قارئین کرام آداب عرض ہیں ۔ ایک تازہ کلام پیشِ خدمت ہے امید ہے پسند آئے گا ۔ اپنی آرا سے نوازیے شکریہ
عرض کیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسانیت کو درد سے محروم کر دیا
تم نے معاشرے کو جہاں جانور دیا
پگڑی اُچھالنے کی ہوا چار سُو چلی
اک دوسرے پہ سب نے ہی الزام دھر دیا
تھا زندگی کا پھول محبت کی اوج پر
نفرت کی دھوپ نے جسے ذلّت کا در دیا
دوازے بند ہو گئے سب اُس کے واسطے
رہنے کو آپ کے لیے جس نے ہے گھر دیا
لگتے خلوص پیار محبت ہیں سب فریب
نیّت کے جب فتورنے دل کو ہے بھر دیا
مطلب کی دوستی میں تو ہیں آپ بیمثال
مطلب گیا تو ختم سبھی ربط کر دیا
قربان کر کے خود کو کسی کو دیا وجود
اک زیست نے ہے زیست کو لختِ جگر دیا
اللہ کی عطا کی نہیں ہے کہیں مثال
ماں باپ کے وجود میں الفت کو بھر دیا
مانگو بس اک خُدا سے خیالؔ اپنی ہر دعا
جس نے قبولیت کو عطا کا ہے در دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کی محبّتوں کا طلبگار
اسماعیل اعجاز خیالؔ