گل بخشا لوی کی شاعری
Posted: Tue Jul 26, 2016 6:22 pm
گل بخشالوی کا اندازِ غزل
سرور انبالوی
اُردو غزل اپنی رنگینی ورعنائی ،تاثر آفرینی اور سوزوگدازی کی بنا پر روزاول سے ہی عوام وخواص کی پسندیدہ صنف ِسخن رہی ہے اس کی پشت پر ہمارا ادبی ،ثقافتی اور ملی سرمایہ ہے یہ تجربات کی مختلف بھٹیوں سے کندن بن کر اُبھری ہے اور آج اُردو غزل اُس مقام پر کھڑی ہے جو کسی اور صنف سخن کو حاصل نہیں ہے اُردو میں اگرچہ نظم بھی بڑی جاندار کہی گئی ہے جس میں نظیر اکبر آبادی ،اکین ودبیر اور جوش ملیح آبادی کی تخلیقات کو خصوصی اہمیت حاصل ہے لیکن غزل پھر غزل ہے اسے رشید احمد صدیقی نے اُردو کی روح ،نیاز فتح پوری نے شاعری کی آبرو اور فراق گورکھپوری نے شاعری کا عطر کہا ہے ،معروف غزل گوفضل احمد کریم فضلی غزل کی اہمیت یوں اُجاگر کرتے ہیں
غمِ دوراں میں کہاں بات غمِ جاناں کی
نظم ہے اپنی جگہ خوب مگر ہائے غزل
اور پھر صفی لکھنوی جیسا ثقہ شاعر بھی کہہ اُٹھا ہے
غزل اُس نے چھیڑی مجھے ساز دینا
ذراعمر رفتہ کو آواز دینا
غزل ہزار اعتراضات کے باوجود کل بھی زندہ تھی آج بھی زندہ ہے اور آنے والے کل میں بھی زندہ رہے گی آج جو نئی نسل غزل کہہ رہی ہے اور اس میں غمِ جاناں ،غمِ دوراں اور غمِ زندگی کیساتھ ساتھ معروضی حالات کو بھی غزل کا موضوع بنارہی ہے اُس نے غزل کو نئی آن بان اور شان بخش دی ہے جس سے غزل تمام اصناف ِ سخن کی بجا طور پر سرخیل کہلانے کی مستحق ہے ۔
گل بخشالوی کا شمار برصغیر پاک وہند کے اُن شعراءمیں ہوتا ہے جنہوں نے غزل کی آبیاری اپنے خونِ جگر سے کی ہے وہ ایک طویل عرصہ سے نوجوان شعراءکا کلام بڑے خوبصورت انداز میں پیش کرتے رہے ہیں جن میں اُن کا نعتیہ ،حمدیہ اور غزل کا کلام شامل ہے اور یوں اُنہوں نے سینکڑوں نوجوان شعراءکو ادبی حلقوں میں متعارف کرایا ہے ۔
گل بخشالوی کی غزل روایت اور جدیدیت کا حسین وجمیل مرقع ہوتی ہے انہوں نے نہ تو روایت سے بغاوت کی ہے اور نہ ہی جدیدیت کی رومیں بہ کر غزل کا حلیہ بگاڑا ہے وہ ایک طویل عرصہ سے دیار ِغیر (امریکہ )میں مقیم ہیں لیکن وہاں بھی انہوں نے شعروسخن کی شمع روشن کی رکھی ہے اور بساط بھر شعروسخن کی آبیاری اپنے خونِ جگر سے کر رہے ہیں جدائی اور تنہائی کے کرب سے وہی آشنا ہیں جنہیں اس کیفیت سے واسطہ پڑا ہے اور پھر خوشی اور تہوار کے مواقع پر تو یہ درد وکرب اور سوا ہوجاتا ہے حضرت یوسف ؑاگرچہ مصر کے حکمران تھے لیکن کنعان جو اُن کا مولد ومنشاءتھا اور ماں باپ اور دیگر عزیز واقرباءکی یاد اور جدائی اس پر مستز ادوہ بھی اس فراق سے گھبراکر کہہ اُٹھے تھے
حب وطن از ملک سلیمان خو شتر
خاروطن از سنبل وریحاں خوشتر
یوسف کہ عصر پادشاہی می کرو
می گفت گدا بودن کنعان خوشتر
اس تناظر میں گل بخشالوی کے چند اشعار ملاحظہ ہوں
مہکی جو زلف کالی گھٹا یاد آگئی
صندل کے جنگلوں کی ہوایاد آگئی
یادوں کے رنگ رنگ کی جب تتلیاں اُڑیں
بے ساختہ وہ دل کی قضا یاد آگئی
