Page 1 of 1

جو کہہ رہے تھے کبھی نہ تم بے وفائی کرنا

Posted: Sat Dec 10, 2022 5:42 am
by ismail ajaz


قارئین کرام آداب عرض ہیں ، ایک تازہ کلام پیشِ خدمت ہے امید ہے پسند آئے گا
عرض کیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ستا ستا کر کسی کی یوں جگ ہنسائی کرنا
تمھاری عادت ہے سب کی ہرزہ سرائی کرنا

چلے گئے چھوڑ کر ہمیں بیچ راستے میں
جو کہہ رہے تھے کبھی نہ تم بے وفائی کرنا

ہر ایک ملتا رہا ہے اپنی غَرض سے ہم سے
خلوص کے ساتھ تم مگر آشنائی کرنا

تمہارا ہم سے جو سامنا ہو گیا کہیں پر
خُدارا اس پل نہ ہم سے بے اعتنائی کرنا

ہے آزمائش کے بعد پھر ایک آزمائش
نہ سہل ہے دل کی منزلوں تک رسائی کرنا

بغیر مطلب کے لوگ ملتے نہیں کسی سے
بغیر مطلب کے ہم سے تم دلربائی کرنا

جو آ گیا ہے تمیں بھی جینا بناوٹوں سے
کہاں سے سیکھا ہے تم نے یوں کج ادائی کرنا

تمہارے اپنے ہی لوگ تم کو فریب دیں گے
خیالؔ ایسے میں تم نہیں لب کُشائی کرنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کی توجہ کا طلبگار
اسماعیل اعجاز خیالؔ