قا ضی اعجا ز محو ر''ہم شکلو ں کا سفر''
Posted: Tue Dec 20, 2016 8:17 am
قا ضی اعجا ز محو ر صرف گوجرانوالہ کے ہی نہیں موجودہ عہد میں اُردو زبا ن کے بھی پا کستا نی شاعر و ادیب ہیں جن کی اردو و پنجا بی شاعری اور ماہیے کے مجموعوں کی
اشاعت کے بعد ہمیں سہیل احمد صدیقی کی وساطت سے نثرا نے کا مجموعہ'' ہم شکلو ں کا سفَر''بھی موصو ل ہوچکا ہے اور اس پر اظہارِ خیا ل برسرِ محفل کرنے کی دعوت بھی دی گئی ہے سو چند سطور حسب قا عد ہ و دستور پیش ہیں برائے قبولیت۔
۔۔۔محترم رئیس علوی صا حب صدر محفل، احباب ِ سہیل احمد صدیقی کی ہمراہی میں تاثرات پیش کرتے ہوئے ہم عرض کر د یں'' حا شا و کلا یہ ہما ر ی عین عز ت اور الف عین اعزاز ہے کہ سہیل احمد صدیقی نے گوجرانوالہ کے مکین ایک ایسی شخصیت سے ہم کو ملوانے کے لیے سہو لت کا ر کا کردار ادا کیا جن کے شہر میں سا ر ے '' گا ما '' نے جنم لیا اور وہ بھولے بھا لے جو کراچی یا لاہور والوں نے بھولو یا با لا بنا کر ہمیشہ کے اُ ن کو اپنا اسیر بنا لیا نہیں معلوم کہ اب کے گراں میں رہنے والوں ،گرائیو ں کو اُن کے نا م بھی یاد ہوں گے کہ نہیں!۔۔۔خیر وہ لوگ تو اب قصہ ء پا ر ینہ بن گئے۔۔۔مگر یک سَر ایسا بھی نہیں ہوا کہ ہم میں سے تمام لوگوں نے اُن کو طاق ِ فراموشی میں رکھ دیا ہو گا اس لیے کہ ہم شکلو ں کا سفر جہا ں پر ختم ہوتا ہے وہیں سے ایک کے بعد دوسرا قصہ آ غا ز ِ سفَر کرتا نظر آتا ہے اور سفر نا مہ نگار یا قصہ گو اپنی ا یک آ نکھ میچ کر نہیں بل کہ ا پنے ا فسا نو ی شہر کی یا ترا پر قا ر ی کی اُ نگلی پکڑ کے چلنے لگتا ہے تو دونوں آ نکھیں کھول کر اور کھُلواکر شہرِ قصَہ د َر قِصَہ کی فضا؛ آب و ہوا؛ گلیوں؛ بازاروں؛چوباروں؛صحن؛دالانوں؛ ممٹیوں،روشن دانوں اور بو ہے با ر یو ں تک بآ سا نی پہنچا د یتا ہے۔
سچ ما نئیے تو قاضی اعجاز محور کی شخصیت پر گفت گو کا ہم میں یا ر ا نہیں کہ ا س'' یا ر ا نے '' کا اظہار کرنے والے عزیزم سہیل احمد صدیقی ہی ہوسکتے ہیں جنھوں نے جنوری میں محترم سے ملاقات کے بعد آ ج دوسری بار ہمیں اُ ن کے حوالے سے کچھ کہنے سنانے کا شرف بخشا ہے۔''
د شت ِ گُر یز'' کے شاعر؛ '' نز د یک تو آ گو ر ی '' کے ما ہیا نگار قاضی اعجاز محور بلا شبہ نشر میں بھی ویسی ہی دست رس رکھتے ہیں جیسی گرفت ہم نے ان کے شعری اظہار اور تخلیقی صنا عی میں دیکھی محسوس کی۔
قاضی صاحب کے خا کے؛ انشائیے؛ افسانچے یا مختصر کہانیاں نثرانے وغیرہ یا د و ں کے د ر یچے وَا کرتے قلم کی شوکیوں، ذ ہن کے چُلبُلے پَن اور قا ر ی ا سَا س کہا نیوں سے ہمیں مُتعَا رِ ف کرواتے چلے جاتے ہیں۔ اور ان کے مختصر کا لم بھی طبع شد ہ ہیں ا ن کی شعر و فن سے وابستگی کا برملا اظہار و آ ئینہ دار ہیں۔ فیس بُک والوں کے لیے نثرانے کی اس کتاب کا تعارف پیش کیا جاچکا نقل ہم مصنف کو پیش کردیں گے یہا ں ان تعارفی سطور کے بعد ایک مشورہ مفت بلا معاوضہ دے رہے ہیں کہ کتا بیں خریدنے والوں کا نوحہ ہرگز نہ پڑھا جائے ا ن اور ان جیسی تمام تحریروں کو پرنٹ میڈیا اخبارات کے ادبی صفحات رسائل نیز سوشل میڈیا پر ا سکین یا پی ڈی ایف بنوا کے زیا د ہ سے ز یا د ہ لوگوں تک پہنچا دیا جائے تو بہت عمدہ آراء اور تاثرات ملتے رہیں گے۔
