اٹھا کے انگلی وہ سب پہ الزام دھر رہے ہیں

Aapus kii baat cheet aur shikwa shikayat
Post Reply
User avatar
ismail ajaz
-
-
Posts: 476
Joined: Tue Jan 13, 2009 12:09 pm

اٹھا کے انگلی وہ سب پہ الزام دھر رہے ہیں

Post by ismail ajaz »



( اگر آپ اللہ کی نگاہ میں ایک اچھے انسان ہیں تو یہ تحریر آپ کے لیے نہیں ہے )
فوج کھا گئی وزیر کھا گئے حکومت کھا گئی مولوی کھا گئے استاد نے عزت لوٹ لی مولوی نے عزت لوٹ لی پولیس کرپٹ ہے فوج کرپٹ ہے وکیل کرپٹ ہیں یا ججز کرپٹ ہیں سیاست دان کرپٹ ہیں
جب پوری قوم کرپٹ ہے تو سارے ادارے کرپٹ ہیں ایک نہیں ہزاروں ہوں گے لاکھوں ہوں گے ان جیسے اور یہی حال سولین کا بھی ہے ان میں بھی ہزاروں لاکھوں بلکہ کروڑوں ہوں گے آپ دفاعی ادارے دیکھ لیجیے مذہبی ادارے دیکھ لیجیے سوشل ادارے دیکھ لیجیے سرکاری نیم سرکاری پرائیویٹ ادارے شہری دیہاتی لوگ کہیں بھی چلے جائیے جسے موقع ملتا ہے وہ اپنا کام دکھاتا ہے اور جسے موقع نہیں ملتا وہ حاجی صاحب کہلاتا ہے جیسے میں اور آپ

آئیے خرابی تلاش کرتے ہیں خرابی کہاں ہے سورس کیا ہے منبع کون سا ہے معاملہ کہاں سے بگڑ رہا ہے ، مگر اس سے پہلے میری بات پر دھیان دیجیے آپ کی اور تمام پڑھنے والوں کی توجہ چاہوں گا

مثال کے طور پر آپ کے گھر کی واٹر سپلائی والا ٹینک غلاظت اور تعفن ذدہ بد رنگ پانی سے بھرا ہوا ہے یا کہیے اس میں مردار جانور مرا پڑا ہے اس ٹینک کا انلٹ جہاں سے صاف اور شفاف پانی آ رہا ہے جب اس ٹینک میں جمع ہوتا ہے تو اس ٹینک کے آؤٹلٹ سے گھر کے تمام کنیکشن پوائنٹس سے جڑ جاتا ہے اب چاہے کچن کا ٹیپ ہو واش روم ہو کوریڈور ہو یا لان کا نل ہو یا باؤنڈری وال سے متصل بیسن جہاں بھی کوئی نل لگا ہے اس میں سے گندا غلیظ پانی ہی دستیاب ہوگا آپ آٹومیٹک سنسرٹیپ لگا لیجیے یا فلٹر لگا لیجیے پانی کی بدبو پانی کا ذائقہ پانی کا رنگ خراب ہی ملے گا یہاں تک کے آپ اسے بوائل کیجیے کچھ منرلز ملائیے اور قابلِ استعمال کیجیے
امید ہے یہاں تک آپ بات اچھی طرح سمجھ گئے ہوں گے

اب آئیے پاکستان کی جانب پاکستان کی عوام کی جانب پاکستان کے خواص کی جانب پاکستان کے اداروں کی جانب اور دیکھیے ڈھونڈیے کہاں کب کس اسکول مدرسے کالج یونیورسٹی میں شخصیت سازی پر کام کیا گیا جانوروں کو انسان بنایا گیا کردار اور اعمال کے سنوارنے پر کام کیا گیا

اب آئیے اگلی بات کی جانب
آپ کا دو سال کا بچہ پاؤں پاؤں چلنے کے قابل ہوتا ہے آپ آپ کی بیگم آپ کے ماں باپ بہن بھائی نانا نانی دادا دادی عزیز و اقارب آپ کی بیگم کےماں باپ بہن بھائی نانا نانی دادا دادی عزیز و اقارب اس پر وارے نیارے جاتے ہیں آپ دل و جان سے اس بچے پر فدا ہیں یہ بچہ باہر نکلتا ہے سامنے پڑوس میں اس جیسا ایک اور بچہ بھی ہے وہ لولی پوپ ٹافی لیے باہر آتا ہے آپ کا بچہ اس بچے سے ٹافی چھین لیتا ہے آپ کی بیگم اسے کلیجے سے لپٹا لیتی ہیں اس پر واری واری جاتی ہیں اسے کہتی ہیں
بدمعاش ایسے نہیں کرتے کسی کی ٹافی نہیں چھینتے مگر عملاً اسے چومتی ہیں اسے لپٹا لیتی ہیں بچے کی آبزرویشن کہا کچھ اور کرنا کچھ میں الجھ کر جو کچھ کیا جاتا ہے اسے درست مان لیتی ہے وہ خود کو ہیرو سمجھنے لگتا ہے بچے کے والد یعنی آپ تشریف لاتے ہیں آپ کی بیگم بچے کی روداد سناتی ہیں آپ مسکراتے ہیں قہقہے لگاتے ہیں بچے کو گود میں فخر سے اٹھا لیتے ہیں اور سینہ تان کر ارشاد فرماتے ہیں ارے بدمعاش بالکل اپنے باپ پر گیا ہے اسے زور زور سے ہوا میں اچھالتے ہیں اسے سراہتے ہیں بچہ خوشی سے نہال ہو جاتا ہے وہ اپنے آپ کو دنیا کا سب سے بہادر اور قابل ستائش بچہ سمجھتا ہے کہ اس کے ماں باپ اس پر فدا ہیں

