بظاہر دو قدم چل کر بمشکل ہی گیا تھا میں
Posted: Wed Mar 01, 2023 7:55 am
قارئین کرام ایک تازہ کلام فکرِ فردا پر مبنی پیشِ خدمت ہے ، امید ہے پسند آئے گا
عرض کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں آیا تو فرشتہ تھا مگر دوشی گیا تھا میں
جہاں سے بندگیء نفس کا عادی گیا تھا میں
’’وہ باتیں کھا گئیں مجھ کو جو باتیں پی گیا تھا میں‘‘
بس اک لمحے میں موت آئی وگرنہ جی گیا تھا میں
مرے سب راز افشا ہو گئے گویائی کے دم پر
نہیں تو خامشی سے ہونٹ اپنے سی گیا تھا میں
بلاوا آ گیا آخر کہ اب تم واپس آ جاؤ
بظاہر دو قدم چل کر بمشکل ہی گیا تھا میں
مری منزل مجھے انجام پر زیرِ زمیں لائی
ستارے توڑ لانے کو فلک تک بھی گیا تھا میں
نجانے کس طرح گر کر ہیں میں نے پستیاں پائیں
مگر کہنے کو اپنی ہر اُڑان اُونچی گیا تھا میں
تمھاری لب کُشائی نے مجھے مجرم بنا ڈالا
وہاں پکڑا گیا جا کرجہاں ڈھونگی گیا تھا میں
میں خود کو دیکھتا ہوں آئینے میں زاویہ صورت
مہذب کچھ نظر آؤں کہ ہو وحشی گیا تھا میں
خیالؔ ایسا کرو کچھ خاتمہ ایماں پہ ہو جائے
کہ تم بھی کہہ سکو بخشا گیا عاصی گیا تھا میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کی توجہ کا طلبگار
اسماعیل اعجاز خیالؔ