نقا د و ں کا جن میں ہمیں شامل نہ سمجھا جائے؛ ا صل مسئلہ یہ ہے کہ وہ افسانے اور ناول یا نثر کے نہ تو مستقل قاری ہیں نہ سنجید ہ کہ جو مصنو عی تحریروں اور اصل میں تمیز کرسکیں، مکھی پر مکھی بٹھانے کا عمل اُ ن کے ہاں ویسا ہی نظر ہے جیسے ہما ر ے سحر انصاری جیسے نقاد کے ہاں جو شاعری کی کتاب اور شاعرہ کے مسا م جا ں کہ مہک سے ہی مسرورومحصور ہوکر دیباچہ فلیپ نگاری فرما لیتے ہیں۔
قاضی اعجاز محور صاحب آ گا ہ رہیں کہ عُمدہ اور اعلا ا د ب بیش تر چھوٹے علاقوں اور مضا فا ت میں بھی لکھا جاتا رہا ہے اور اس کو مرکزی دھارے تک لانے میں اخبارات کے ادبی صفحات و رسائل نے اہم کردار ادا کیا ہے یہ ہمیشہ وقت کی ضرورت رہے ہیں اور رہیں گے مگر یہ بھی ہے کہ تحریر کبھی مٹتی نہیں، تخلیق کبھی چُھپتی نہیں ا۔با یہ کہ اسے قرطاس ابیض اور مشینی ذرائع ابلاغ تک رسائی نہ مل سکے ۔۔۔یہ مُشک خود اپنی خو ش بو ظاہر کرتی ہے جسے ہم جیسے ا تا ئی حر ف و معا نیٰ کے بیا نیے کا محتا ج نہیں ہونا پڑتا۔ کتاب کی اشاعت پر رسمی نہیں دلی مبا ر ک با د اور کتاب بھجوانے کا شکریہ!Poet Syed Anwer Jawaid Hashmi
فری لانسر،طالب علم و فن،شاعر سید ا نور جاوید ہاشمی، بی -٤٥ سیکٹرایس ٹو،گلشن معمار کراچی٧٥٣٤٠
محررہ چھبیس نومبر سن دوہزار سو لہ ٢٦-١١-٢٠١٦
Title of Qazi Aijaz Mehwar\s Poetry/fiction...2nd photo Qazi,Sohail;Hashmi in Session
اشاعت کے بعد ہمیں سہیل احمد صدیقی کی وساطت سے نثرا نے کا مجموعہ'' ہم شکلو ں کا سفَر''بھی موصو ل ہوچکا ہے اور اس پر اظہارِ خیا ل برسرِ محفل کرنے کی دعوت بھی دی گئی ہے سو چند سطور حسب قا عد ہ و دستور پیش ہیں برائے قبولیت۔
۔۔۔محترم رئیس علوی صا حب صدر محفل، احباب ِ سہیل احمد صدیقی کی ہمراہی میں تاثرات پیش کرتے ہوئے ہم عرض کر د یں'' حا شا و کلا یہ ہما ر ی عین عز ت اور الف عین اعزاز ہے کہ سہیل احمد صدیقی نے گوجرانوالہ کے مکین ایک ایسی شخصیت سے ہم کو ملوانے کے لیے سہو لت کا ر کا کردار ادا کیا جن کے شہر میں سا ر ے '' گا ما '' نے جنم لیا اور وہ بھولے بھا لے جو کراچی یا لاہور والوں نے بھولو یا با لا بنا کر ہمیشہ کے اُ ن کو اپنا اسیر بنا لیا نہیں معلوم کہ اب کے گراں میں رہنے والوں ،گرائیو ں کو اُن کے نا م بھی یاد ہوں گے کہ نہیں!۔۔۔خیر وہ لوگ تو اب قصہ ء پا ر ینہ بن گئے۔۔۔مگر یک سَر ایسا بھی نہیں ہوا کہ ہم میں سے تمام لوگوں نے اُن کو طاق ِ فراموشی میں رکھ دیا ہو گا اس لیے کہ ہم شکلو ں کا سفر جہا ں پر ختم ہوتا ہے وہیں سے ایک کے بعد دوسرا قصہ آ غا ز ِ سفَر کرتا نظر آتا ہے اور سفر نا مہ نگار یا قصہ گو اپنی ا یک آ نکھ میچ کر نہیں بل کہ ا پنے ا فسا نو ی شہر کی یا ترا پر قا ر ی کی اُ نگلی پکڑ کے چلنے لگتا ہے تو دونوں آ نکھیں کھول کر اور کھُلواکر شہرِ قصَہ د َر قِصَہ کی فضا؛ آب و ہوا؛ گلیوں؛ بازاروں؛چوباروں؛صحن؛دالانوں؛ ممٹیوں،روشن دانوں اور بو ہے با ر یو ں تک بآ سا نی پہنچا د یتا ہے۔
