قارئین کرام آداب عرض ہیں , ایک تازہ کلام پیشِ خدمت ہے . امید ہے پسند آئے گا اپنی آرا سے نوازیے ، شکریہ
عرض کیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خود غرَض ہے یہ زندگی جب سے
جانور ہے یہ آدمی جب سے
عہد و پیماں کتابی باتیں ہیں
زندگی ہے یہ دوغلی جب سے
دشمنوں سے گلہ نہیں ہم کو
دوستوں میں ہے دشمنی جب سے
مسنَدوں نے لباس پہنے ہیں
ہے بَرَہنہ یہ آدمی جب سے
سوچ کے دائرے ہوئے محدود
زیست سب کی ہے مطلبی جب سے
عصبیت حکمران ہے ہم پر
جاہلوں کی نہیں کمی جب سے
ہر طرف روشنی کا ماتم ہے
تیرگی پھیلنے لگی جب سے
خار اُگنے لگے ہیں گلشن میں
نفرتوں کی ہوا چلی جب سے
خود سے سمجھوتا ہو گیا میرا
رب سے کر لی ہے دوستی جب سے
ہر کسی سے مجھے محبت ہے
آپ کی شکل دیکھ لی جب سے
روح کو مل رہی ہے رعنائی
بانٹنی سیکھ لی خوشی جب سے
جانتا ہوں خیالؔ خود کو میں
زندگی میں ہے بندگی جب سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کی توجہ کا طلبگار
اسماعیل اعجاز خیالؔ