Page 1 of 1

Jashn-e-Rais Azam Haidari - Report

Posted: Wed Feb 08, 2023 3:02 am
by Tanwir Phool
:bismillah:
Jasn-e-RaisAzam.png-2.png
Jasn-e-RaisAzam.png-2.png (381.37 KiB) Viewed 1054 times
طلعت پروین( پٹنہ )

(رپورٹنگ)

( گلوبل رائیٹرز ایسوسی ایشن (اٹلی ),,بزم آئینہ ءسخن (انڈیا) کے زیر اہتمام ایک شام رئیس اعظم حیدری کے نام‌ )
0000000000000000000000000000

گلو بل رائٹرز ایسوسی ایشن (اٹلی) بزم آئینہ ءسخن انڈیا کی جانب سے بروز بدھ ۔بتاریخ 11/1/2023کو جشن رئیس اعظم حیدری بعنوان ایک شام رئیس اعظم حیدری کے نام منایا گیا
جس کی مجلس صدارت میں تنویر پھول ( امریکہ) زیب النساء زیبی (پاکستان) فصیح احمد ساحر (انڈیا) شامل تھے
جبکہ نقابت کے فرائض انیس احمد لاہور نے بحسن خوبی انجام دئیے ۔۔

مہمانان‌ خصوصی کی حیثیت سے رشید شیخ (شکاگو ) طلعت منیر (اسلام آباد) ہدایت بدایونی (دہلی )یوسف ندیم (پونہ) طاہرہ رباب (ہمبرگ جرمنی)زیب النساء زیبی (پاکستان) شریک بزم رہے۔۔
اور مہمانان ذی وقار ممتاز منور (پونہ ) سرمست سخی (گلبرگہ ) طلعت پروین ( پٹنہ) ڈاکٹر کمال اختر (بدایون)علی تنہا( پاکستان) اقبال احمد بیلن نظامی( ۔نظام آباد) واقف انصاری (الہ آباد)قیصر امام‌قیصر( گریڈیہہ)فنصور جعفری (بریلی) شاہین برلاس (امریکہ)مصلح الدین کاظم (کھگڑیہ انڈیا)رجب چودھری (پاکستان) ظفر احمد ظفر (اٹلی )ثوبیہ احمد( پاکستان)شارق اعجاز عباسی (دہلی)وارث اسلم ماہی (سعودی عرب) نجمہ محبوب نجمہ (پاکستان) منتظم اعلی میں ۔چوہدری محمد نواز کلیانہ,, میاں شبیر علی( اٹلی )نعت خواں رموز علی قادری شریک بزم۔ رہے۔۔ پروگرام کا آغاز پاکستان وقت 8/بجے اور انڈیا وقت 8/30بجے رات فنصور احمد کی تلاوت کلام پاک سے شروع ہوا ۔جشن رئیس اعظم حیدری کے بعد مشاعرہ کا دور شروع ہوا اور رات 12/بجے نقیب مشاعرہ انیس احمد لاہور کے ہدیہء تشکر پر پرو گرام کا بحسن وخوبی اختتام پزیر ہوا۔۔
سب سے پہلے انیس احمد لاہور نے مصلح الدین کاظم کی تمہیدی گفتگو پیش کیا ۔۔