اُس کا حسین چہرہ جب آنکھوں میں پھر گیا
بجلی ،دھنک ،گلاب ،صبا یاد آگئی
ہاتھوں میں لے کے سچ کا علم گھر سے گل چلے
بچوں کی بھوک ،اُن کی غذا یاد آگئی
یہ ایک ایسے شاعر کی نوا ہے جوایک عرصہ سے بیوی ،بچوں اور وطن سے دور جدائی کا کرب سہ رہا ہے ۔گل بخشالوی کو اپنے وطن ،اُس کے دریاﺅں ،دھرتی اور اُس کے ذروں سے بھی پیار ہے وہ ”الوطن من الایمان“کی سچی تصویر ہیں اُن کی غزل اُن کے دلی جذبات کی آئینہ دار ہے وطن کی محبت ان کی رگ رگ میں بسی ہوئی ہے چند اشعار
خدا ہی جانے وہ تعبیر کب میں دیکھوں گا
مرے وطن کا تصور جو مرے خواب میں ہے
اُسی میں عشق کی سچائی دیکھئے جاکر
جو داستانِ وفا ساحل چناب نہیں ہے
ارضِ وطن کو کس کی نظر کھاگئی ہے گل
دامن ہمارے دیس کا کیوں تار تار ہے
جو بدطینت وطن کی سمت بری نظر سے دیکھیں وہ انہیں دربدر دیکھتے تمنا رکھتے ہیں
وطن کی سمت حسد سے جو بد نظر دیکھیں
ہم ایسے شخص کو دنیا میں دربدر دیکھیں
اور پھر وطن کی سرزمین کی یاد جب حد سے تجاوز کرجاتی ہے تو وہ بے ساختہ پکار اُٹھتے ہیں
میری آنکھوں کے منظر میں دنیا کے باغات
کوہ مری اک آنکھ میں ہے اور دوسری میں قلات
میرے دل کی گلشن نگری کا ہر ذرہ پھول
میرے درد کی رم جھم میں ہے خوشیوں کی برسات
میری محبت اتنی گہری جیسے منچھر جھیل
میرا دل شاداب ہے اتنا جیسے لگے سوات
میں پنجابی وسرحد ہوں میں سندھ بلوچستان
میرا قلم ہے قوی یکجہتی کی اک سوغات
یہ اشعار گل بخشالوی کے دل کی گہرائیوں سے اُبھرے ہیں ان اشعار کا خالق سچا اور کھرا پاکستانی ہے اور پاکستان ہی اُس کی پہچان ہے ۔جیسا کہ شروع میں عرض کیا گیا کہ غزل اُردو شاعری کی سب سے زیادہ پسندیدہ صنف سخن ہے گل بخشالوی کی غزل بڑی خوبصورت ،توانا اور فکر انگیز ہوتی ہے وہ بڑے غوروفکر کے بعد قلم اُٹھاتے ہیں اور پھر جو کچھ دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں اُس کی ہو بہ ہو تصویر قارئین کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور چونکہ بات دل سے نکلتی ہے اس لےے ”ازدل خیزد “،”بردل ریزد“کے مصداق بات دل میں اُترجاتی ہے انہوں نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے وہ پرخار وادیوں سے مردانہ وار گزرے ہیں پاﺅں لہولہان ہوگئے ،سینہ فگار ہو گیا ہے لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری وہ رہِ حیات کا انتھک راہی ہے وہ راستے کی ناہمواریوں اور دشواریوں سے دل برداشتہ نہیں ہوتے ایک نئے عزم ،نئے حوصلہ اور ولولہ تازہ کو اپنا رہبر بناتے ہیں اور منزل کی طرف رواں دواں ہیں وہ خود کہتے ہیں ۔
یوں جارہا ہوںقافلہ زندگی کیساتھ
جیسے اک اجنبی ہو کسی اجنبی کیساتھ
شمع حیات ہجر میں یہ کہہ کے بجھ گئی
کب تک جلے اس آگ میں کوئی کسی کیساتھ
کھل جائے میرے دل میں بھی موسم بہار کا
کر دے جو بے قرار کوئی دل لگی کیساتھ
شاید مری خطا کی سزا گل خدا نہ دے
مجبوریاں بھی ہوتی ہیں کچھ آدمی کیساتھ
