Page 1 of 1

غالب اکیڈمی نئی دہلی میں ادبی نشست کا انعقاد

Posted: Mon Oct 14, 2019 11:39 am
by aabarqi

غالب اکیڈمی میں ادبی نشست کا انعقاد
گزشتہ روز غالب اکیڈمی،نئی دہلی میں ایک ادبی نشست کا نعقااد کیا گیا۔اس موقع پر جناب سہیل انجم نے جی ڈی چندن میموریل لیکچر اردوصحافت اور روزگار کے عنوان سے دیا۔ انھوں نے اپنے لیکچر میں کہا کہ اردو اخبار ورسائل کا رشتہ روزی روٹی سے جڑا ہوا ہے۔ جلسے کی صدارت ڈاکٹر جی آر کنول نے کی،انھوں نے کہا کہ صحافت میں ثبوت پیش کرنا ہوتا ہے جی ڈی چندن ایسے ہی صحافی تھے جو ثبوت بھی پیش کرتے تھے اور قربانی کے لیے بھی تیار رہتے تھے۔اس موقع پر انجم عثمانی نے کہا کہ جی ڈی چندن ایک اچھے افسانہ نگار بھی تھے اس موقع پر موجود شعرا نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا منتخب اشعار پیش خدمت ہیں۔
سر محفل جو مرنے کی تمنا لے کے آتے ہیں
چراغوں کی وہ پروانے حسیں معلوم ہوتے ہیں
جی آر کنول
میں تمناؤں کی تدفین میں لگ جاتی ہوں
جب گھڑی بھر میں بدل جاتا ہے لہجہ تیرا
مینا نقوی
وہ غزالی آنکھ بنر کر ایک رومانی غزل
عالم فکر و سخن پر چھائی گئی تو کیا کریں
ظہیر برنی
فکردوجہاں کم بھی نہیں ہے
تم ہو تو پھر کسی بات کا غم بھی نہیں ہے
نسیم عباسی
مجھ کو بچوں کی اجلی ہنسی مل گئی
شہر بیمار میں زندگی مل گئی
فضیلہ سرفراز
چہرے بدلے،عادت بدلی،روح نے پھونکی جان نئی
ورنہ سب مٹی کے پیکر ایک ہی جیسے ہوتے ہیں
نسیم بیگم
اے سخن طراز یوں اپنے دل کا حال لکھو
درد صفحوں پر اتار آج کچھ کمال لکھ
دویا جین
ادب میں شجرہئ غالب کی یاد گار ہوں میں
وہ کاروانِ سخن تھا پس غبار ہوں میں
ارشد غازی
اس کو کوئی مٹا نہیں سکتا
اردو تہذیب کا نشاں ہے جہاں
زاہد علی خاں اثر
ہمارے شہر کی خاموشیاں نرالی ہیں
سکون بخش ہیں چہرے مگر سوالی ہیں
شاہد انور
وہ مٹائے گا کہاں تک میری ہستی کے نقوش
میں ہوں تاریخ میں محفوظ حوالوں کی طرح
احمد علی برقی اعظمی
اس موقع پر چشمہ فاروقی نے اردو میں نسائی ادب کے نام سے مضمون پیش کیا اور طلعت نے اپنا کلام پیش کیا۔آخر میں سکریٹری کے شکریہ کے ساتھ نشست ختم ہوئی۔