ہر کامیابی و کامرانی کی ضمانت محنت و مشقت پر ہے یہ ایسی صلاحیت ہے جس کا پھل ہمیشہ میٹھا ہوتا ہے روز ازل سے لیکر آج تک انسان نے جتنی ترقی کی منزلیں طے کی ہیں ان میں محنت کو زیادہ دخل حاصل ہے اسی کی بدولت انسان اپنے بڑے بڑے مسائل حل کئے ہیں محنت سے ہی انسان نے اپنی معاشرتی گتھیاں سلجھائیں اور اپنی ضروریات زندگی کے سامان بھی پیدا کئے انسان کی عرق ریزی اور جد جہد سے ہی آرائیش و آسائیش کےسارے سا مان پیدا ہوئے۔ مجھے ویسا ہی ایک محنت کش اور بلند حوصلہ رکھنے والا ایک نام یاد آرہا ہے یوں تو ہر شخص کی شخصیت ایسی ہوتی ہیں جو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دل کےگوشے میں اپنی جگہ بنا لیتی ہیں انہیں شخصیتوں میں سے ایک شخص ہے جس کا نام‌ رئیس اعظم حیدری ہے جناب رئیس اعظم حیدری صاحب کی پیدائش حیدر گنج کڑا ہ بہار میں ہوئی اور بنیادی تعلیم۔ اسی گاؤں کے مدرسہ میں حاصل کی اس بعد والد محترم کےساتھ کلکتہ آگئے۔ اور پھر یہاں اسکو ل میں تعلیم حاصل کر نے کے بعد تعلیم کو ترک کرنا پڑا بحالت مجبوری چونکہ والد صاحب بیری کے مزدور تھے۔ گھر کے اخراجات میں مشکلیں آرہی تھیں تو اپنے والد کی طرح آپ بھی 13/سال میں 1967سے بیڑی کے کام‌میں لگ گئے
اور انہوں نے اپنے بھائی بہنوں کو آگے بڑھانے کے لئے اپنی تعلیمی قربانیاں پیش کردیں ۔ سارے بھائی پڑھ لکھ کر کامیاب ہوگئے 1980میں انکی شادی ہوئی۔ بال بچوں کی تعلیم و تربیت اور شادی کرے نے بعد ہر طرح سے فراغت پاکر انہوں نے نے دوبارہ تعلیم حاصل کی اور( Mannu)مولانا آزاد اوپن یونیورسٹی سے ایم ۔اردو کیا اور ساتھ ہی ساتھ ncpul,سے عربی اور اردو میں ڈپلومہ بھی کیا والد کے طرز زندگی ملی سماجی مذہبی ادبی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ شاعری کی ساری صنفوں پر طبع آزمائی کرچکے مقامی مشاعروں سے لیکر آل انڈیا مشاعرہ میں شرکت کرچکے ہیں۔ یہاں تک مدینہ اور مکہ میں بھی ان کے اعزاز میں نشستیں ہوئی
اعزاز ا ت میں تلنگانہ اسٹیٹ سے ڈاک ٹکٹ بھی رائج ہوا بہت اداروں سے انعام و ایورڈ حاصل کر چکے ہیں ۔
میں اس کے لئے رئیس اعظم حیدری کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔۔۔۔

اس کےبعد زیب النساء زیبی نےکہا
ہم‌اپنے طرف کی زنبیل کو رسوا نہیں کرتے
متاع غیر اپنی جھولی میں رکھا نہیں کرتے
بہت دشوار سطح آسماں پر جانا ہے لیکن
کبھی ہم کوشش پیہم سے منہ موڑا نہیں کرتے
یہ اشعاررئیس اعظم حیدری کی زندگی کا عکس ہیں آپ انتہا ئی
محنتی سیلف میڈ خود٘ار اور بلند مرتبت حق گو سچے شاعر ہیں ابنی زندگی نرم وگرم نشیب و فراز کو بڑی کشادہ دلی اور وسعت ظرفی کے ساتھ اپنے تعارفی نامہ میں بیان کیا ہے نہ جھوٹ نہ ملمع سازی نہ ہیرا پھیری سب کچھ بہت انکساری اور ظرفی کے ساتھ حرف بہ حرف زندگی کے تمام اوراق سب کے سامنے بڑے فخر سے پیش کئے ہیں
جنہیں پڑھکر احساس ہوتا ہے کہ زندگی کی تکلیف کو بھی جد جہد کر کے آپ نے کس طرح آسان بنا دیا اور دشوار گزار راستوں پر پھول کھلاتے چلے گئے علم و ادب کے فروغ کا جذبہ آپ کو وراثت میں ملا ہے

آپ کہتے ہیں ۔۔۔

جلا دے شمع جو علم و ہنر کی جانب
تم اپنے شہر میں وہ علم داں تلاش کرو ۔۔

علم داں کی تلاش میں ہمارے علم کا وہ گوہر نایاب ہاتھ لگ گیا جس کا آج ہم نے جشن رکھا ہے اس گوہر نایاب کی اعزازی نشست مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ میں بھی ہوچکی ہے اس سے بڑا آپ کی دعاؤں قبولیتِ کا اعزاز اور کیا ہوگا۔۔۔


تنویر پھول نے اپنا قطعہ برائے خراج تحسین پیش کیا ،،

،،جشن رئیس اعظم اے پھول ،،ہو مبارک
اردو ادب کی جاں ہیں بھائی رئیس اعظم
اک قافلہ رواں ہے،، ،آئینہء سخن،، کا
سالار کارواں ہیں بھائی رئیس اعظم ،،،

