ۔
زمانہ ہوں میں
مرے ہی دم سے ان مٹ تسلسل کا جھولا رواں ہے
مگر مجھ میں کوئی برائی نہیں ہے
یہ کیسے کہوں میں
کہ مجھ میں فنا اور بقا دونوں آکر ملے ہیں
ماضی ، حال اور مستقبل سے میراجی کا تو تنازعہ نہیں ہے وہ اپنی نظموں میں ماضی حال اور مستقبل کے کردارکا بھی یقین کرتے ہیں ۔ زمانے میں انہیں کوئی برائی نظر نہیں آتی بلکہ ان کے خیال میں زمانے فرد اور سماج کی تربیت کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں زمانے میں کوئی برائی نہیں دکھائی دیتی ۔
زمانے میں کوئی برائی نہیں ہے
فقط اک تسلسل کا جھولا رواں ہے
یہ میں کہہ رہا ہوں
ان کی نظم ’’یگانگت‘‘ میں ایک ایسا احساس بھی اجاگر ہوتا ہے کہ جو شئے اکیلی ہے جسکی منزل فنا ہی فنا ہے اور وہ تنہائی کا احساس بھی دلاتے ہیں ۔
مجھے تو کسی بھی گھرانے سے کوئی تعلق نہیں ہے
میں ہوں ایک … اور میں اکیلا ہوں ، اک اجنبی ہوں
کہ جو شئے اکیلی ہے … اس کو فنا ہی فنا ہے
تنہائی جو میراجی کی نظموں میں جھلکتی ہے وہ ان کی حقیقی زندگی سے بھی وابستہ رہی ہے ۔ چونکہ13 نومبر 1949ء کو صرف ساڑھے سینتیس سال کی عمر میں اس جہان فانی سے کوچ کرگئے لیکن ان کی شہرت دنیا کے تمام ممالک میں پہنچ چکی ہے لیکن درحقیقت بھی وہ تنہا تھے ۔ کہیں بھی ان کا کوئی دوست نہ تھا ۔ اور ان کے آخری سفر میں گنتی کے چار آدمی ہی تھے ۔