جو پیے گا اس کو تشنہ کام ہے رکھا گیا
Posted: Wed Nov 20, 2024 6:55 pm
یہ کلام ۸جون ۲۰۲۳ میں لکھا گیا تھا
قارئین کرام ایک تازہ کلام پیشِ خدمت ہے ، امید ہے پسند آئے گا
عرض کیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی کے جام کا انعام ہے رکھا گیا
جو پیے گا اس کو تشنہ کام ہے رکھا گیا
میں خود اپنے آپ کا قاتل بھی ہوں مقتول بھی
مجھ پر اپنے قتل کا الزام ہے رکھا گیا
دشمنی رکھنے کی خاطر دوست بن کر جو ملے
جگ میں اس کا ہی منافق نام ہے رکھا گیا
جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کا رتبہ ملے
نسلِ نَو کے واسطے اک کام ہے رکھا گیا
جس میں کچھ علم و ادب کے ماسِوا ہم کو ملے
نام محفل کا ادب کی شام ہے رکھا گیا
ابنِ آدم نے اتاری ہے حیا کی یوں ردا
بنتِ حوا کا ہر اک سُو دام ہے رکھا گیا
کس نے گونگوں کو سکھائی ہے زُباں جس میں سدا
مرغِ بے ہنگام شکلِ عام ہے رکھا گیا
آزمائش اور کس کو کہتے ہیں بولو خیالؔ
آپ کی تخلیق میں انجام ہے رکھا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کی توجہ کا طلبگار
اسماعیل اعجاز خیالؔ