وہ زندگی کے خارجی احوال پر ہی نظر نہیں ڈالتے بلکہ اُس کے درونِ خانہ بھی جھانک کر دیکھتے ہیں اور یوں اُن کا شعری سفر ذات سے کائنات تک پھیلا ہوا ہے ان کی غزل ان کے دلی جذبات کا صاف وشفاف آئینہ ہے جس میں ہمیں زندگی اپنی تمام تر لطافتوں اور کثافتوں کےساتھ رواں دواں نظر آتی ہے ۔گل بخشالوی ایک سچا اور کھرا انسان ہے خلوص اور محبت پر اُس کی غزل کی اساس ہے وہ آنے والے دور کی عکاسی بھی بڑے خوبصورت انداز میں کرتے ہیں ۔علامہ اقبال نے کہا تھا
کھول کر آنکھیں مرے آئینہ گفتار میں
آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ
گل بخشالوی ایک غزل میں یوں کہتے ہیں
دمکتی محفلیں ہوں گی ،مہکتے گلستاں ہوں گے
حسیں ہوگی جو یہ دنیا ،نہ جانے ہم کہاں ہوں گے
بڑا ہے دور کا ساماں ،بڑی لمبی مسافت ہے
مگر منزل سے پہلے ختم اہل کارواں ہوں گے
نہ ہم ہوں گے ،نہ تم ہوگے نہ قصے جاوداں ہوں گے
گل بخشالوی کا تازہ غزلیا ت کا شعری مجموعہ ” ادھورے خواب “بڑی دیر سے آرہا ہے جو کافی پہلے آجانا چاہےے تھا بہر حال ”دیر آید درست آید“آخر میں ایک خوبصورت غزل
شہر کے بے سکون تنہائی
گل سرشام میرے گھر آئی
میں ہوں قیدی اُسی کی زلفوں کا
جس نے زنجیر مجھ کو پہنائی
جب بھی سیر چمن کووہ نکلے
ہر کلی دیکھ دیکھ شرمائی
مہ وشوں کی حسین یادوں میں
نیند ہم کو نہ رات بھر آئی
اُن کی آواز اتنی دلکش ہے
دور بجتی ہے جیسے شہنائی
دل میں گل نے بسا لیا اُس کو
جس کے دم سے ہے عالم آرائی
اُمید ہے کہ ان کا یہ شعری مجموعہ ا دبی حلقوں میں خاطر خواہ پذیرائی حاصل کرے گا انشائاللہ
٭٭٭
سرور انبالوی
اُردو غزل اپنی رنگینی ورعنائی ،تاثر آفرینی اور سوزوگدازی کی بنا پر روزاول سے ہی عوام وخواص کی پسندیدہ صنف ِسخن رہی ہے اس کی پشت پر ہمارا ادبی ،ثقافتی اور ملی سرمایہ ہے یہ تجربات کی مختلف بھٹیوں سے کندن بن کر اُبھری ہے اور آج اُردو غزل اُس مقام پر کھڑی ہے جو کسی اور صنف سخن کو حاصل نہیں ہے اُردو میں اگرچہ نظم بھی بڑی جاندار کہی گئی ہے جس میں نظیر اکبر آبادی ،اکین ودبیر اور جوش ملیح آبادی کی تخلیقات کو خصوصی اہمیت حاصل ہے لیکن غزل پھر غزل ہے اسے رشید احمد صدیقی نے اُردو کی روح ،نیاز فتح پوری نے شاعری کی آبرو اور فراق گورکھپوری نے شاعری کا عطر کہا ہے ،معروف غزل گوفضل احمد کریم فضلی غزل کی اہمیت یوں اُجاگر کرتے ہیں
غمِ دوراں میں کہاں بات غمِ جاناں کی
نظم ہے اپنی جگہ خوب مگر ہائے غزل
اور پھر صفی لکھنوی جیسا ثقہ شاعر بھی کہہ اُٹھا ہے
غزل اُس نے چھیڑی مجھے ساز دینا
ذراعمر رفتہ کو آواز دینا
غزل ہزار اعتراضات کے باوجود کل بھی زندہ تھی آج بھی زندہ ہے اور آنے والے کل میں بھی زندہ رہے گی آج جو نئی نسل غزل کہہ رہی ہے اور اس میں غمِ جاناں ،غمِ دوراں اور غمِ زندگی کیساتھ ساتھ معروضی حالات کو بھی غزل کا موضوع بنارہی ہے اُس نے غزل کو نئی آن بان اور شان بخش دی ہے جس سے غزل تمام اصناف ِ سخن کی بجا طور پر سرخیل کہلانے کی مستحق ہے ۔