سچ ما نئیے تو قاضی اعجاز محور کی شخصیت پر گفت گو کا ہم میں یا ر ا نہیں کہ ا س'' یا ر ا نے '' کا اظہار کرنے والے عزیزم سہیل احمد صدیقی ہی ہوسکتے ہیں جنھوں نے جنوری میں محترم سے ملاقات کے بعد آ ج دوسری بار ہمیں اُ ن کے حوالے سے کچھ کہنے سنانے کا شرف بخشا ہے۔''
د شت ِ گُر یز'' کے شاعر؛ '' نز د یک تو آ گو ر ی '' کے ما ہیا نگار قاضی اعجاز محور بلا شبہ نشر میں بھی ویسی ہی دست رس رکھتے ہیں جیسی گرفت ہم نے ان کے شعری اظہار اور تخلیقی صنا عی میں دیکھی محسوس کی۔
قاضی صاحب کے خا کے؛ انشائیے؛ افسانچے یا مختصر کہانیاں نثرانے وغیرہ یا د و ں کے د ر یچے وَا کرتے قلم کی شوکیوں، ذ ہن کے چُلبُلے پَن اور قا ر ی ا سَا س کہا نیوں سے ہمیں مُتعَا رِ ف کرواتے چلے جاتے ہیں۔ اور ان کے مختصر کا لم بھی طبع شد ہ ہیں ا ن کی شعر و فن سے وابستگی کا برملا اظہار و آ ئینہ دار ہیں۔ فیس بُک والوں کے لیے نثرانے کی اس کتاب کا تعارف پیش کیا جاچکا نقل ہم مصنف کو پیش کردیں گے یہا ں ان تعارفی سطور کے بعد ایک مشورہ مفت بلا معاوضہ دے رہے ہیں کہ کتا بیں خریدنے والوں کا نوحہ ہرگز نہ پڑھا جائے ا ن اور ان جیسی تمام تحریروں کو پرنٹ میڈیا اخبارات کے ادبی صفحات رسائل نیز سوشل میڈیا پر ا سکین یا پی ڈی ایف بنوا کے زیا د ہ سے ز یا د ہ لوگوں تک پہنچا دیا جائے تو بہت عمدہ آراء اور تاثرات ملتے رہیں گے۔
نقا د و ں کا جن میں ہمیں شامل نہ سمجھا جائے؛ ا صل مسئلہ یہ ہے کہ وہ افسانے اور ناول یا نثر کے نہ تو مستقل قاری ہیں نہ سنجید ہ کہ جو مصنو عی تحریروں اور اصل میں تمیز کرسکیں، مکھی پر مکھی بٹھانے کا عمل اُ ن کے ہاں ویسا ہی نظر ہے جیسے ہما ر ے سحر انصاری جیسے نقاد کے ہاں جو شاعری کی کتاب اور شاعرہ کے مسا م جا ں کہ مہک سے ہی مسرورومحصور ہوکر دیباچہ فلیپ نگاری فرما لیتے ہیں۔
قاضی اعجاز محور صاحب آ گا ہ رہیں کہ عُمدہ اور اعلا ا د ب بیش تر چھوٹے علاقوں اور مضا فا ت میں بھی لکھا جاتا رہا ہے اور اس کو مرکزی دھارے تک لانے میں اخبارات کے ادبی صفحات و رسائل نے اہم کردار ادا کیا ہے یہ ہمیشہ وقت کی ضرورت رہے ہیں اور رہیں گے مگر یہ بھی ہے کہ تحریر کبھی مٹتی نہیں، تخلیق کبھی چُھپتی نہیں ا۔با یہ کہ اسے قرطاس ابیض اور مشینی ذرائع ابلاغ تک رسائی نہ مل سکے ۔۔۔یہ مُشک خود اپنی خو ش بو ظاہر کرتی ہے جسے ہم جیسے ا تا ئی حر ف و معا نیٰ کے بیا نیے کا محتا ج نہیں ہونا پڑتا۔ کتاب کی اشاعت پر رسمی نہیں دلی مبا ر ک با د اور کتاب بھجوانے کا شکریہ!Poet Syed Anwer Jawaid Hashmi
فری لانسر،طالب علم و فن،شاعر سید ا نور جاوید ہاشمی، بی -٤٥ سیکٹرایس ٹو،گلشن معمار کراچی٧٥٣٤٠
محررہ چھبیس نومبر سن دوہزار سو لہ ٢٦-١١-٢٠١٦
Title of Qazi Aijaz Mehwar\s Poetry/fiction...2nd photo Qazi,Sohail;Hashmi in Session