انہوں نے کہا کہ معتبر شاعررئیس اعظم حیدری صاحب کی بہت وقیع شاعری ہے۔ عہد حاضر کے معتبر شاعروں میں برادر رئیس اعظم حیدری صاحب کا نام خصوصی اہمیت کا حامل ہے وہ شاعری برائے شاعری نہیں کررہے ہیں بلکہ اپنی خدا داد صلاحیت کو کام میں لاکر بنی نوع انسان کی اخلاقی تربیت اور فلاح و بہبود کا راستہ دکھا نے کا اہم فریضہ انجام دے رہے ہیں یہی خصوصیت ان کو ہم عصر شعراء میں ممتاز کرتی ہے وہ خود کہتے ہیں ،،

نئی زمین نیا آسماں تلاش کرو
جہاں سکون ملے وہ جہا ں تلاش کرو
اگر جبین عقیدت پہ نور لانا ہے
خدا کے نور کا وہ آستاں تلاش کرو۔۔۔

لیکن ایسا بھی نہیں کہ وہ وہ محض زاہد خشک ہیں ، وہ اخلاقی اور روحانی قدروں کے ساتھ ساتھ حسن و عشق کے تعلق کو بھی انسانیت کے وقار اور احترام کے تناظر میں پیش کرتے ہیں ۔۔
رئیس اعظم حیدری صاحب اور ان کی غزلیات کے حوالے سے کچھ باتیں ہو جائیں۔وہ ایک دینی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور انہوں نے بڑی جدو جہد کی زندگی بسر کی ہے وہ بنیادی طور پر ایک مفکر ہیں اور ان کی فکر کا محور دین اسلام قرآن اور انسانیت کی فلاح و بہبود ہے وہ عزم عمل کا کا سبق دیتے ہوئے فرماتے ہیں ۔۔۔۔

،،ملت کی اگر ناؤ کو ہے پار لگانا۔
کیوں ڈرتے ہو طغیا نی سے پتوار اٹھاؤ،،

،،غو٘اص زمانہ ہو ،سمندرکی تہوں سے
تم گوہر نایاب کو لا کر کے دکھاؤ،،
جیسا کے پہلے عرض کرکیا جا چکا ہے وہ محض زاہد خشک نہیں بلکہ ان کی غزلوں میں تغزل کا عنصر بھی موجود ہے اس لئے کہتے ہیں،،،

،،غزلوں کو رئیس ،اپنی بنا نا ہے حسیں جب
غزلوں کو تغزل کے نگینے سے بھرو تم،
احمد فراز نے کہا تھا : جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
رئیس صاحب اس بات کو ایک نئے انداز سے کہتے ہیں۔۔

،، بہت نرالا ہے انداز یہ محبت کا
ورق ورق پہ چھپا کر گلاب رکھتا ہے،،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
،کیسے مانے گازمانہ کہ نہیں رشتہ ہے
صحن گلشن میں اسے روز بلاتے کیوں ہو ،،،

آج کا جشن رئیس اعظم حیدری بہت کامیاب۔ رہا اس کے لئے میں مبارک باد پیش کرتا ہوں رئیس اعظم حیدری کے ساتھ ساتھ تما م اراکین گلوبل انٹر نیشنل ایسوسی ایشن ( اٹلی)اور بزم آئینہ ءسخن انڈیا اور تما م شرکاء کو بھی مبارک باد پیش کرتا ہوں..
تنویر پھول ( امریکہ)
فصیح احمد ساحر نےکہا کہ رئیس اعظم حیدری سے ہماری ملاقات چالیس بیالیس سال کی ہے اور ان سے روزانہ ملاقات بات ہوتی رہتی ہے رئیس اعظم حیدری ہمارے رشتہ دار بھی ہیں آج کا جشن رئیس اعظم حیدری جو منایا جارہا ہے وہ اس کا حقدار بھی ہیں اس میں دورائے نہیں بہت کم مدت میں انہوں نے عالمی پہچان اپنی محنت و مشقت بنائی ہے ساری صنف پر طبع آزمائی کر چکے ہیں اور سب سےبڑی خوبی یہ ہے ان کا لحجہ انکی آواز سبھوں سے منفرد ہے۔ جس مشاعرہ میں جاتے ہیں وہاں جھنڈا گاڑ کر آتے ہیں ان کا پڑھنے کا انداز بہت عمدہ ہے۔ میں آج کا جشن رئیس اعظم حیدری بہت ہی کامیاب ہے اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے اس کےلئے میں اراکین گلوبل انٹرنیشنل ایسوسی ایشن ( اٹلی) بزم آئینہ ءسخن انڈیا کے ساتھ ساتھ تما م شرکاء کو بھی مبارک باد پیش کرتا ہوں
خدا حافظ
فصیح احمد ساحر