اب آئیے دوسری مثال کی جانب
آپ کے دو بیٹے ہیں آپ دونوں کے لیے آئس کریم لاتے ہیں بڑا بیٹا چھوٹے کی آئس کریم ایک بائٹ ایک بائٹ کہتے ہوئے چھین کر کھانے لگتا ہے اور اس کی آئس کریم چٹ کر جاتا ہے اور پھر اپنی بھی ہڑپ کر جاتا ہے چھوٹا بیٹا شدتِ غم سے زمین پر لوٹنے لگتا ہے رونے بلبلانے لگتا ہے آپ بہت پڑھے لکھے دیسنٹ آدمی ہیں سوسائٹی میں آپ کا بڑا مقام ہے آپ بہت مہذب مانے جاتے ہیں آپ چھوٹے بچے کو کہتے ہیں میں تمہیں اور لا دیتا ہوں اور آپ اسے دوسری آئس کریم لا کر دیتے ہیں چھوٹا بچہ احساسِ کمتری کا شکار ہے اس نے مشاہدہ کیا کہ بڑا بھائی دو آئس کریم ہڑپ کر چکا ہے اور اب اس کی اس آئس کریم پر بھی نظر ہے وہ اچھی طرح سمجھ رہا ہے کہ اس کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے یہاں پر دونوں بچوں کی شخصیت ڈیولوپ ہوتی ہے بڑا بچہ غاصب چور ڈاکو بدمعاش لوٹ مار کرنے والا بنتا ہے اور چھوٹا بچہ احساسِ محرومی کا شکار فرسٹیٹڈ ہو کر جلن حسد بغض کینہ پرور بنتا ہے
آپ نے اپنے ہی گھر میں دو شخصیات کو پروڈیوس کیا اور انہیں بڑا کر کے پروان چڑھا کر معاشرے کو سونپ دیا اب اپنے ارد گرد کا جائزہ لیجیے آپ ہی کی طرح ہر گھر کی یہی کہانی ہے پورے محلہ پورا گاؤں پورا شہر پورا ملک ایسے ہی جنریشن کو تیار کر کے ملک کے حوالے کر رہا ہے اور یہ سارے لوگ ملک کے تمام شعبوں سے وابستہ ہیں یہی فوج میں ہیں یہی حکومت میں ہیں یہی تجارت میں ہیں یہی اسکول کالج یونیورسٹی تعلیمی اداروں میں ہیں یہی وفاقی وزیر مہذبی امور وزیر یہی وزیر داخلہ یہی وزیر خارجہ یہی جج یہی وکیل یہی مؤذن یہی امام یہی خواص یہی عوام
یہی امیر یہی غریب یہی اشرافیہ یہی مشکلات میں گھری انسانیت
جس کو جہاں موقع ملتا ہے وہ اپنا کام دکھاتا ہے جسے نہیں ملتا وہ حاجی صاحب کہلاتا ہے
سبھی ایک کشتی کے سوار ہیں
جب پوری قوم اس کرپشن لوٹ مار بدیانتی جعلسازی دھوکہ مکر و فریب جھوٹ بے ایمانی مین مبتلا ہے تو پھر
پھر گلہ کیسا شکوہ کیسا

آپ نے اپنے ملک کو جو پچھلے ستتر سالوں میں دیا وہی آپ کو مل رہا ہے

خیالؔ خود جرم میں برابر شریک ہیں جو
اٹھا کے انگلی وہ سب پہ الزام دھر رہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کی توجہ کا طلبگار
اسماعیل اعجاز خیالؔ
Attachments
اٹھا کے انگلی وہ سب پہ الزام دھر رہے ہیں.jpg
اٹھا کے انگلی وہ سب پہ الزام دھر رہے ہیں.jpg (160.61 KiB) Viewed 1669 times

محبّتوں سے محبّت سمیٹنے والا
خیالؔ آپ کی محفل میں آج پھر آیا

muHabbatoN se muHabbat sameTne waalaa
Khayaal aap kee maiHfil meN aaj phir aayaa

Ismail Ajaz Khayaal

(خیال)
Post Reply