Page 1 of 1

نکلنا چاہو تو اپنے حصار سے نکلو

Posted: Wed Oct 28, 2020 9:11 am
by ismail ajaz
قارئین کی ِخدمت میں آداب عرض کیا ہے ایک سال پراناکلام پیشِ خدمت ہیں امید ہے پسند آئے گا اپنی آرا سے نوازیے شکریہ
عرض کیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نکلنا چاہو تو اپنے حصار سے نکلو
نشے میں ڈوبے ہوئے تم خمار سے نکلو

درندے غدر مچانے لگے ہیں شہروں میں
حضورِ والا اب اپنی کچھار سے نکلو

لباسِ شرم اتارا ہے شہر والوں نے
حیا کو اوڑھے رہو تم جو غار سے نکلو

تم اپنے آپ ہی ٹکڑوں میں بٹ رہے ہو اگر
نہ ہاتھ چھوڑو نہ اپنے مدار سے نکلو

جسے بھی دیکھو محبت میں آہیں بھرتا ہے
محبتوں پہ کیے اعتبار سے نکلو

کھڑے رہو گے یونہی عمر بھر لیے کاسہ
رُکی ہوئی ہے قطار اِس قطار سے نکلو

بھرم تمہارا اگر ٹوٹ کر بکھر جائے
نظر جھکا کے نہ یوں شرمسار سے نکلو

جو قوم آج بھی خود کو نہیں بدل پائی
اُسے بدلنے کے تم انتظار سے نکلو

بساط آ کے تمھاری لپیٹ دے کوئی
تو سٹپٹا کے نہیں بے قرار سے نکلو

خیالؔ دوست ہیں دشمن کے جب سہولت کار
تم اعتبار کے قول و قرار سے نکلو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
توجہ کا طلبگار
اسماعیل اعجاز خیالؔ