احمد ندیم( پونہ ) نے اپنے شعر سے یوں بات شروع کی انہوں نے کہا کہ

،،واقف ہوں میں رئیس سے اچھی طرح ندیم
میں اسکی خوبیوں کا یقیناً ہوں معترف ،،

،،پوت کے پاؤں پالنے میں ،،یہ مثل یونہی وجود میں نہیں آئی،یہ عمیق نظر رکھنے والے انسان کے درست مشاہدات و کامیاب تجربات پر مبنی ہے اوریہ بات بھی یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ یہ کبھی بھی غلط ثابت نہیں ہوئی بچپن میں جس بچے کی قدرتی خوبیوں اور صلاحیتوں ،ذہانتوں اور فہم و فراست کی استعداد کو دیکھ کر پیشن گوئی کی جاتی ہے کہ یہ بچہ غیر معمولی ہے اور بہت جلد اس مقام‌پر پہنچنے والا ہے جس کی لوگ تمنا کرتے ہیں اور یہ اور یہ دیکھا گیا ہے کہ یہ پیشن گوئی تقریباً حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوتی رہی ہے
جب رئیس اعظم حیدری صاحب دنیا میں تشریف لائے تو ان کے پالنے میں یہ شعر گونج رہا تھا
،،بلند حوصلہ اعلی دماغ رکھتا ہے
ہوا کی زد پہ جو روشن چراغ رکھتا ہے،،

اسی شعر کی معنویت کے ساتوں پروان چڑھتے گئے بھاری بھر کم چہرے کے نقوش چمکتی ہوئی چوڑی پیشانی دونوں پیشن گوئی کر رہے تھے کہ یہ بچہ غیرعمولی شخصیت کا مالک ہوگا
اس میں اعلی قابلیت ہوگی اور باہنر ہوگا ۔آگے چل کر وقت کے پردے پر زمانےیہ تمام تصویریں دیکھیں ۔۔۔
رئیس اعظم حیدری غربت کی چھاؤں میں پروان چڑھتے گئے۔ اس لئے ان کا حوصلہ فولادی بنتا گیا ،عزم راسخ ہوتا گیا اور وہ زندگی کی دھو پ چھاؤں اور نشیب و فراز سے بھلی بھانتی واقف ہوتےگئے
بلکہ یہ بتانے کی کوشش کروں گا کہ ان میں شعرو سخن کا رحجان کیونکر پیدا ہوا۔۔
چونکہ اس دور میں لکھنؤ،دلی٘، کلکتہ ،، رام پور ،، بنا رس ، بدایوں ،بارہ بنکی ،،جھاڑ کھنڈ،اڑیسہ ،،حیدرآباد،، اور دکنی ہندوستان میں ادب اور شعرو سخن کی خوشگوار ہوائیں چل رہی تھیں ریئس صاحب ان کے اثرات سے نہیں بچ سکے طبیعت ہی جلد شعر و سخن کی طرف مائل ہوئی۔ اور مستند استاد سخن کی شاگردی میں اپنا ادبی سفر جاری کیا اوراس فن میں کامیاب ہیں
انھوں نے(Mannu) مولا آزاد نیشنل اردو یونیور سٹی حیدرآباد سے ایم اے اردو کی سند حاصل کی اور( ncpul)۔دہلی سے عربی ڈپلومہ اور اردو ڈپلومہ بھی حاصل کیا اور عربی میں اتنی استعداد حاصل کر لی کہ حضرت حسان بن ثابت رض,, کی عربی نعت کا اردومیں منظوم ترجمہ بھی کرنے لگے۔ رئیس صاحب ایک کہنہ مشق شاعر ہیں او ر ساتھ ہی اچھے شاعر اچھے انسان بھی ہیں۔۔
انسان میں ایسی صلاحیتیں خدا دا ہوتی ہیں اس لئے کہا جاتا ہے ۔ا
ایں سعادت نبرد بازو ہست،
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ،

رئیس صاحب کو یہ نعمت حاصل ہے۔ خدا ان کی عمر دراز کرے صحتمند رکھے تاکہ وہ زبان و ادب کی خدمات انجام دیتےرہیں۔۔
میں گلوبل رائیٹر ایسوسیشن اٹلی اور آئینہ ءسخن کے منتظمین کو مبارکباد پیش کر تا ہوں ہوں آج کی شام رئیس اعظم حیدری کے نام‌ کر کے بجاطور پر انہیں اعزاز بخشا ہے
شکریہ

اور اسکے بعد تمام شرکاء نے رئیس اعظم حیدری کےتعلق سے اسی طرح کے اظہار و خیالات پیش کئے

خدا حافظ
طلعت پروین۔ (پٹنہ)