اردو اخبار ورسائل کا رشتہ روزی روٹی سے قائم ہے
جی ڈی چندن میموریل لیکچر دیتے ہوئے سہیل انجم کا اظہار خیال
غالب اکیڈمی ہر سال مشہور صحافی جی ڈی چندن کی یاد میں ایک لیکچر کا اہتمام کرتی ہے گزشتہ روز غالب اکیڈمی میں جی ڈی چندن میموریل لیکچر دیتے ہوئے مشہور صحافی جناب سہیل انجم نے کہا کہ ہم اعداد و شمار کی روشنی میں دیکھیں تو جہاں ایک طرف اردو کی صورت حال بہت اطمینان بخش نہیں ہے اور اس کے پڑھنے والوں کو تعداد میں کمی آتی جا رہی ہے وہیں دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آزادی کے بعد اردو اخباروں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ بھی ہوا ہے۔اب ڈیجیٹل اور پورٹل کا زمانہ آگیا ہے۔حالیہ دنوں میں اردو اخبارات میں متعدد صحافی ان شعبوں میں داخل ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ انھیں جو روزگار ملا ہوا ہے وہ بھی اردو صحافت کی دین ہے۔ اردو اخبا رات و رسائل کا رشتہ روزی روٹی سے قائم ہے۔یہ الگ بات ہے کہ دوسری زبانوں کی صحافت کی مانند اردو صحافت میں تنخواہیں کم ہیں۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ آج اردو اخباروں میں قدر بہتر مشاہرہ ملنے لگا ہے بالخصوص اگر کوئی شخص کسی اچھے منصب پر فائز ہے بالکل اسی طرح جیسے کہ ہندی اور انگریزی کے اخباروں اور نیوز چینلوں میں کسی اچھے منصب پر فائز صحافی کو اچھی تنخواہیں ملتی ہیں۔جبکہ فیلڈ میں کام کرنے والوں کو ذرا کم ملتی ہے۔یہ بات خلاف حقیقت ہے کہ اردو کا دامن روزگار اور ملازمت سے خالی ہوگیا ہے۔اردو کے اخبارات بھی دوسری زبانوں کے اخبارات کے قافلے شامل ہیں۔لیکن اشتہاروں کے تعلق سے موجودہ حکومت کی انتہائی سخت پالیسی نے بہت سے اخباروں کا گلا گھونٹ دیا۔ خاص طور سے وہ اخبار جو صرف اشتہاروں کے لیے نکلتے رہے ہیں بند ہوگئے۔
اس موقع پر ڈاکٹر عقیل احمد نے کہا کہ جی ڈی چندن صاحب کا غالب اکیڈمی سے بہت گہرا تعلق تھا انھوں نے صحافت سے متعلق اپنی ساری کتابیں غالب اکیڈمی کو تحفے میں دے دی تھیں صحافت پر شاید اتنا ذخیرہ کہیں اور نہیں ملے گا جتنا غالب اکیڈی کا لائبریری میں گوشہ چندن میں موجود ہے۔ اس موقع پر ڈاکٹر جی آر کنول نے اپنے صدارتی تقریر میں کہا کہ جی ڈی چندن بڑے صحافی اور غالب اکیڈمی کے پڑوسی تھے ان کی یاد میں جلسہ کرنا ہمارا فرض ہے۔ اس موقع پر بڑی تعداد میں اہل ذوق موجود تھے۔


بیادِ نامور صحافی جی ڈی چندن
احمد علی برقیؔ اعظمی
جی ڈی چندن تھے صحافت کے امام
جاری و ساری ہے جن کا فیض عام
تھا صحافت ان کا فطری مشغلہ
عہدِ نو کے تھے صحافی نیک نام
لکھتے تھے سود و زیاں سے بے نیاز
اس لئے تھے لایقِ صد احترام
کارنامے ان کے ہیں وردِ زباں
لیتے ہیں عزت سے ان کا لوگ نام
تھا طویل اردو صحافت کا سفر
جس میں وہ رہتے تھے سب سے تیز گام
تھے فروغ اردو میں وہ پیشگام
ان کی عملی زندگی کی یادگار
ہیں کئی ان کے نقوشِ بادوام
تھیں بہت سی ان میں برقیؔ خوبیاں
صلح کُل کا دیتے تھے سب کو پیام

عہد حاضر کی صحافت کا منظرنامہ
احمد علی برقی اعظمی
عہد رواں میں آج صحافت ہے کاروبار
کرتا نہیں ہے جس پہ کوئی آج اعتبار
چینل امیر شہر کے گُن گارہے ہیں سب
جن کے لئے یہ پیشۂ اعلی ہے روزگار
ہوتا نہیں ہے ذکر کہیں ان کا آج کل
ہے داستان رنج و الم جن کی دلفگار
آمدنی ہے قلیل صحافی بھی کیا کریں
ناگفتہ بہ ہے اردو صحافت کا حالِ زار
لکھتے نہیں ہیں حرفِ صداقت وہ اس لئے
ڈرتے ہیں رک نہ جائے کہیں اُن کا اشتہار
کالم وہ لکھ کے کرتا ہے اپنا گذربسر
ملتا نہیں کسی کو جہاں کوئی روزگار
ہوتا ہے صرف مولوی باقر کا ذکر خیر
ماضی میں تھے جو اردو صحافت کے جاں نثار
ہے منعقد یہ بزم جو چندن کی یاد میں
تھے شخصیت وہ اردو صحافت کی باوقار