گل بخشالوی کا شمار برصغیر پاک وہند کے اُن شعراءمیں ہوتا ہے جنہوں نے غزل کی آبیاری اپنے خونِ جگر سے کی ہے وہ ایک طویل عرصہ سے نوجوان شعراءکا کلام بڑے خوبصورت انداز میں پیش کرتے رہے ہیں جن میں اُن کا نعتیہ ،حمدیہ اور غزل کا کلام شامل ہے اور یوں اُنہوں نے سینکڑوں نوجوان شعراءکو ادبی حلقوں میں متعارف کرایا ہے ۔
گل بخشالوی کی غزل روایت اور جدیدیت کا حسین وجمیل مرقع ہوتی ہے انہوں نے نہ تو روایت سے بغاوت کی ہے اور نہ ہی جدیدیت کی رومیں بہ کر غزل کا حلیہ بگاڑا ہے وہ ایک طویل عرصہ سے دیار ِغیر (امریکہ )میں مقیم ہیں لیکن وہاں بھی انہوں نے شعروسخن کی شمع روشن کی رکھی ہے اور بساط بھر شعروسخن کی آبیاری اپنے خونِ جگر سے کر رہے ہیں جدائی اور تنہائی کے کرب سے وہی آشنا ہیں جنہیں اس کیفیت سے واسطہ پڑا ہے اور پھر خوشی اور تہوار کے مواقع پر تو یہ درد وکرب اور سوا ہوجاتا ہے حضرت یوسف ؑاگرچہ مصر کے حکمران تھے لیکن کنعان جو اُن کا مولد ومنشاءتھا اور ماں باپ اور دیگر عزیز واقرباءکی یاد اور جدائی اس پر مستز ادوہ بھی اس فراق سے گھبراکر کہہ اُٹھے تھے
حب وطن از ملک سلیمان خو شتر
خاروطن از سنبل وریحاں خوشتر
یوسف کہ عصر پادشاہی می کرو
می گفت گدا بودن کنعان خوشتر
اس تناظر میں گل بخشالوی کے چند اشعار ملاحظہ ہوں
مہکی جو زلف کالی گھٹا یاد آگئی
صندل کے جنگلوں کی ہوایاد آگئی
یادوں کے رنگ رنگ کی جب تتلیاں اُڑیں
بے ساختہ وہ دل کی قضا یاد آگئی
اُس کا حسین چہرہ جب آنکھوں میں پھر گیا
بجلی ،دھنک ،گلاب ،صبا یاد آگئی
ہاتھوں میں لے کے سچ کا علم گھر سے گل چلے
بچوں کی بھوک ،اُن کی غذا یاد آگئی
یہ ایک ایسے شاعر کی نوا ہے جوایک عرصہ سے بیوی ،بچوں اور وطن سے دور جدائی کا کرب سہ رہا ہے ۔گل بخشالوی کو اپنے وطن ،اُس کے دریاﺅں ،دھرتی اور اُس کے ذروں سے بھی پیار ہے وہ ”الوطن من الایمان“کی سچی تصویر ہیں اُن کی غزل اُن کے دلی جذبات کی آئینہ دار ہے وطن کی محبت ان کی رگ رگ میں بسی ہوئی ہے چند اشعار
خدا ہی جانے وہ تعبیر کب میں دیکھوں گا
مرے وطن کا تصور جو مرے خواب میں ہے
اُسی میں عشق کی سچائی دیکھئے جاکر
جو داستانِ وفا ساحل چناب نہیں ہے
ارضِ وطن کو کس کی نظر کھاگئی ہے گل
دامن ہمارے دیس کا کیوں تار تار ہے
جو بدطینت وطن کی سمت بری نظر سے دیکھیں وہ انہیں دربدر دیکھتے تمنا رکھتے ہیں
وطن کی سمت حسد سے جو بد نظر دیکھیں
ہم ایسے شخص کو دنیا میں دربدر دیکھیں
اور پھر وطن کی سرزمین کی یاد جب حد سے تجاوز کرجاتی ہے تو وہ بے ساختہ پکار اُٹھتے ہیں
میری آنکھوں کے منظر میں دنیا کے باغات
کوہ مری اک آنکھ میں ہے اور دوسری میں قلات
میرے دل کی گلشن نگری کا ہر ذرہ پھول
میرے درد کی رم جھم میں ہے خوشیوں کی برسات
میری محبت اتنی گہری جیسے منچھر جھیل
میرا دل شاداب ہے اتنا جیسے لگے سوات
میں پنجابی وسرحد ہوں میں سندھ بلوچستان
میرا قلم ہے قوی یکجہتی کی اک سوغات
یہ اشعار گل بخشالوی کے دل کی گہرائیوں سے اُبھرے ہیں ان اشعار کا خالق سچا اور کھرا پاکستانی ہے اور پاکستان ہی اُس کی پہچان ہے ۔جیسا کہ شروع میں عرض کیا گیا کہ غزل اُردو شاعری کی سب سے زیادہ پسندیدہ صنف سخن ہے گل بخشالوی کی غزل بڑی خوبصورت ،توانا اور فکر انگیز ہوتی ہے وہ بڑے غوروفکر کے بعد قلم اُٹھاتے ہیں اور پھر جو کچھ دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں اُس کی ہو بہ ہو تصویر قارئین کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور چونکہ بات دل سے نکلتی ہے اس لےے ”ازدل خیزد “،”بردل ریزد“کے مصداق بات دل میں اُترجاتی ہے انہوں نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے وہ پرخار وادیوں سے مردانہ وار گزرے ہیں پاﺅں لہولہان ہوگئے ،سینہ فگار ہو گیا ہے لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری وہ رہِ حیات کا انتھک راہی ہے وہ راستے کی ناہمواریوں اور دشواریوں سے دل برداشتہ نہیں ہوتے ایک نئے عزم ،نئے حوصلہ اور ولولہ تازہ کو اپنا رہبر بناتے ہیں اور منزل کی طرف رواں دواں ہیں وہ خود کہتے ہیں ۔
یوں جارہا ہوںقافلہ زندگی کیساتھ
جیسے اک اجنبی ہو کسی اجنبی کیساتھ
شمع حیات ہجر میں یہ کہہ کے بجھ گئی
کب تک جلے اس آگ میں کوئی کسی کیساتھ
کھل جائے میرے دل میں بھی موسم بہار کا
کر دے جو بے قرار کوئی دل لگی کیساتھ
شاید مری خطا کی سزا گل خدا نہ دے
مجبوریاں بھی ہوتی ہیں کچھ آدمی کیساتھ
وہ زندگی کے خارجی احوال پر ہی نظر نہیں ڈالتے بلکہ اُس کے درونِ خانہ بھی جھانک کر دیکھتے ہیں اور یوں اُن کا شعری سفر ذات سے کائنات تک پھیلا ہوا ہے ان کی غزل ان کے دلی جذبات کا صاف وشفاف آئینہ ہے جس میں ہمیں زندگی اپنی تمام تر لطافتوں اور کثافتوں کےساتھ رواں دواں نظر آتی ہے ۔گل بخشالوی ایک سچا اور کھرا انسان ہے خلوص اور محبت پر اُس کی غزل کی اساس ہے وہ آنے والے دور کی عکاسی بھی بڑے خوبصورت انداز میں کرتے ہیں ۔علامہ اقبال نے کہا تھا
کھول کر آنکھیں مرے آئینہ گفتار میں
آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ
گل بخشالوی ایک غزل میں یوں کہتے ہیں
دمکتی محفلیں ہوں گی ،مہکتے گلستاں ہوں گے
حسیں ہوگی جو یہ دنیا ،نہ جانے ہم کہاں ہوں گے
بڑا ہے دور کا ساماں ،بڑی لمبی مسافت ہے
مگر منزل سے پہلے ختم اہل کارواں ہوں گے
نہ ہم ہوں گے ،نہ تم ہوگے نہ قصے جاوداں ہوں گے
گل بخشالوی کا تازہ غزلیا ت کا شعری مجموعہ ” ادھورے خواب “بڑی دیر سے آرہا ہے جو کافی پہلے آجانا چاہےے تھا بہر حال ”دیر آید درست آید“آخر میں ایک خوبصورت غزل
شہر کے بے سکون تنہائی
گل سرشام میرے گھر آئی
میں ہوں قیدی اُسی کی زلفوں کا
جس نے زنجیر مجھ کو پہنائی
جب بھی سیر چمن کووہ نکلے
ہر کلی دیکھ دیکھ شرمائی
مہ وشوں کی حسین یادوں میں
نیند ہم کو نہ رات بھر آئی
اُن کی آواز اتنی دلکش ہے
دور بجتی ہے جیسے شہنائی
دل میں گل نے بسا لیا اُس کو
جس کے دم سے ہے عالم آرائی
اُمید ہے کہ ان کا یہ شعری مجموعہ ا دبی حلقوں میں خاطر خواہ پذیرائی حاصل کرے گا انشائاللہ
٭٭٭